Home / Socio-political / ”میں تم پراعتماد نہیں کرتا“

”میں تم پراعتماد نہیں کرتا“

”میں تم پراعتماد نہیں کرتا“

سمیع اللہ ملک ، لندن

پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کی مسلسل کوششوں کے ثبوت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔گیارہ ستمبر کے بعد امریکی اور اتحادی فوجیوں اور منصوبہ سازوں کا فوری ہدف تو بلاشبہ افغانستان اور اس کے بعد عراق تھا۔لیکن یہ حقیقت مسلم دانشوروں سے کبھی پوشیدہ نہیں رہی کہ امریکا پر انتظامی اور مالی طور پر چھائے ہوئے یہود و نصاریٰ اپنی مشترکہ قوت سے دراصل دنیا بھر کے مسلمانوں کو کمزور و بے بس کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔وہ درحقیقت ایران،پاکستان اور سعودی عرب کو مسلم دنیا کے اتحاد اور اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔سعودی عرب مسلمانانِ عالم کا روحانی مرکز اور آرزوﺅں کی سرزمین ہے۔ اس مرکز کو ختم کرنا عظیم تر اسرائیل کے نقشے میں شامل اور صہیونی منصوبے کا نہایت اہم حصہ ہے۔مدینہ منورہ پر وہ پہلے ہی اپنا حق سمجھتے ہیں کیونکہ نبی کریمﷺکی ہجرت اور یہاں تشریف آوری سے پہلے یثرب میں یہودیوںکی کثیر آبادی تھی۔

آیت اللہ خمینی کے انقلاب کے بعد ایران نے امریکا اور مغرب کی بالادستی کو کبھی قبول نہیں کیا بلکہ امریکا کو بڑے شیطان کا نام دیا اور جب تک سوویت یونین کے افغان مجاہدین کے ہاتھوں پرخچے نہیں اڑ گئے۔ایرانی قیادت کی نظروں سے وہ چھوٹا شیطان قرار پایا۔اس صورت میں ایران کیلئے یہود و نصاریٰ کی دشمنی قابلِ فہم ہے،باقی رہا پاکستان،تو اسلام کی بنیاد پر وجود میں آنے والا یہ کمزور ملک جب ایٹمی قوت بن گیا تو بڑی طاقتوں کی نظر میں بری طرح کھٹکنے لگا۔ طاغوتی قوتیں ہر گز نہیں چاہتیں کہ دنیا کا واحد ایٹم بردار مسلم ملک پاکستان مضبوط و مستحکم ہو چنانچہ پچاس کے عشرے سے وطن عزیز میں امریکی مداخلت اور سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔گیارہ ستمبر کے بعد پاکستان کا امریکا سے عملی تعاون اسے شاید فوری طورپر اتحادی فوجیوں کے حملوں سے بچانے میں کامیاب ہوگیا لیکن اہل مغرب کی پاکستان دشمن سازشوں میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔نئے سال کی آمدپرشمالی وزیرستان پرایک ہی دن میں چارڈرون حملوں میں ۵۲سے زائدافرادلقمہ اجل ہوگئے ہیںاور دودرجن سے زائد موت وحیات کی کشمکش میں مبتلاہیں۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی کمیٹی میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں یعنی ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک ارکان نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان، امریکا اور دنیا پر آئندہ دونوں پر ایک نہایت سخت مرحلہ آنے والا ہے۔لہٰذا امریکا کو ایٹمی ہتھیاروں کے حامل پاکستان کیلئے ہنگامی منصوبہ تیار کرلینا چاہئے۔یہ امر پیش نظر رہے کہ صدر سمیت امریکی انتظامیہ صہیونیوں کی مرضی و منشا کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتی ۔امریکا کی قومی پالیسیوںمیں حکومتوں کی تبدیلیوں کے ساتھ بڑی تبدیلیاں واقع نہیں ہوتیں بلکہ ان کا تسلسل معمولی کمی و بیشی کے ساتھ ہمیشہ جاری رہتا ہے جبکہ اپنے وطن میں آئے دن کوئی نیا شگوفہ چھوڑ کر عوام و خواص کو کسی الجھن میں مبتلا کردیا جاتا ہے تاکہ عوام کے حقیقی مسائل اور ان کے اسباب و عوامل اور ذمے داروں سے توجہ ہٹائی جاسکے۔پچھلے چنددنوں سے ذرائع ابلاغ کے علاوہ سرکاری حلقوں میں ہر جگہ اتحادی جماعتوں کااچانک حکومت کوچھوڑ دینے کے اسباب و محرکات پر اس قدر شد و مد سے بحث و تمحیص جاری ہے گویا اس کے سوا ملک و قوم کا کوئی اور مسئلہ باقی نہیں بچا حالانکہ بقول شاعر ”اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست(محبت)کے سوا“۔ہمارے ارباب اقتدار کے خیال میں وطن عزیز کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے خطرات لاحق ہیں جبکہ معروضی حقائق اس کے بالکل برعکس حالات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

پاکستان اور امریکا پر آئندہ دونوں سخت مراحل آنے کا خدشہ ظاہر کرنے والے امریکی ایوان نمائندگان کی دونوں بڑی پارٹیوں کے ارکان نے صرف پاکستان کیلئے کسی ہنگامی منصوبے کی ضرورت کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ ”ایٹمی ہتھیاروں کے حامل“ پاکستان کہہ کر اپنے عزائم بے نقاب کردئیے ہیں۔ ویسے بھی امریکا بہادر کو پاکستان کے بارے میں اپنے منصوبے خفیہ رکھنے کی اب کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔وہ ہمیں اپنا بندہبے دام سمجھ کر پختہ یقین رکھتا ہے کہ یہاں اس کی مرضی کے خلاف پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا۔پاکستان میں صورتِ حال خراب ہونے پر اس سے نمٹنے کی امریکی خواہش دراصل ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا بہانہ تلاش کرنے کی کوشش ہے۔اس معاملے میں امریکی انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں کو بہانے کی ضرورت اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ اس نے افغانستان کو تباہ کرنے میں ہم سے پورا تعاون حاصل کیا ہے۔جھوٹے منہ ہی سہی، وہ عالمی برادری میںپاکستان کو اپنا اہم اتحادی قرار دیتا ہے۔امریکا کے لئے کسی ملک میں صورتِ حال خود خراب کردینا ہر گز مشکل نہیں ہے۔

باب ورڈزکی مشہورزمانہ کتاب ”اوبامہ وارز“میں خاص طورپرپاکستان کاباربارذکرکیاگیاہے جہاں مصنف کے مطابق امریکااپنی ایک اہم خفیہ جنگ میں برسرپیکارہے۔اپنی اس کتاب میں اس نے انتہائی خوفناک انکشافات کئے ہیں۔وہ اپنی کتاب میں تحریرکرتاہے کہ” امریکانے پاکستان میں سرکاری اجازت سے کئی اڈے بنارکھے ہیں جس میں کوئٹہ میں اڈہ قائم کروانے کےلئے سی آئی اے کاسربراہ خودپاکستان آیا۔۷۱نومبر۹۰۰۲ءکوامریکی صدر اوبامہ کاخصوصی مشیر ٹونی بلیکن نے امریکامیں پاکستانی سفیرحسین حقانی کوبتایاکہ گوپاکستان نے دہشتگردوں کے خلاف سوات اوروزیرستان میں بڑے کامیاب آپریشن کئے ہیں مگراب بھی پاکستان کی کارکردگی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے اورامریکاکوپاکستانی انٹیلی جنس اورکچھ دہشتگردگروپوں سے شکائت ہے اورپاکستان کوان کے خلاف ہرروزکاروائی کرناہوگی۔اس ملاقات کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعدسی آئی اے کاڈائریکٹرپنیٹا اسلام آبادآ دھمکا جہاں وہ سیدھاآصف زرداری سے ملااوراس کے فوری بعد عسکری قیادت سے اپنی ملاقات میں یہ مطالبہ دہرایاکہ وہ امریکاکے دشمنوں کواپنادشمن سمجھیں کیونکہ اس طرح پاکستان بچ سکتاہے“۔

اس نے اپنی دھمکی میں زوردیتے ہوئے کہاکہ” طالبان کاکمانڈ اینڈ کنٹرول کوئٹہ میں ہے جہاں یہ بم وغیرہ بناتے ہیں جوبعدازاں افغانستان میں امریکی اوراتحادی فوجیوں کی ہلاکت کاسبب بنتے ہیںاورکوئٹہ میں اسی لئے امریکی شہریوں کوبارہاقتل کیاجاتاہے‘اس لئے امریکااب مزیدبرداشت نہیں کرے گا“۔اس دھمکی کے بعد سی آئی اے نے کوئٹہ میں اپنی موجودگی کولازمی قراردیا۔پاکستان نے یہ بات فوری مان لی اوراس طرح سی آئی اے نے کوئٹہ میں اپنابیس قائم کرنے میں بالکل تاخیرنہیں کی ۔اس وقت کوئٹہ بیس میں سی آئی اے کے کافی ایجنٹ موجودہیںاوران ایجنٹوں کوپاکستان کی موجودہ حکومت نے اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ اگرانہیں ملاعمریاطالبان کی اعلیٰ قیادت نظر آجائے توفوری طورپرکسی کواطلاع دیئے بغیرانہیں ہلاک یاگرفتارکرسکتے ہیں اوراس کے بدلے امریکاکوئٹہ میں ڈرون حملے نہیں کرے گا۔ کوئٹہ میں اپنابیس قائم کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھرپنیٹا نے پاکستان سے مطالبہ کیاکہ اب بھی پاکستان کی طرف سے کیاجانے والاتعاون کم ہے اوراب پاکستانی انٹیلی جنس کوسی آئی اے کے ساتھ مل کرپاکستان میں آپریشنز بڑھانے ہونگے اوراس کےلئے پاکستان میں سی آئی اے کے ایجنٹوں کوبڑی تعدادمیں پاکستان آناہوگا۔

پاکستان کی عسکری قیادت نے اس مطالبے پراپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ ہچکچاہٹ کامظاہرہ کیالیکن ہمارے حکمرانوں نے سی آئی اے کے ایجنٹوں کوپاکستان آمدکی اجازت دے دی اورفوراًہی بڑے پیمانے پرسی آئی اے کے ایجنٹوں کوپاکستان کےلئے ویزے جاری کرنے شروع کردیئے۔مثلا ۸۱ جنوری ۰۱۰۲ءکوسی آئی اے کے ۶۳/ایجنٹوں کوفوری طورپرپاکستان آنے کےلئے ویزے جاری کردیئے گئے اور اس کے بعد10/اپریل 2010ءکوسی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹراسٹیوکاپس نے ذاتی طورپرمزیددس ایجنٹوں کےلئے پاکستانی ویزے حاصل کئے‘اس طرح پاکستان میں سی آئی اے کے ایجنٹوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتاجارہاہے جوپاکستان میں شتربے مہارکی طرح کاروائیوں میں مصروف ہیں۔امریکا بلوچستان میں ایک محتاط انداز میں بلوچستان لبریشن آرمی کی حمایت اس بناءپر کر رہا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر اس فورس کو ایران کے خلاف استعمال کر سکے اوراب ہم دیکھ رہے کہ دن بدن پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات انتہائی تیزی کے ساتھ خراب ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکا نے تاحال”بی ایل اے“اور”جنداللہ“کو دہشت گرد فورس کے زمرے میں شمار نہیںکیا،اور یہ امر یقینی ہے کہ امریکا بلوچ قبائل کو بنیادی طور پر اس مقصد کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان میں جو چینی ماہرین اورکارکن مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے۔

پاکستان کو زوال سے دو چار کرنے کے حوالے سے امریکا تو ایک عرصے سے اپنی وسیع المیعاد پالیسی پرکار بند ہے اور وہ دھیرے دھیرے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے مگر اب بھارت اور کابل بھی مل کر پاکستان پر فوری طور پر کاری وار کرنے کے در پے دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان اور قبائلی عمائدین کے مابین اختلافات کو ہوا دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور امریکا کی بھی ان دونوں قوتوں کو آشیر باد حاصل ہے۔اس تخریبی سوچ کا ایک اہم جزو یہ ہے کہ اگر مقامی آبادی کو امریکا کے خلاف اس حد تک بد گمان کردیا جائے کہ امریکی عوام کو بھی یہ یقین آنے لگے کہ پاکستان بھی امریکا کے خلاف اسی طرح کے خطرناک عزائم رکھتا ہے جیسے ایران۔ایسا ہونے پر اس کے دلِ مضطر کو چین نصیب ہو جائے گا۔پاکستان کے شمالی علاقوں میں قبائلیوں اور سیکورٹی اہل کاروں کے درمیان تصادم کرانے کی سازشیں،ان سب کے پیچھے صہیونی و امریکی اور بھارتی منصوبہ سازوں کے ہاتھ تلاش کئے جاسکتے ہیں۔

 اب انہیں جنرل پرویزکیانی پر بھی پورا اعتماد نہیں رہا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مشہورامریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ نے اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیاہے کہ” امریکاجنرل کیانی کوشمالی وزیرستان پرحملے کےلئے قائل کرنے میں ناکام ہوگیاہے “۔امریکی اخبارنے جنرل کیانی پرالزام عائدکیاکہ” پاکستان کی جانب سے پیداکی گئی تکلیف دہ مشکلات کی پشت پرجنرل کیانی ہی ہیں اوروہ اس حوالے سے پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کی پوری طرح نمائندگی کرتے ہیں ۔ایک طرف اوبامہ انتظامیہ جنگجووں کودشمن سمجھتے ہوئے ان کی کسی بھی صورت میں خاتمہ کی متمنی ہے وہیں دوسری طرف پاکستان انہیں خاص کربھارت کے تناظرمیں اپنااثاثہ سمجھتاچلاآرہاہے“!واشنگٹن پوسٹ نے امریکی اعلیٰ عہدیداروں کے حوالے سے یہ انکشاف بھی کیاکہ ”ستمبرمیں جب پاکستانی حدودمیں نیٹوہیلی کاپٹرزکی کاروائی میں ۲ایف سی اہلکارشہیدہوئے تھے توردعمل میں نیٹورسدبندکرنے کاحکم جنرل کیانی نے ازخود جاری کیاتھا“۔

امریکی اخبارنے نومبرمیں وکی لیکس پرخفیہ امریکی سفارتی مراسلوں کی بازگشت کے دوران پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگومیں جنرل کیانی کایہ جملہ بھی لکھا”پاکستان امریکاکاسب سے زیادہ دھمکایاگیااتحادی ہے اورامریکاکی اصل حکمت عملی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کاخاتمہ ہے“۔امریکی اخبارکے مطابق گزشتہ ایک ملاقات میں جنرل کیانی نے امریکی جنرل ڈیوڈپیٹریاس سے باربارجہاں یہ پوچھاکہ افغانستان میں امریکاکے اسٹرٹیجک مقاصد کیاہیں وہیں انہوں نے یہ تک کہہ دیاکہ” میں تم پراعتمادنہیں کرتا“۔ایک امریکی عہدیدار نے واشنگٹن پوسٹ کوبتایاکہ” پاکستان میں آئے اب تک کے تمام فوجی سربراہوں میں جنرل کیانی سب سے زیادہ بھارت مخالف ہیں“۔

پاکستان کو درپیش مسائل کا میں نے اوپر کی سطور میں ایک اجمالی جائزہ پیش کر نے کی کوشش کی ہے۔اس سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ وطنِ عزیز آج داخلی اورخارجی دونوں محاذ پر سنگین آزمائشوں سے دو چار ہے۔داخلی سطح پر سیاست کے شعبے میں داخلی خلفشار نے قوم کی صلاحیتوں کو سلب کرنے کی کوشش کی ہے اور بیرونی محاذ پربھارت، اسرائیل، افغانستان اور امریکا کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کی قومی سلامتی کو گزند پہنچانے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی ہے۔صدرزرداری کی قیادت میں ”روشن خیال قوتوں“کا اتحاد اسی جانب امریکا کی اہم پیش رفت نظر آتی ہے۔لہٰذا محب وطن سیاسی رہنماﺅں اور علماو مفکرین، سب کو امریکا کی چالوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

 

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *