Home / Articles / نظمی مارہروی اور اردو نعت گوئی ایک مطالعہ

نظمی مارہروی اور اردو نعت گوئی ایک مطالعہ

غلام مصطفی رضوی ، مالیگاوٴں

gmrazvi92@gmail.com

Cell.: 09325028586

محبت کا تعلق دل سے ہے اور جب دل کا تعلق گنبد خضرا کے مکیں اور رحمةللعالمیں (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) سے ہوتا ہے تو ”محبت“ کی معراج ہو جاتی ہے۔ نعت اظہارِ محبت کا ذریعہ اور اُلفت کا خزینہ ہے۔ اور یہ وہ نگینہ ہے جو بڑا تاباں و روشن ہے۔ نعت آفاقی نغمہ ہے اور یہ وہ نغمہ ہے جو فضاوٴں میں گونجتا اور پھیلتا ہے، آفاق پہ چھاتا اور دلوں کو چھوتا ہے۔ نعت گوئی کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ اس کے جلوے ہمیں اس کتاب زیست میں ملتے ہیں جو ساری انسانیت کے لیے دستورالعمل ہے۔ ورفعنا لک ذکرک سے اس کی عظمت ظاہر ہے تو اس کی لن ترانی ”اذان“ کے لاہوتی نغمے میں بھی آشکارا ہے۔ اور نعت گوئی در اصل رضاے رب اکبر ہے، حیات کا نکھار اور دلوں کا قرار ہے۔ ذہن کی پاکیزگی اور روح کی بالیدگی ہے۔

مارہرہ کی خانقاہِ برکاتیہ ہندوستان کی تاریخ میں اپنے دینی و علمی، اصلاحی و فکری اور ادبی کارناموں کی بنیاد پر خاص شہرت رکھتی ہے۔ سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی اسی خانقاہ کے مسند نشیں ہیں۔ وہ عالم ہیں، دانش ور ہیں، مصنف ہیں، مترجم ہیں، مصلح ہیں اور تصوف کے رمز شناس، اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی، سنسکرت ادب کے مانے ہوئے ادیب ہیں، سخن فہم اور سخن شناس ہیں، نعت گو اور نعت نگار ہیں۔ آپ کی نعتیں ہند و پاک کے طول و ارض میں بڑی مقبول ہیں اور یہ مقبولیت عام ہے۔ ایسی کہ اسے خداداد کہیے۔ نظمی کی مقبولیت کے بہت سے اسباب ہیں۔ فنی بھی اور ادبی بھی، ظاہری بھی باطنی بھی، علمی بھی فکری بھی اور روحانی بھی۔

مانی ہوئی بات ہے کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ نظمی کا دل محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سرشار ہے۔ وہ شعر برائے شعر نہیں کہتے بلکہ اظہارِ محبت کے لیے کہتے ہیں۔ جب محبت عشق کی منزل پر پہنچ جائے اور شعر دل کی کیفیات کا آئینہ بن جائے تو وہ سننے اور پڑھنے والے ذہنوں کو متاثر کرتا اور دلوں میں گھر کر لیتا ہے، فکر کی صدا اور روح کی پکار بن جاتا ہے۔ یہی کیفیت نظمی کے کلام کی ہے۔ چند اشعار دیکھیں، اور محسوسات کی تقویت کا سامان کریں اور شاید اس نتیجے کے اخذ میں دیر نہیں لگے گی کہ نظمی احساسات کے ترجمان ہیں :

انسانیت کی نظمی ہے معراج بس یہی

ہو جان سے بھی بڑھ کے محبت رسول کی

میں عشق شہ دیں میں ہو جاوٴں فنا اِک دن

ہر سو مِری شہرت ہو کچھ ایسی کلا لے آ

اس لیے پڑھتے ہیں ہم سنی کھڑے ہو کر سلام

ہے یہی سرکار طیبہ سے محبت کی سند

مژدہ فردوس کا لاتی ہے محبت ان کی

اور لے جاتی ہے دوزخ میں عداوت ان کی

نظمی کے نظم محبت میں سادگی ہے، وہ آسان لفظوں میں احساسات کو منتقل کرتے ہیں اس وجہ سے نظمی کی شاعری کو سمجھنا آسان ہے۔ کم پڑھا لکھا شخص بھی ان کے شعر کی معنویت سے آگاہ ہو جاتا ہے اور مفہوم کی تہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں سوز و عشق کی تپش محسوس کی جا سکتی ہے وہیں لطافت و چاشنی کی تاثیر بھی۔ نظمی کے اشعار میں نئے نئے جلوے اور نئی نئی فکریں مستور نظر آتی ہیں۔ وہ کہیں کہیں مضمون آفرینی اور پُر کاری کا نقش بھی چھوڑ جاتے ہیں، ان کی فکر نئی صبح کی تلاش کرتی ہے جس میں جمالیات کا بھرا پرا چمن سجا ہوتا ہے، مضامینِ نو کے چہرے سے جب نقاب الٹتے ہیں تو روح جھوم جاتی ہے:

آقا کے اشارے پہ جو ڈوبا ہوا پلٹا

اے مہر ہمیں حال سنانے کے لیے آ

نقشِ قدمِ پاک کو سینے میں جگہ دی

اے سنگ ہمیں موم بنانے کے لیے آ

اگر ہماری صبح و شام مدحت آقا میں گزرے تو یہ روشنی کا استعارہ ہے، کام یابی کا مژدہ ہے، بشارت کا توشہ ہے، سعادت کا عطیہ ہے، عنایت کا تمغہ ہے، بخشش و نجات کا نغمہ ہے، کیسے؟ نظمی کے الفاظ میں دیکھیں:

شب و روز آقا کا چرچا کریں ہم

اسی میں ہے پوشیدہ بخشش ہماری

آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے: لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین (بخاری) ”تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہ ہو گا جب تک میں اس کو اس کے ماں باپ، بال بچے (بلکہ اس کی جان) اور سارے جہاں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔“ یعنی پوری کاینات میں سب سے بڑھ کر، تمام عزیزوں سے بڑھ کر، اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر رسول کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت کی جائے، انھیں کی الفت کے ترانے گائے جائیں، انھیں کے عشق کے خطبے پڑھے جائیں، نعت کیا ہے؟ نعت محبت کا نغمہ ہے، جذباتِ قلبی کا آئینہ ہے، اس آئینے میں نظمی سراپا محوِ سراپاے مصطفی نظر آتے ہیں، ان کی زباں وقفِ نعتِ مصطفی ہے، ان کی جبیں کا قبلہ تو کعبہ ہے اور ان کی فکر کا قبلہ طیبہ ہے:

نظمی کہتے رہو مصطفی مصطفی

ہو گی تم کو عطا قربتِ مصطفی

تمنا ہے مری اتنی کہ مرتے وقت بالیں پر

رسول اللہ کا یا رب مجھے دیدار ہو جائے

نعت کہنے کو تو سب کہتے ہیں نظمی لیکن

تیرا ہر شعر ہے اعجاز و کرامت ان کی

محب کی محبت کا محور محبوب کی ادائیں بھی ہوتی ہیں، شمایل بھی اور محبوب کے کمالات و نوازشات بھی۔ محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاق نے دنیا کو انسانیت اور اخوت کا درس دیا، سخاوت و دیانت کا درس دیا، صبر و رضا کا درس دیا، عفو و در گزر کا درس دیا، عنایت و شفقت کا درس دیا، آج دنیا میں تشدد کی بہتات ہے اور نرمی و امن کا فقدان، نظمی نے نبوی عنایت اور اخلاقی بلندی کے معاملات کو بھی اپنی سخن دانی کا محور بنایا ہے اور شعر کا موضوع، میرے اس موقف کی تائید میں تین اشعار ملاحظہ کریں:

وہ امن والے امان والے بہت ہی اونچے نشان والے

وہ صابروں کی کمان والے روایتیں بے مثال ان کی

وہ فتح مکہ کے دن معافی کا عام اعلان کرنے والے

عداوتوں کے جواب میں یہ عنایتیں بے مثال ان کی

دشمنوں کو بھی انھوں نے دی تھی دامن میں پناہ

انکساری ان کی فطرت حلم و رحم ان کا مزاج

نظمی کی شاعری کا مصدر کیا ہے، اس کے عشق کو شعری پیرہن کہاں سے ملا، اس کی ادبیت کو الفت کی چاشنی کہاں سے بہم ہوئی، اس رخ سے جب غور کیا تو نظمی کے ذخیرے میں ہی یہ سراغ پایا کہ اس کی شاعری پر گہرے اثرات ایک مثالی عاشق رسول کے ہیں، جس کی فکر بلند ہے اور سخن دل نواز، اس کی ذات آئینہٴ ہمہ صفات ہے، اس کا کلام بزم عشق و عرفان کی جان ہے، وہ امام احمد رضا فناے الفتِ محبوبِ رحمن ہے، اور اسی کا نظمی پہ فیضان ہے:

نظمی کے قلم پر ہے فیضانِ رضا غالب

جو شعر بھی کہتا ہے تازہ نظر آتا ہے

مادی چکا چوند نے دلوں کی دنیا کو ویران اور فکروں کی بزم کو سونا بنا ڈالا ہے، انسان سکون کی تلاش میں ہے، راحت کا متمنی ہے، یہ سکون کہاں ملے گا؟… یادِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں… نعت اسی یاد کا سہارا ہے اور روح کا حرارہ… آج ضرورت ہے پیغامِ عشق نبوی کو عام کرنے کی۔ حضرت نظمی مارہروی کی نعتیں اب دلوں کی دھڑکن بن چکی ہیں، ضرورت ہے کہ جذبات و احساسات کے اس ترجمان کے کلام کو عام کیا جائے ۔ نصاب ساز کمیٹیوں کو چاہیے کہ عصری علوم کے نصاب میں نعت بھی شامل کریں اور ادب شناسوں کو نظمی کے نظامِ محبت سے روشناس کرائیں تا کہ فکر کی تطہیر کے ساتھ ساتھ صحت مند ادب کو پروان چڑھایا جا سکے۔

آپ کا دیوان ”بعد از خدا بزرگ توئی…“ ادب کی میز پر خوش نما گل دستہ ہے اور فن کی کسوٹی کا قیمتی نگینہ جس کی مقبولیت کا یہ عالم کہ سمتوں میں اپنے علم نصب کر آیا۔ اس سے جہاں نظمی کے نظم نعت کا جلوہ پھیلے گا وہیں خانقاہ مارہرہ کے خوش رنگ پھولوں کی مہک فکر و نظر کے صحن میں عطر بیزی کرے گی اور دل کی ہر کلی کھل اٹھے گی۔

###

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

One comment

  1. Hazrat Hassanul Asr Sayyed Aal-E-Rasool Hasnain Miya Nazmi Marehrawi ki Naat Goi Pa nachiz ki Kitab (IQLEEM-E-NAAT KA MOTABAR SAFEER–NAZMI MAREHRAWI) Padhne k liye link follow karen ::

    http://www.scribd.com/doc/93218596/Nazmi-Miya

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *