میڈیا زیر عتاب ہے لیکن ایسا نظر نہیں آتا کہ وہ زیر اصلاح بھی ہے ۔خو د اس میڈیا کا کردار ہوتے ہوئے مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ میڈیا کا قلم زبان عکاسی اور اس کی کاٹ نام اور کام نکالنے کیلئے استعمال ہو نے کے سبب میڈیا معاشرے میں اپنا وقار کم کر رہا ہے ۔ میڈیا معاشرے کا اہم ترین ستون ہے اور اس کی اہمیت سے انکار کرنا کم از کم اس دور میں ممکن نہیں ۔ میڈیا معاشرتی ابلاغ اطلاع و اصلاح تشکیل نواور بگاڑ کیلئے کردار ادا کر تا ہے ۔ استعمال کرنے اور کرانے والے کردار اس کا بنیاد ی کردار واضح کرتے ہیں ۔ میڈیا کو اس کے اصل مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے یا اس ذاتی مقاصد کے تابع کر دیا گیا ہے ۔میڈیا کو معاشرتی مقاصد کی بجائے سیاسی مقاصد کے لیے استعما ل کرنے سے میڈیا میں منفی رجحان کا اضافہ ہو ا ۔ تاکید کی بجائے تنقید پر زیادہ زور دیا جانے لگا ۔ معاشرتی اصلاحی ادبی نشریات کی بجائے تنقید اور توصیف کے عناصر کے غلبہ نے معاشرے میں انہی کا غلبہ کر دیا ہے ۔ اصلاح کا پہلو پس پشت ہوکر معاشرے میں تنقیداور خوشامد کاعنصر عود کر آیا ۔ ذرائع ابلا غ پر مشنری عناصر کی بجائے اب مختلف مافیا کے نمائیندے بیٹھے ہیں۔ میڈیا بنیادی کردار ادا کرنے کی بجائے تنقید برائے ریٹنگ اور تنقید برائے خود نمائی ہو گیا۔ میڈیا جو دوسروں کے سکینڈل دکھانے چھاپنے اور سنانے پر معمور تھا کے اپنے سکینڈلز اب دکھائی ، سنائی اور چھپنے لگے ۔ اس سے اب لوگوں کا زرائع ابلاغ پر سے غیر متزلزم یقین ڈانوڈول ہو ا۔میڈیا میں تنقید اور توصیف کے جس کلچر کو ہو ا دی جاتی ہے اس سے دیکھنے سننے اور پڑھنے والے قاری سامع یا ناظر کو اس سے متنفر کرنے کی بجائے اس کی طرف راغب کیا ۔ قاری یہی سمجھتا ہے کہ یہ طریقہ درست ہے جس سے وہ اپنے مفادات خواہشات اور ضروریات کا حصول ممکن بنا سکتا ہے ۔اب ہر طرف یا تو تنقید کے نشتر ہیں یا پھر توصیف کے گلدستے پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر حق یا سچ بات بھی کی جائے تو اس پر تنقید برائے ریٹنگ ضرور کی جائے گی کیونکہ ایسا کرنا اب ضرورت خیال کیا جاتا ہے ۔ یہ تنقید کسی قومی ملی مفاد کے تناظر میں نہیں بلکہ صرف شخصی پسند و ناپسند کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے ۔ پیسہ دے تماشہ دیکھ کے مصدق اب میڈیا بھی سیاست کی طرح پیسے کی لونڈی بن چکا ہے ۔میڈیا عوام کی آواز کہلانے کی بجائے اب مافیا کی زبان بن جانے میں کوئی ہتک و عار محسوس نہیں کرتا ۔ جس طرف سے اسے آمدن کی توقع ہو یا جو اس کے مفادات کا تحفظ ہو یا اس کی خواہشات کی تکمیل میں ممدد ہو میڈیا اس کیلئے وقف ہو جاتا ہے ۔حکمرانوں اوران کے گماشتوں کے کرتوتوں سے پردہ نہ اٹھانے کیلئے عوام کی توجہ ضمنی مسائل کی طرف کر دی جاتی ہے ۔ غیر ضروری خبروں کو ہیڈ لا ئن جبکہ عوامی مسائل کیلئے اندرونی صفحات کو مختض کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ میڈیا عوام کیلئے نہیں حکمرانوں کے لا یعنی بیانات کی پروجیکشن کا ذریعہ بن چکا ہے ۔قاری کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سچ اور جھوٹ میں کیا فرق ہے ۔ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ جان کر اس سے نفرت کا اظہار کر دیتا ہے ۔ یہ کھیل مفادات خواہشات کے تابع ہے ۔ ذرائع ابلاغ صرف کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے سبب معاشرے میں کمرشل ازم کو فروغ حاصل ہواہے ۔ معاشرے میں ہر کوئی مفادات کیلئے ہی اگے آتا ہے ورنہ وہ تنہائی کو ترجیح دیتا ہے ۔ اس سے معاشرتی کٹائو کا عنصر تقویت پا رہا ہے ۔ معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے کٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میڈیا پررحمانیت کی بجائے صرف شیطانیت کا رقص ہی چل سکتا ہے ۔معاشرتی گرائوٹ کا سبب اور اہم کردار میڈیا اور ذرائع ابلاغ ہی اسکے ذمہ دار ہیں ۔ ذرائع ابلاغ ہیں جن کی وجہ سے معاشرے کوئی بھی روایت متعارف پاتی اور ترویج پاتی ہے ۔بیشک کہ آج جو بھی ثقافتی روایات زندہ ہیں ان کا کریڈٹ ذرائع ابلاغ ہی کو جاتا ہے ۔ذرائع ابلاغ نے عوامی آواز کو سامنے لانے میں بھی کردار ضرور ادا کیا لیکن اس پر کمرشل ازم اور مفادات کی تہہ چڑھا کر جس انداز میں اسے پیش کیا جاتا ہے اس سے عوام مفادات کی بجائے کمر شل ازم کو فروغ حاصل ہوتا ہے ۔ پیسہ د ے تماشہ دیکھ ذرائع ابلاغ کی موجودہ صورت حال کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے لیے پیسہ کے بغیر اس دور میں اگے بڑھنا اور پبلیشرز کیلئے بقائ حاصل کرنا ناممکن سی بات ہے ۔دیانت کا سبق دینے والا میڈیا دیانتداری سے بددیانتی کے کاروبار میں شریک اور بدیانتی پرفاخر ہے ۔سیاستدانوں کی طرح پینترے بدل کر راست گوئی اور حق پرستی کا یقین دلاتا رہتا ہے ۔ حق پرست اور راست گو میڈیا پر ہی اسلام اور مشرقی روایات کے چیتھڑے بھی اڑتے ہیں۔ عوام کو دغا دینے والے ہر کردار کے عیوب کا میک اپ کر کے اسے بے داغ دکھایا جاتا ہے ۔ دونمبر اشیا ئ کے اشتہارات کو انتہائی اشتہا انگیزی اور نشاط پذیری کے ساتھ دکھایا جاتا ہے ۔ میڈ ان پاکستان کی بجائے میڈان انڈیا کی پرموشن کی جاتی ہے ۔پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کی بجائے شخصیات کے ساتھ نتھی کیا جاتاہے ۔ دوقومی نظریہ کی نفی کر کے دوستی کے نعرے اور سرحدوں کو ایک رکاوٹ قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ میڈیا کے ستون بک جاتے ہیں جھک جاتے ہیں اور اپنی جگہ چھوڑ جاتے ہیں ۔ رقص وسرور کو عین اسلامی ثقافت کے آمین اقدام کے طور پیش کیاجاتا ہے ۔ ہر اس چیز کی تکفیر اور ہر اس فعل کا تمسخر اڑایا جاتا ہے جس کا تعلق مشرق اور اسلام سے ہے ۔پھر بھی یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاشرتی ستون ہے ۔ دوسرے ستونوں کی طرح یہ ستون بھی گر چکا ہے ۔ معاشر
ے سے چھت ، چادر اور چار دیواری ، پردہ سب کچھ عنقا ہو چکا ہے ۔ گر م سرد ہوائیں جھلسا کپکپا رہی ہیں لیکن مکینوں کی داد رسی کیلئے کوئی نہیں آتا ۔ میڈیا وقوعہ پر حاضری اورخبر کے حصول کیے ساتھ ریٹنگ میں آگے آنے کیلئے موجود ہوتا ہے ۔ ناظرین میڈیا تو یہاں موجود ہے لیکن دیکھیں کوئی اور ادارہ ابھی تک نہیں پہنچ پایا ۔ ڈوبتے کی ہاتھ بڑھا کر اسے بچانے کی کوشش نہیںکرنی کیوں کہ یہ ریسکیو والوں کا کام ہے ۔میڈیا تو صرف خبر دینے آگ لگانے کیلئے ہے بجھانے کیلئے نہیں ۔ میڈیا شور مچانے کیلئے ہے ، کم کرنے کیلئے نہیں ۔ میڈیا ٹینشن کے اسباب پیدا کرتا ہے لیکن کم نہیں کرتا۔ میڈیا تقسیم کرتا ہے لیکن جوڑتا نہیں ۔ میڈیا جھکنے اورڈرانے کیلئے توہے لیکن ہمت بڑھانے اور اگے بڑھنے کی تاکید کیلئے نہیں ۔ تنقیدبرائے تنقید کو اگر تنقید برائے اصلاح کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے اصلاح کی امید ہو سکتی ہے ۔ ورنہ پی ٹی سی ایل کی طرح یہ بھی کمپلینٹ نمبر دے کر 24 گھنٹے انتظار کرنے کی تاکید ہی بن جاتی ہے ۔وہ ایشو جو 5منٹ میں حل ہو سکتا ہے کیلئے 24گھنٹے اور وہ بھی کب شروع ہو نگے اور کب ختم ہونگے۔ اتوار کو ناغہ ہوتا ہے اس لیے کچھ نہیں ہو سکتا۔ بے شک خبروں کی ترسیل ہو یا نہ ہو ۔ لوکل کمپلینٹ سیل کا وجود ہی نہیں ۔ لائن مین آج بھی بادشاہ ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی بنیاد ہی بے بنیاد تاویلوں میں الجھی ہوئی ہے ۔ اس کی اصلاح کیلئے عربوں کو ٹھیکہ دیا گیا لیکن وہ بھی شاید اب اللہ سے معافی کے طلب گار ہونگے۔ ہم اصلاح کرنا نہیں صرف ڈنگ ٹپائو قوم بن چکے ہیں ۔ جس کا دائو چل گیا وہ بازی لے گیا۔ برائی کی خبر جلی سرخی میں اور اچھائی کیلئے اندرونی پیج پر سنگل کالم ملتا ہے ۔ میڈیا رے میڈیا ، میڈیا اور میڈیا ، اللہ کی امان ۔۔۔۔