Home / Socio-political / منموہن – گیلانی ملاقات اور پاکستانی پروپیگنڈہ

منموہن – گیلانی ملاقات اور پاکستانی پروپیگنڈہ

 saarc

          28 اور 29 اپریل، 2010 کو بھوٹان دارالحکومت تھمپو میں سارک ممالک کی 16 ویں چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سارک ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت نے شرکت کی۔ دو خاص اسباب کی بناپر یہ سارک چوٹی کانفرنس پوری دنیا کی توجہ کا باعث رہی۔ اول، یہ سال سارک کے قیام کی سلور جوبلی یعنی 25 ویں سالگرہ ہے۔ 1985 میں جنوبی ایشیا کے 8 ممالک – ہندوستان، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ – نے علاقائی تعاون کے مقصد سے سارک کی بنیاد ڈالی تھی۔ دوئم، تھمپو میں منعقد ہونے والی سولہویں سارک چوٹی کانفرنس کا بنیادی موضوع ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ منتخب کیا گیا تھا۔ آج ساری دنیا اس فکر میں لگی ہوئی ہے کہ گلوبل وارمنگ، گلیشیئر کے پگھلنے اور موسمیات سے متعلق اس جیسے دیگر چیلنجوں کا سامنا کیسے کیا جائے اور کاربن اخراج میں کیسے تخفیف کی جائے تاکہ اس کرئہ ارض کو ختم ہونے سے بچایا جا سکے۔

imagesCAT7WVV7

          لیکن اس کے ساتھ ہی ساری دنیا کی نظریں اس سارک چوٹی کانفرنس کے دوران جنوبی ایشیا کے دو سب سے بڑے پڑوسی اور باہم حریف ممالک، ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم کی ملاقات پر بھی ٹکی ہوئی تھیں۔ ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بھوٹان پہنچنے سے پہلے ہی دنیا کے مختلف اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر ہند و پاک میٹنگ بحث کا اہم موضوع بنا رہا۔ عالمی میڈیا نے جہاں ایک جانب اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو باہمی رشتوں کی بحالی کے لیے بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنا چاہیے، وہیں دوسری جانب پاکستانی میڈیا اپنا ایک الگ راگ الاپتی رہی۔ پاکستان کے چند سرکردہ رہنما بھی اپنی بیان بازیوں سے باز نہیں آئے اور ہندوستان پر مسلسل الزام لگاتے رہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے باہمی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کا کوئی مثبت جواب نہیں دے رہا ہے۔ 28 اپریل سے پہلے تک ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کے اخبار اسی تذبذب کا شکار رہے کہ بھوٹان میں منموہن اور گیلانی کے درمیان ملاقات ہوگی بھی یا نہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کبھی یہ کہتے کہ سولہویں سارک چوٹی کانفرنس کے دوران منموہن اور گیلانی ملاقات کر سکتے ہیں، تو کبھی یہ کہتے کہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوگی۔ وہیں دوسری جانب ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اور خارجہ سکریٹری نروپما راؤ نے کبھی واضح الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ منموہن – گیلانی ملاقات ہوگی ہی، البتہ وہ اپنی جانب سے یہ اشارہ دیتے رہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوئے ہیں لیکن چونکہ پاکستان کی جانب سے ملاقات کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے لہٰذا ابھی یہ طے نہیں ہے کہ آیا دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ہوگی بھی یا نہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستانی خارجہ سکریٹری نروپما راؤ نے واضح الفاظ میں نامہ نگاروں کو ایک دن یہ بھی بتایا کہ ’دیکھتے ہیں بھوٹان میں حالات کس قسم کے بنتے ہیں، اس کے بعد ہی اس ملاقات پر غور کیا جائے گا‘۔ لیکن مطلع اس وقت صاف ہوگیا جب 28 اپریل کو ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے حکومت کی جانب سے باقاعدہ اعلان کردیا کہ 29 اپریل کو ہندوستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان تھمپو کے بھوٹان ہاؤس میں ملاقات ہوگی۔

ہندوستان کی جانب سے کیے جانے والے اس اعلان کے فوراً بعد ہی پاکستان کے سرکردہ رہنما اپنی پرانی طرز پر لوٹتے ہوئے نظر آئے اور انھوں نے چیخ چیخ کر یہ کہنا شروع کردیا کہ ہندو پاک کے درمیان ہونے والی کوئی بھی بات چیت شرم ا لشیخ کے خطوط پر ہونی چاہیے اور آئندہ کے باہمی مذاکرات کی بنیاد بھی شرم الشیخ میں دونوں ممالک کے ذریعے جاری کیا گیا مشترکہ اعلامیہ ہی ہو۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم منمو ہن سنگھ اور پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے آخری بار جولائی 2009 میں مصر کے شہر شرم ال شیخ میں ناوابستہ تحریک کی چوٹی کانفرنس کے دوران ایک دوسرے سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا۔ اس اعلامیہ میں دو باتوں کو خاص طور سے شامل کیا گیا تھا، جسے پاکستان نے اپنی فتح سے تعبیر کرتے ہوئے اس پر خوب جشن منایا تھا اور وہاں کی میڈیا نے بھی اس میں اس کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا تھا۔ شرم ال شیخ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی کے موضوع کو ہندوپاک کے درمیان ہونے والے باہمی مذاکرات سے الگ رکھا جائے گا اور وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اس بات پر بھی اتفاق کر لیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں شر پسندی کو ہوا دینے کا ہندوستان پر جو الزام لگایا جارہا ہے، اگر اس میں واقعی کوئی سچائی ہے تو ہندوستان اس سے متعلق پاکستان کی تشویشوں کو سننے کو تیار ہے اور وہ چاہے گا کہ پاکستان کے پاس اگر اس سلسلے میں کوئی ثبوت ہے تو وہ ہندوستان کے حوالے کرے۔ لیکن ہم سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے پوری دنیا میں پروپیگنڈے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے کہ ہندوستان بلوچستان میں شرپسندی کو ہوا دے رہا ہے اور افغانستان کو مرکز بنا کر پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ حملے بھی کر وا رہا ہے۔ لیکن اپنے ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے پاکستان نے اب تک نہ تو ہندوستان کو کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کیے ہیں اور نہ ہی عالمی برادری کو کوئی ایسی پختہ جانکاری دی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ واقعی پاکستان میں ہونے والی شرپسندی کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ ہے۔ البتہ ہندوستان نے دنیا کے مختلف پلیٹ فارموں سے پاکستان کو بارہا یہ واضح پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ہندوستان کی کوئی خواہش نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کے اندرونی معاملات میں کوئی دخل اندازی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جہاں تک دہشت گردی کو ہندو پاک باہمی مذاکرات سے الگ رکھنے کی بات ہے تو اب ہندوستان نے یہ بالکل واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ تبھی بحال ہوگا جب پاکستان اپنی سرزمین سے ہونے والی ہند مخالف دہشت گردانہ سرگرمیوں کو پوری طرح ختم کرے اور نومبر 2008 میں ممبئی پر کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں پاکستان کے جتنے بھی افراد شامل تھے ان سبھی کو قرار واقعی سزا دلائے۔

          یہی وہ موضوع ہے جو اب پاکستان کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ پاکستان باہمی مذاکرات کے عمل سے دہشت گردی کے موضوع کو اس لیے الگ کرنا چاہتا ہے کیوں کہ اس کی نیت صاف نہیں ہے۔ وہ دنیا کے سامنے یہ دکھاوا تو کرتا ہے کہ اس نے 26/11 ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ حافظ سعید کو نظر بند کردیا ہے لیکن اس کی قلعی اس وقت کھل جاتی ہے جب یہی حافظ سعید پاکستان کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی عوامی ریلیوں سے خطاب کرتا ہے اور پاکستانی حکومت کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ ہندوستان پر جنگ مسلط کردے کیوں کہ، بقول اس کے، ہندوستان نے پاکستان کے پانی کو زبردستی روک رکھا ہے اور پورے پاکستان کو ایک ریگستان میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔ پاکستان نے ہندوستان کو کئی بار یہ یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کا استعمال ہند مخالف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے نہیں ہونے دے گا۔ لیکن حافظ سعید جیسے لوگوں کو ملی کھلی آزادی سے حقیقت پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ اور اب درج ذیل نظم کو غور سے پڑھیں جو پاکستان کے ایک اخبار ’نوائے وقت‘ میں 30 اپریل یعنی منموہن – گیلانی کی ملاقات کے ٹھیک ایک دن بعد شائع ہوئی ہے۔ اس سے پاکستان کے ان ارادوں کا بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ذریعے کیے گئے وعدوں کے تئیں کتنا سنجیدہ ہے ، کیوں کہ اگر وہ حافظ سعید اور اس جیسی ذہنیت کے مالک دیگر افراد کو ہندوستان کے خلاف زہر اگلنے سے نہیں روک سکتا تو پھر بھلا وہ ہندوستان سے رشتوں کو بحال کرنے کی باتیں کیوں کر رہا ہے۔

بجلی مہنگی کیوں ہوتی ہے، کیا ہم کو معلوم نہیں

کیسے سستی ہو سکتی ہے، کیا ہم کو معلوم نہیں

قید ہیں بھارت میں جو دریا بہیں اگر آزادی سے

’’من موہن‘‘ کے آگے یوسف رضا نہ ہوں فریادی سے

آنکھ دکھائیں مُکھ تانیں، میزائل کو لوڈ کریں

بند تجارت کا بھارت سے ہر رستہ ہر روز کریں

کوئی تنازعہ بھارت سے حل ہوگا کیسے باتوں سے

لاتوں کا وہ بھوت ہے سیدھا ہوگا گھونسوں لاتوں سے

تنگ آمد بجنگ آمد کا ایک ہی نعرہ کافی ہے

اس کے ڈیموں کو ’’غوری‘‘ کا ایک شرارہ کافی ہے

امن کی آشا پیار کی بھاشا ڈھونگ ہے غاصب بھارت کا

توڑ دو اب تو ہر اِک رشتہ اس کے ساتھ سفارت کا

حق کی بات مجید نظامی کہتے ہیں جو سنو ذرا

خون سے سینچے بِنا ہمارا ملک نہ ہوگا ہرا بھرا

اپنوں کا مت لہو بہاؤ امریکہ کے کہنے پر

صحرا بن جائے گا گلشن اور ذرا چُپ رہنے پر

سستی کر دو ملک میں بجلی ترکی اور ایران سے لو

سچا پکا عہدِ وفا ارضِ افغانستان سے لو

’’سارک‘‘ بھی گر روک نہ پایا ہٹ دھرمی سے بھارت کو

روکے گا پھر کون بھلا کشمیر میں قتل و غارت کو

امن کے خوگر بیشک ہم ہیں لیکن ہم مکار نہیں

بھارت کی ہر ضد کے آگے جھکنے کو تیار نہیں

ایٹم بم کے خاص بٹن پر انگلی رکھ کر بات کرو

بے معنی، بے مقصد اب مت بھارت سے ملاقات کرو

ریاض الرحمن ساغر، پاکستان

          اس نظم کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کس قدر زہر افشانی کر رہا ہے ا۔ اس زہر افشانی سے سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ حکومت بھی اس طرح کے بے لگام میڈیا سے باز پرس نہیں کرتی ۔ اس سے اور بھی اداروں کو شہہ ملتی ہے جس کے نتیجے میں عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے ۔ان تمام صورت حال اور واقعات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے دن ہندو پاک رشتوں کے لیے خوش گوار ثابت ہوں گے۔ جہاں تک ہندوستان کی بات چیت کو لے کر سنجیدگی کا سوال ہے تو بھوٹان میں ملاقات سے قبل بھی یہ ہندوستان ہی تھا جس نے پاکستان کے خارجہ سکریٹری کو نئی دہلی آنے کی دعوت دی تھی اور خارجہ سکریٹری کی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے سلسلہ کو شروع کیا تھا۔ حالانکہ پاکستانی میڈیا نے اور خود پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ببانگ دہل یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ہندوستان امریکہ کے دباؤ میں آکر پاکستان سے بات کرنے کے لیے آمادہ ہوا ہے۔ بلکہ قریشی نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ’بھارت جو کل تک ہم پر جنگ کرنے کی باتیں کیا کرتا تھا، آج اسی نے ہمیں بات چیت کے لیے دعوت دی ہے‘۔ اور اب سولہویں سارک چوٹی کانفرنس کے موقع پر بھوٹان کی راجدھانی تھمپو میں یہ ہندوستان ہی تھا جس نے سب سے پہلے منموہن – گیلانی میٹنگ کا باقاعدہ اعلان کیا اور پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کے متضاد بیانات کے باوجود اس میٹنگ کو ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور خارجہ سکریٹریز بہت جلد ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے اور باہمی رشتوں میں اعتماد کی بحالی کی کوششیں کریں گے تاکہ جامع مذاکرات کی آگے کی راہیں ہموار ہو سکیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان ہندوستان کی کوششوں اور خواہشوں کا احترام کرے گا اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی فضا قائم کرنے میں ہندوستان کا ساتھ

دے گا۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *