عباس ملک
انتظامیہ کے غیر انتظامی رویے نے اداروں میں جس رویے کو ترویج دی ہے کیا وہ اداروں اور معاشرے کیلئے سود مند ہے ۔اس وقت ملک کے تقریبا سو فیصد اداروں کے وورکزنجی محافل میں اپنے افسران بالا کے خلاف انتہائی نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔کارکن غیر تعلیم یافتہ اور غیر مہذب ہو سکتاہے اور اس سے جاہلانہ اور جارحانہ رویے کا اظہار شاید تعجب انگیز نہ بھی ہو ۔ملک کے انتہائی تعلیم یافہت اور مہذب ترین اداروں سے وابستہ بھی اگر لیبر یونین کے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگ جائیں تو معاشرتی رویوں کا معیار کیا ہو گا۔پرفیسرز ،ڈاکٹرز ،وکلا ء ، استاتذہ ،کلک سب ہڑتالیں کر کے اپنے مطالبات کو نمایاں کرنے کی کوشش میں ہیں ۔اگر یہ مہذب ترین افراد بھی اس معاشرے میں مطمئن نہیں تو پھر ایک عام آدمی کا معیار زندگی ،طرز زندگی اور تفکر زندگی کیا ہو گا۔معاشرے میں بڑھتے ہوئے ادارہ جاتی تصادم کے ہیچھے کیا عوامل ہو سکتے ہیں ۔کیا اسے بھی غیر ملکی مداخلت اور دشمن کی کارستانی قرار دے دیا جائے ۔اگر ہاں تو پھر اس ملک کو بچانے اور اسکی حفاظت کا حلف اٹھانے والی اتھارٹیز اور انتظامیہ عوام کے خون اوران کے ارمانوں کامدفن ٹیکسوں کا استعمال کہاں کر رہی ہیں ۔اگر نہیں تو پھر منتظمہ کی انتظامی امور پر گرفت قابل غور اوران کی نااہلی عیاں ہے۔صدر بھی محترم ،وزیر اعظم بھی قابل احترام اور اپوزیشن بھی قابل فخر تو پھر مسائل کیسے اور کیوں پیدا ہوتے ہیں ۔پاؤ گوشت کی خاطر بھینس ذبح کرنے کی مثال سے سبہی واقف ہیں اور اس کے استعمال کے عملی مظاہر سب دیکھتے رہتے ہیں ۔بہتی گنگا سے مستفید نہ ہو سکنے کی حسرت ہر دل ناتواں کو ہے ۔جس کو جہاں بھی اختیار حاصل ہے وہ اسے استعمال کرنے میں بے باک ہے ۔شہیدوں کے وارث اور غازیوں کا جتھہ مل کر بھی اگر اس قوم کی ناؤ پار لگانے میں ناکام ہے تو کیا انہوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ اس ناؤ پر اضافی بوجھ کہاں اور کس کا ہے ۔یہ اگر ہچکولے کھا رہی ہے تو اس کا سبب کیاہ ے ۔اگرچہ سب محب الوطن اور خادم ہونے کے داعی ہیں پھر محرومیوں کا دفتر اس قدر وسیع کیوں ہے ۔ہر طرف چھین لو اور لوٹ لو کا سماں کس سبب ہے ۔اگرچہ حق اور حقیقت کا بیاں نوک قلم سے بھی امر آساں ہرگز نہیں لیکن عمل پیہم شاید اس سے کہیں زیادہ متقاضی ہے ۔وفاق او راس کی اکائیوں پر اگرت انتظامی امور کے سبب گرفت نہیں ہو پاتی تو کیا اس کا حل یہ ہو گا کہ اکائیوں کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذار کر چھوٹا کر دیا جائے ۔گروہی ،لسانی اور حسبی بنیادوں پر سیاست کرنے والے سیاستدان سماجیت اور خدمت کو سیاست کی بنیاد ہی نہیں سمجھتے تو ان سے خدمت اور اتحاد نظم و ضبط کی توقع کیسے اور کیوں کی جائے ۔سیاست رتبے کے حصول کا سبب یا زینہ قرار پائے تو لا زمی امر ہے کہ یہ زینہ عوام کاسینہ ہی ہوگا۔ملک میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن اگرچہ عوام سے براہ راست متعلق نہیں لیکن کم از کم نام تو تھا ۔یہ تو کہا جا سکتا تھا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے کوئی ادارہ تو موجود ہے ۔سیاستدانوں نے اس کو بھی اپنی راہ کا روڑا جان کر ایشو بنا کر راہ سے ہٹانے کی سبیل کر لی ۔جس ملک میں دبل ایم اے میڑک پاس کے نیچے کا م کر رہا ہو اس کی ترقی کا معیار قابل غور ہو نا بھی چاہیے۔کمیشن آفیسر کی اکثریت اپنے اپ کو مافوق الفطرت جان کر حکم کرنا اپنے حق گردانتی ہے کی تعلیم اور ان کے ٹکینکل کورسسز کا معیار کیا ہے ۔ملک کو فارم ہاؤس کے طور پر اور ایک فلاحی اور جہوری ریاست کے طور پر چلانے میں بہت فرق ہے۔سرکاری اراضی کو مادر شیر کی طرح ہضم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے یا اداروں کے بجٹ کو مال سسرال جان کر اڑانے کی سوچ کے حاملین سے اداروں کی ترقی اور کارکنوں کی بہبود کا تصور بھی عبث ہے ۔ادارے یا معاشرہ اس وقت ترقی کی منازل طے کرتا ہے جب اس کے اکابرین کارکن کے شانہ بشانہ اس کاوش میں شامل ہوتے ہیں ۔قائد اعظم کا طرز زندگی عام لوگوں کی نسبت بلند تھا لیکن انہوں نے کارکن کے ساتھ کبھی مخصمانہ رویہ اختیار نہیں کیا تھا ۔وہ نظم و ضبط کا قائل تھے اور اس پر عمل کرنے اور کر انے میں بھی یکتا تھے ۔ان کا پروٹوکول بھی تھا لیکن اس میں فرعونیت کا عنصر کا شائبہ نہیں تھا ۔انہوں نے ذاتی تعشیشات کیلئے مسلم لیگ کے فنڈز کو کبھی استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کسی او رکو کرنے کی چھوٹ دی۔سیاست انہوں نے بھی کی لیکن صرف کارکنوں کو قربانی دینے کے درس پر ذور نہیں دیا بلکہ خود بھی اس کی عملی مثالیں قائم کیں ۔قائد کی پوشاک و لباس کے قیمتی ہونے کے بارے میں شاید ہی کوئی تذبذب ہو ان کا طرز رہائش و زیبائش بھی کوئی مخفی نہیں تو کیا کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ وہ دیگر اصناف حکمرانی سے بے بہرہ ہونگے۔یہی بات ان کو قائد اعظم بناتی ہے کہ وہ فرعون جیسے منصب پر فائز ہو کر بھی فرعونیت کے پیروکار نہیں تھے ۔اگر قیام پاکستان کیلئے کارکنوں سے مطالبہ کیا تو خود بھی قربانی کیلئے خود کو پیش کیا ۔مسجد کے ملا کی طرح چندہ کیلئے دوسروں کے سامنے دامن نہیں پھیلایا بلکہ اپنی جیب سے چندہ دیکر اس کی ترویج و شروعات کی ۔وہ قوم کے مسیحا تھے اور اک یہ قوم کے مسیحا ہیں ۔خواہ یہ سیاستدان کے روپ میں ہوں ،ڈاکٹرز ،یا بیوروکریٹ ہو ں ۔انہیں اپنی تنخواہوں ،اپنی مراعات ،اور پنی فکر ہے لیکن جس قوم کی خدمت کے دعوی اور جس قوم کی نگہبانی کے نعرے لگاتے ہیں وہ ان کے روپ دیکھ کر گنگ ہو چکی ہے ۔اس قوم کو اتنے فریب دئیے گئے کہ اب اس میں شاید احتجاج کی بھی سکت نہیں رہی ۔اب یہ کوہلو کے بیل کی طرح بس زندگی کے دن گذارنے پر مصر ہیں ۔ان میں زندگی کی رمق ختم ہو چکی ہے ۔ان میں انا ،خوداری اور حمیت کا
عنصر سلا دیا گیا ہے ۔ان سے اب زندگی اور غیرت کی تمنا مچھر کو کپڑے پہنانے کی تمنا سوا کچھ نہیں ۔غریب ہو یا امیر ہر کوئی اک دوسرے سے خوف زدہ ہے ۔یہ ایک امت نہٰں جس کی متعلق سرکار نے فرمایا کہ جس کے جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم یہ درد محسوس کرتا ہے ۔اب اپنا اپنا درد ہے ۔بھٹو کیس کو ری اوپن کرا کے قوم کے خزانے کولٹانے والے اگر یہی مال غنیمت ڈاکٹرز کو تقسیم کر دیں تو شاید وہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کو تیار ہو جائیں گے ۔حکمرانوں کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں کی خرید پر صرف ہونے والا زر اور پارلیمنٹ لاجز کیلئے مختص ہونے والا قومی خزانہ اگر ڈیمز اور بجلی پیدا کرنے کے وسائل پر لگایا جائے تو ملک سے اندھیروں کاراج ختم ہو سکتاہے ۔مسیحا دن یا رات نہیں دیکھتا اسے فخر مسیحائی ہوتا ہے ۔اسے آؤ بھگت اور پروٹوکول کی ضرورت نہیں ہوتی وہ صرف خدمت کرنا جانتا اور اپنے مشن کی کامیابی کا دھنی ہوتاہے ۔مسیحائی اور قصائی میں فرق دور کرنا بھی مچھر کو کپڑے پہنانے کی تمنا ہی تو ہے ۔ہمارے تما م شعبہ جات جو کہ مشنری جذبے کے تحت آتے ہیں خواہ وہ پولیس ہو ،ڈاکٹرز ہو ں یا سیاستدان سب ہی پروٹوکول اور مراعات و دولت کے طالب ہیں ۔پھر معاشرے میں امن کی تمنا ،صحت و بہبود کہاں سے آئے گی ۔ مسیحائی اور قصائی میں کوئی فرق نہیں رہا ۔قصائی بھی پاؤ گوشت کیلئے بھینس ذبح کر دیتاہے اور مسیحا بھی اپنے پیٹ اور خواہشات کیلئے ملک اور قوم کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کررہے ۔