عنبر شمیم
جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، دہلی کے‘‘رنگ بیار’’ ڈراما فیسٹِول میں ‘ونگس کلچرل سوسائٹی’ کے ذریعہ اردو ڈراما ‘‘گاندھی پارک’’کی پیشکش مورخہ ۶ اپریل کو پارتھا سارتی باہری اسٹیج پر رات ۹ بجے ہوئی۔ ایک تو شام کا خوش گوار موسم اوپر سے باہری اسٹیج پار ک کی شکل میں سجا ہوا ۔ ناظرین کی تعداد دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ فلموں کی مقبولیت کے با وجود لوگ تھیٹر سے ویسا ہی جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں جیسے یہ ان کے اپنے شب و روز کی ترجمانی کرنے والا واحد ذریعہ ہو۔یہ ڈراما فیسٹول گزشتہ ماہ مارچ کی ۱۳تاریخ سے ۷،اپریل تک چلا۔ ‘‘گاندھی پارک’’ مشہور ڈراما نگار مانوکول کے ڈڑاما ‘‘پارک’’ پر مبنی ہے جس کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کا کام اور ہدایت کے فرائض کا انجام جناب طارق حمید نے دیا۔کہا جاتا ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے اسی طرح ڈرامہ ادبی فن پارہ ہونے کے ساتھ ساتھ تمام فنون لطیفہ کا گلدستہ بھی ہے، جس میں ، فن عمارت سازی، فن موسیقی، رقص، منظوم و منثور ادب کی کئی اصناف، مصوری، پینٹنگ کا فن وغیرہ وغیرہ یک جا باہم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اور ان میں ہم اپنے سماج و ثقافت کے تجربوں کی خوشبو و رنگ و روغن پاتے ہے۔ ڈراموں میں دو طرح کے رجحان کافی اہم رہے ہی۔ ایک المیہ اور دوسرا رجحان طربیہ۔ نئی پیشکشوں میں ہمیں کئی دفع المیہ و طربیہ دونوں پہلو بیک وقت ایک ہی ڈرامے میں دیکھنے کو ملتے ہے۔ اسی طرح کی ایک پیش کش ‘ونگس کلچرل سوسائٹی’ کے پیش کردہ ڈرامے ‘‘گاندھی پارک’’ میں دیکھنے کو ملی۔ اس ڈرامے کا اہم موضوع نسل انسانی کی جبراً نقل مکانی ہے۔ نقل مکانی آج کی تاریخ کا نہایت سنگین المیہ ہے۔آج دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے پر یہ المیہ مسلط ہے ۔یوں تو نقل مکانی یا ہجرت کے عمل سے نسل آدم ہمیشہ جوجھتی آئی ہے۔ لیکن گزشتہ چند دہوں میں انسانی آبادی کو بڑی تکلیف کے ساتھ جبراً نقل مکانی کا سامنا ہے۔ مثلاً: فلسطین جو کہ چند دہے قبل تک ایک آباد ملک تھا آج اس کا نقشہ صرف چند نقطے کی شکل بن کر رہ گیا ہے اور فلسطین کا باقی حصہ اسرائیل کہلانے لگا ۔پوری عالمی برادری حیران ہے کہ آخر فلسطین کے نقشے کے ساتھ ساتھ وہاں کی انسانی آبادی کہاں چلی گئی؟ عراق و افغانستان پر امریکی و ناٹو حملے کے بعد وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے آج تک بھٹک رہا ہے۔ جاپان کے فوکوشیما شہر پر ۱۱ مارچ ۲۰۱۱ کو سونامی کے عضاب اور جوہری کارخانے میں آئی تباہی سے جان و مال کے نقصان کے بعد دور دراز علاقے تک کے لوگوں کو منتقل ہوتے ہوئے سب نے دیکھا ہے۔ تمل ناڈو کے کوڈنکولم گاؤں کا احتجاج ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں جوہری پلانٹ چل رہے ہیں ان کے آس پاس کی بستیاں بغیر کسی مناسب معاوضے کے خالی ہو چکی ہے ‘‘خصوصی اقتصادی زون“ (SEZ) کے تحت آنے والا ہندوستان کا تمام علاقہ جبران خالی کروا یاجا رہا ہے۔ ہر سال سیلاب سے متاثرہ علاقے کے لوگ کئی مہینوں کے لیے بے گھر یا خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ملکوں کی آپسی نا اتفاقی اور جنگ کے خطروں سے دوچار ملک کی سرحدی بستیاں وقت سے پہلے خالی ہو جاتی ہیں اور لاکھوں ،کروڑوں کی آبادی کو نقل مکانی کے المیے سو دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح کئی اور وجہوں سے مجبوراً انسان کو نقل مکانی کے المیے کا سامنا ہے۔ ڈراما ”گاندھی پارک“ میں انہی مسئلوں کے تئیں ایک حس بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ڈرامہ پوری طرح سے طنز و مزاح کا رنگ لیے ہوئے ہے۔
ڈرامے میں پیش کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک نوجوان اُدے (نیلیش) جو ذہنی طور پہ خود کو بیمار محسوس کرتا ہے اور علاج کے لیے ایک ماہر نفسیات کے پاس آتا ہے ۔ لیکن اس کی یہ ڈاکٹر اس سے اور اس کی بیماری سے پہلے سے واقف تھی لہذا اُدے کو اپنے کلنک میں نہ بلا کر اسے اس گاندھی پارک میں بلاتی ہے۔ ڈرامے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے۔ اُدے جب پارک میں پہنچتا ہے حسین (سورج) کوجس کی عمر تقریبا ۵۱ سال ہو گی، تنہاجھوم جھوم کر رقص کرتے ہوئے پاتا ہے۔ وہ اس کا رقص خاموشی سے دیکھنے لگتا ہے، جب حسین رقص مکمل کر چکا ہوتا ہے تو اُدے اس کے فن کی داد دیتا ہے اور زور زور سے تالیاں بجانے لگتا ہے۔ حسین جو اب تک کسی اور کی موجودگی سے بے خبر تھا سہم جاتا ہے اورپارک میں موجود تین بنچ میں سے ایک بنچ کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ حسین بھی ذہنی طور پہ ذرا کمزور ہے۔ادے اس کو اپنے پاس بلا کر کچھ کھانے کو دیتا ہے اور بات چیت کرتا ہے۔ بات چیت کے دوران پتہ چلتا ہے کہ آج اس کا پانچویں کا نتیجہ آنے والا ہے لیکن اس نے امتحان ہی نہیں دیا اور باپ کی ناراضگی کے ڈر سے اس پارک میں وقت گزار رہا ہے۔ ادے کے سمجھانے پر وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے تبھی ڈاکٹرایتی (فرح) آتی ہے اور اس کا مسئلہ سن کر بغیر علاج کیے واپس چلی جاتی ہے۔ اُدے کو اور بھی الجھن ہونے لگتی ہے۔ اپنی الجھن دور کرنے کے لیے بینچ پر بیٹھ جاتا ہے اور کچھ سوچنے لگتا ہے۔ وہاں اس کے چہرے پر بہت تیز دھوپ پڑتی ہے۔ ادے وہیں پاس کی دوسری بنچ پر جا تا ہے کہ وہاں بھی دھوپ ہے آخر کار تیسری بینچ پر جا کر سکون پاتا ہے کہ تبھی پارک میں ایک اور ادھیڑ عمر کا شخص نواز (راج کمار) وارد ہوتا ہے۔ نواز خالی بینچ میں سے ایک پر جاتے ہی لیٹ جاتا ہے۔ لیکن دھوپ کی شدت سے پریشان ہو کر اٹھ جاتا ہے۔ دیکھتا ہے کہ ادے جس بنچ پر بیٹھا ہے وہاں سایہ ہے لہذا ادے سے گزارش کرتا ہے کہ اس کا سونا بہت ضروری ہے دوسری دونوں بنچوں پر تیز دھوپ ہے اسی لیے نواز کو اپنی بینچ پر سونے دے ۔ ذرا سی نوک جھونک کے بعد ادے پہلے والی بنچ پر جا بیٹھتا ہے۔ اب ایک اور صاحب مدن (طارق حمید) آتے ہیں۔ ادے جہاں بیٹھا ہے مدن وہیں بیٹھنا چاہتا ہے کیوں کہ وہاں سے اس کی ایک تاریخ جڑی ہے۔ انہی تین بنچوں اور ایک دوسرے کو ہٹانے اور جگہ تبدیل کرنے کے حوالے سے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ملکی و عالمی سطح کے کئی مسئلوں پر گفتگو ہوتی ہے جس میں نقل مکانی کا موضوع مرکزی حیسیت سے زیر بحث ہے۔
طارق حمید صاحب کی سمجھ بوجھ کی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے ایک چھوٹے سے پارک میں اتفاق سے وارد ہوئے تین آدمی کی بات چیت و نوک جھونک کو اتنے گٹھے اور سدھے ہوئے انداز میں پیش کر دیا کہ ناظرین عش عش کرتے رہ گئے۔ ساتھ ہی ڈرامے میں بحثوں کے دوران جو پیغام تھے ان کی رسائی مکمل طور پر ہوئی۔ کیوں کہ سیاسی سطح پر کسی مناسب حل کے لیے حکومتیں و ممالک کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔ کیا عالمی برادری اتنی بے حس ہو گئی ہے کہ انہیں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں جان پڑتا۔ جبکہ بس، ریل، یا پارک میں اپنی سیٹ پر بیٹھے کسی فرد واحد کو ذرا اپنی جگہ سے محض ہٹنے، یا کھسکنے کے تقاضے پربڑا واویلا کھڑا ہوتے ہم اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔ ڈراما ‘‘گاندھی پارک’’ میں انہی مسئلوں کے تئیں ایک حس بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈرامے کے سبھی اداکاروں نے اپنے کردار بخوبی نبھائے ۔ بالخصوص نواز کے کردار میں راج کمار، ڈاکٹر ایتی کے کردار میں فرح ناز، اُدے کے کردار میں نِلیش سنگھ اور مدن کے کردار میں ڈرامہ کے ہدایت کار خود طارق حمید قابل ذکر ہیں۔ یہ ڈرامہ پوری طرح سے طنز و مزاح کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس ڈرامے کی پیشکش اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ اردو میں پیش کیا جانے والا ڈرامہ ہے۔ اردو میں ڈراموں کی پیشکش شاذ و نادر چیز ہو کر رہ گئی ہے۔ حالانکہ دہلی اردو کادمی کا منعقدہ ڈرامہ فیسٹول اردو ڈراموں کے لیے مختص ہے لیکن اس میں اردو کے کتنے ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں اس حقیقت سے اردو ڈراموں کے ناظرین خوب واقف ہیں۔ اور ‘نیشنل اسکول آف ڈرامہ’ کے ‘بھارنگم’ میں تو صرف پاکستانی ڈراموں کو ہی اردو کا ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ ایسے میں ‘ونگس’ کے ذریعہ اردو ڈرامہ ‘‘گاندھی پارک’’ کی پیشکش قابل ستائش ہے اورجواہرلعل نہرو یونیور سٹی کے ڈرامہ فیسٹول میں اردو ڈرامے کا شامل ہونا اپنے آپ میں اردو کے شائقین کے لیے بہت ہی خوش آئند بات بھی ۔ ‘ونگس کلچرل سوسائٹی’ کے ذریعہ پہلے بھی اردو کے کئی کامیاب ڈرامے کھیلے جا چکے ہیں، جن میں ‘‘انتقام ہمارا نعرہ ہے’’ ، چند روز اور مری جان’’، وسیم’’ وغیرہ ڈراموں کو اردو حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔ اس ڈرامہ فیسٹول ‘‘رنگ بیار’’ کے تحت دہلی کے ‘بیلا تھیٹر’ کے ذریعہ ہندی کے مشہور زمانہ ڈرامہ نگار موہن راکیش کا لکھا ‘‘اساڑھ کا ایک دن’’ ، ‘اپٹا ‘ جے این یو کے ذریعہ ڈراما‘‘خطرہ’’ ، ‘بہروپ’ کے ذریعہ ڈراما ‘‘سوال اپنا اپنا’’ ہندی میں پیش کیے جا چکے ہیں، جن کی کامیابی کے چرچے دہلی بھر میں ہیں۔ ‘ونگس کلچرل سوسائٹی’کے ذریعہ کھیلا جانے والا اردو کا یہ بہت ہی مقبول ومعروف ڈرامہ ”گاندھی پارک“ ۶ اپریل کو جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے پارتھا سارتی باہری اسٹیج پرپیش کیا گیا۔ خیال رہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کایہ پارتھا سارتی باہری اسٹیج وہی اسٹیج ہے جو کبھی اردو کے عالمی شہرت یافتہ ڈرامہ نگار وشاعر حبیب تنویر کا پسندیدہ اسٹیج رہا ہے۔
عنبر شمیم
رسرچ اسکالر
شعبہ اردو، گوتم بُدھا یونیور سٹی
گوتم بُدھا نگر، نوئیڈا، اتر پردیس
شکریہ اس خوبصورت تحریر کیلیئے۔
میری نظر تھوڑی کمزور ہے اس لیئے کاپی کرکے پڑھا
really this is a fantastic play.