Home / Socio-political / نئے سپاہی اورامریکا

نئے سپاہی اورامریکا

سمیع اللہ ملک،لندن

سلطان اور خان دولت عثمانیہ کا دوسرا تاجدار تھا،اس کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ وہ دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھتا تھا لیکن کمزور فوجی قوت اس کے خوابوں کی تعبیر میں رکاوٹ تھی، اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے اس نے ایک عجیب تدبیر اختیارکی۔ ۷۳۰ ہجری میں اس نے اپنے افسران کو حکم دیا کہ جہاں بھی صحت مند غلام بچے ملیں انہیں خرید لیا جائے اس کے علاوہ جو بھی جنگی قیدی ہوں ان کے صحت مند بچوں کو الگ کرلیا جائے۔اس کے بعد ان بچوں کو نہایت اعلیٰ رہائش گاہیں فراہم کی گئیں جہاں وہ رہتے اور تعلیم و تربیت پاتے انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ سلطان کے سب سے وفادار اور باعتماد افراد ہیں اور ان پر سب سے زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے، جب یہ بچے جوان ہوتے تو اعلیٰ عصری تعلیم کے علاوہ بہترین فوجی تعلیم سے بھی آراستہ ہوتے، انہیں دینی تعلیم میں بھی یکتا کیاجاتا، معززین کے طور طریقے سکھائے جاتے اور فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیا جاتا، اس عہد کے مشہور ولی اللہ حاجی یکتاش نے ان سپاہیوں کا نام ”نئے سپاہی“رکھا جو بعد میں ینی چری کے نام سے معروف ہوئے۔غلامی کی بدترین زندگی گزارنے والے بچوں کو جب سلطان نے سب سے بلند مقام دیا توانہوں نے بھی جانثاری میں کسرنہیں چھوڑی اور سلطنت عثمانیہ کا عروج انہی کی مرہون منت تھا۔ان نئے سپاہیوں کے کارنامے اور بہادری کی داستانیں اتنی عجیب تھیں کہ افسانوی معلوم ہوتی تھیں۔

اس فوج نے جب سلطنت کے لئے لازوال کارنامے انجام دئیے تو خلیفہ کا اعتمادان پر بڑھ گیا انہیں ملک میں خصوصی حیثیت حاصل ہوگئی سلطان کی ان پر شفقت کا یہ عالم تھا کہ ان غلام سپاہیوں کو ملک کی سب سے بہترین رہائش گاہیں فراہم کی جاتیں جہاں یہ اپنے بچوں کے ہمراہ رہتے، اس فوج کے سبکدوش ہونے والے جرنیلوں کو حکومت میں اعلیٰ عہدے دئیے جاتے اور ان کا نام احترام سے لیا جاتا۔ سلطان اور خان کے بعد بھی کئی سلطان گزر گئے اور غلاموں کی اس فوج میں یہ سوچ پنپنے لگی کہ ملک ہماری وجہ سے ہے اگر ہم نہ ہوتے تو ملک بھی نہ ہوتا، قربانی ہم دیتے ہیں اور حکومت سلطان کرتے ہیں،ہماری ذمہ داری ملک کی حفاظت کرنا ہے مگر ہم سے ملک کے کاروبار میں مشورہ نہیں لیا جاتا، فوج کی سرگوشیوں کو سننے کے بعد سلطان وقت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ انہیں بھی اپنے امور سلطنت میں شامل کرے کیوں کہ قوت واقعی اس فوج کے پاس ہی تھی جب کہ سلطان صرف احکامات دے سکتا تھا۔رفتہ رفتہ اس فوج کا اثر اتنا بڑھا کہ تمام بڑے عہدوں پرینی چری کے ریٹائرڈ افسران نظر آنے لگے ان کا زور اس قدر بڑھ گیا کہ کوئی ان کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا،خود خلافت اور سلطنت ان لوگوں کے قبضے میں تھی جسے چاہتے تخت سے اتار دیتے اور جسے چاہتے بٹھا دیتے،اس دور کے سلاطین و ملوک کی داستانیں بڑی عبرت ناک ہیں،کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی کہ کب اسے گھسیٹ کر تخت سے اتار دیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا،جو کچھ بھی ہوتا تھا انہی فوجی افسران کی رہائش گاہوں میں ہونے والے فیصلوں کی وجہ سے ہوتا۔

ملک کی حفاظت کے لئے بنائی جانے والی فوج ینی چری جسے کبھی اس قدر عزت حاصل تھی کہ لوگ اس کا نام احترام سے لیتے تھے، اب ذلت، نفرت اور رسوائی کا نشان بن گئی، لوگ انہیں اپنی نجی محفلوں میں ”سانپ کے بچوں“کے نام سے پکارتے تھے جنہیں دشمن کے مقابل لانے کے لئے دودھ پلا کر پالا گیا تھا مگروہ خود اپنے مالک کو ڈسنے لگے تھے،سلطنت عثمانیہ کا یہ دور فتوحات سے خالی نظر آتا ہے کیوں کہ فوج امور سلطنت میں اس قدر مگن تھی کہ اسے جنگی امور کے لئے وقت ہی نہیں ملتا تھا، اکثر فوجی اجلاس اس بات پر ہوتے تھے کہ نیا خلیفہ کسے بنایاجائے اور اپنے لئے مزید مراعات کس طرح حاصل کی جائیں، کسے وزیر لگایا جائے اورکسے وزارت سے ہٹایا جائے، ینی چری کے افسران رعایا سے اس قدر سختی سے پیش آتے تھے کہ کو ئی معمولی افسر بھی کسی طرف جانکلتا تو لوگوں میں سراسیمگی پھیل جاتی۔ آخرکار سلطان محمود خان نامی خلیفہ نے تخت و تاج کو ان سرکش سپاہیوں سے ہمیشہ کے لئے مامون کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنے بااعتماد ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ انہیں کس طرح سے اپنے کام تک محدود کیا جائے کہ وہ صرف فوجی امور پر توجہ دیں اور امور سلطنت میں دخل دینا چھوڑ دیں۔

سبھی کا یہ خیال تھا کہ اقتدار کا چسکا ایسا ہے کہ فوج اس سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوگی، واحد حل یہ ہے کہ فوج کو بھی کسی فارمولے کے تحت اس طرح اقتدار میں شامل کرلیا جائے کہ وہ بے جامداخلت سے بازآجائے اور اپنی توجہ اصل فرائض کی طرف بھی دے۔ مگر سلطان محمود خان کا خیال تھا کہ اگر فوج کو امور مملکت میں شامل رکھا گیا تو کبھی بھی بہتری نہیں آئے گی بلکہ مزید ابتری کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ محمود خان بھی سلطان اور خان کی طرح اُلو العزم تھا، جس طرح سے اور خان نے ینی چری قائم کی تھی وہ ان کا استیصال کرنا چاہتا تھا، سب کو یہ یقین تھا کہ فوج کا استیصال تو ناممکن ہے البتہ ایک اور عثمانی خلیفہ فوج کا نشانہ بننے جارہا ہے مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سلطان محمود خان کامیاب رہا، ینی چری کا بالکل صفایا کردیا گیا، تمام سرکش افسران کا یا تو قتل کردیا گیا،یا پھر گرفتار کرلیا گیا،سپاہیوں کو فارغ کردیا گیا اور وہ پھر سے ذلت بھر غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ینی چری، جو کبھی عوام کے لئے فخر کی علامت تھی،اس کو تہہ تیغ کئے جانے پر کسی کوافسوس نہ ہوا اورلوگ خوشی مناتے دیکھے گئے جب کہ ملکوں کو اپنے قدموں تلے روند ڈالنے والی وہ فوج جو کبھی اپنے کارناموں کے لئے عالم میں افسانوی شہرت حاصل کرگئی تھی، اپنی بنیاد سے انحراف کے نتیجے میں آسانی سے ایک خلیفہ کے ہاتھوں انجام کو پہنچ گئی۔

حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ قصرِ سفید نے عرب ممالک میں عدمِ استحکام پیداکرنے کیلئے ۱۳کروڑڈالرخرچ کئے ہیں اورامریکاکے سابقہ کردارکومدنظر رکھتے ہوئے یہ چشم کشارپورٹ قرینِ قیاس اورحقیقت پرمبنی لگتی ہے جس دن سے امریکا کی حکومت میں یہودوہنودکااثرورسوخ بڑھاہے اسی دن سے ان مذموم طاقتوں کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے ہرحربہ استعمال کریں اوراس میں یہ تمیز نہیں ہوتی کہ کس قسم کے لوگوں کونشانہ بنایاجائے۔مقصد صرف مفادات کا حصول ہوتا ہے۔وہ تمام لوگ جنہوں نے آج تک امریکا سے تعاون کیاتھابالآخراس کے عتا ب کاشکار ہورہے ہیں۔کئی عرب حکمراں اب بھی امریکاکی آشیربادپرحکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں اورکئی حکمران ماضی میں امریکی ایجنٹ کا کردار اداکرتے رہے ہیں ۔ان میں حسنی مبارک ہوں یازین العابدین یاقذافی ہوں۔آج ایک مرتبہ پھر امریکااپنے ذیلی ادارے اقوام متحدہ کے ذریعے قراردادمنظورکرواکے لیبیاپرچڑھ دوڑا ہے حالانکہ امریکا کو عرب عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔یہ سب کچھ صلیبی اتحادی امریکا کی قیادت میں مسلم ممالک کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے کررہے ہیں لیکن دوسرے مسلم ممالک نادانستگی میں اس کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

انہیں یادرکھناچاہئے کہ ان صلیبی ،ہنودویہودصہیونی سرپرست طاقتوں کی جانب سے مسلم ریاستوں میں مداخلت کا سلسلہ یہیں پرنہیں رکے گااوروہ ممالک جوآج امریکا کے ساتھ تعاون کررہے ہیں وہ بھی امریکی بدمعاشیوں سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ ابھی حال ہی میں ایک ہوشربارپورٹ شائع ہوئی ہے کہ حالیہ عرب ممالک کی شورش کو سنی شیعہ فسادمیں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں اوراب قصرِ سفید کے مکینوں کے ایماء پر سعودی عرب کی حفاظت کیلئے پاکستانی افواج کے دوڈویژن فوج کوتیاررہنے کاحکم جاری کردیاگیاہے اوراس سلسلے میں سعودی شہزادے پرنس بندربن سلطان جوسعودی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل نے اپنے حالیہ دورہٴ پاکستان میں پاکستان افواج کے دوڈویژن کی استدعاکی ہے جو ممکنہ سعودی عرب کی عوامی شورش کودبانے کیلئے استعمال کی جائے گی۔

یادرہے اس سے پہلے بحرین کی حکومت کی درخواست پرپاکستان فوجی فاوٴنڈیشن نے حال ہی میں ریٹائرہونے والے ایک ہزار فوجیوں کی بحرین نیشنل گارڈکیلئے بھرتی شروع کردی ہے جنہیں ماہانہ ایک لاکھ روپے مشاہرہ کیلئے علاوہ دیگر دوسری مراعات حاصل ہونگی۔ خصوصی طورپرصرف سنی العقیدہ افرادکی بھرتی کی جارہی ہے اوراس سلسلے میں پاکستانی اخبارات میں اس کی تشہیربھی کی گئی ہے۔بحرین خلیج کی واحدریاست ہے جہاں مشہورزمانہ پانچواں امریکی بیڑہ مستقل طورپرلنگراندازہے جہاں سے امریکا اپنے تمام مفادات کی نگرانی کررہا ہے ۔کیاامریکاپاکستانی افوج کیلئے سلطان محمودکاکردارتوادانہیں کررہا؟؟؟

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *