Nuclear Security Summit and building pressure on Pakistan
امریکی صدر براک حسین اوبامہ نے 12 اور 13 اپریل، 2010 کو واشنگٹن میں نیوکلیئر سیکورٹی اجلاس بلائی جس میں دنیا کے 47 ممالک کے سربراہان حکومت کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ جیسا کہ اس اجلاس کے عنوان سے ہی ظاہر تھا کہ دنیا کے یہ ممالک اس بات پر غور کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہوئے ہیں کہ دنیا کو جوہری اسلحوں سے درپیش خطرات سے کیسے نجات دلائی جائے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ فکرمندی اس بات کو لے کر ظاہر کی گئی کہ دنیا کے مختلف حصوں میں سرگرم دہشت گرد تنظیمیں ان جوہری اسلحوں تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔ لہٰذا سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز کی گئی کہ جوہری اسلحوں تک دہشت گردوں کی ممکنہ رسائی کو روکنے کے لیے کس قسم کے اقدام کیے جائیں۔
اجلاس کی ابتدا سے ہی دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے نیوکلیائی ماہرین نے اپنی بحثوں کے دوران پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چونکہ دنیا کے اس خطہ میں دہشت گردی اپنی عروج پر ہے، لہٰذا اس بات کے قوی امکان ہیں کہ پاکستان کی جوہری تنصیبات تک انتہا پسند تنظیمیں آسانی سے رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں بھی پاکستان کے جوہری اسلحوں تک دہشت گردوں کی رسائی سے متعلق بڑے پیمانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس قسم کی خبریں ملنے لگی تھیں کہ امریکی فوج ایمرجنسی کی حالت میں پاکستانی کی جوہری تنصیبات پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور اگر نوبت آئی تو وہ پاکستان کے جوہری اسلحوں کو امریکہ بھی منتقل کر سکتے ہیں۔ یہ موضوع اس وقت کافی شدت اختیار کر گیا تھا جب امریکہ کے ایک ماہر سیمور ہرش نے گذشتہ سال نومبر میں نیویارک ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع کرکے پاکستان کی جوہری تنصیبات سے متعلق چند حقائق کا انکشاف کیا تھا اور دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی۔ حالانکہ پاکستان نے اس جانب کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور وہاں کے اخباروں میں اکثر اس قسم کے کالم لکھے گئے یہ امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان کی طرف سے ایک سازش ہے جو یہ پروپیگنڈہ پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس طرح وہ پاکستان سے اس کی جوہری صلاحیت چھین لینا چاہتے ہیں تاکہ ہندوستان سے جنگ کی حالت میں پاکستان اس قابل نہ رہ سکے کہ وہ ہندوستان کو منہ توڑ جواب دے۔ لیکن اب تو عالمی پیمانے پر اس قسم کے خدشات ظاہر کیے جانے لگے ہیں اور کم از کم اب پاکستان کو اس سمت میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اب جب کہ امریکی صدر براک اوبامہ نے نیوکلیئر سیکورٹی پر ایک اجلاس بلائی تو پوری دنیا کے ماہرین اپنی اسی رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ نیوکلیئر سیکورٹی پر اس وقت تک کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکتی جب تک کہ پاکستان کو اس سلسلے میں جوابدہی کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا اور اس سے اس کی جوہری تنصیبات کے تحفظ سے متعلق باز پرس نہیں کی جاتی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے بیلفر سنٹر فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل افیئرس کی طرف سے حال ہی میں ’سیکورنگ دی بامب‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کے جوہری ذخائر کو دنیا کے کسی بھی دوسرے جوہری ذخائر کے مقابلہ اسلامی انتہاپسندوں کی جانب سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے کیوں کہ وہ ان جوہری اسلحوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں‘۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ پاکستانی فوج میں ایسے افراد کی تعداد کافی ہے جو ان انتہاپسندوں کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں، لہٰذا اس بات کے قوی امکان ہیں کہ وہ دہشت گردوں کو ان جوہری اسلحوں کی چوری میں اپنی مدد بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دی انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکورٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کا دوسرا نیوکلیئر ری ایکٹر، اسلحہ میں استعمال کیے جانے والے پلوٹونیم بنانے میں لگا ہوا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اس ری ایکٹر نے اپنا کام شروع کر دیا ہے، جب کہ تیسرا ری ایکٹر ابھی زیر تعمیر ہے۔ لہٰذا یہ سوالات بڑے پیمانے پر اٹھائے جارہے ہیں کہ آیا ان جوہری تنصیبات کی حفاظت کا ٹھوس انتظام ہے اور کیا پاکستان اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ یہ جوہری اسلحے دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگیں گے؟
ایک اندازہ کے مطابق پاکستان کے پاس اس وقت 75 جوہری اسلحے موجود ہیں۔ ہندوستان شروع سے ہی ان اسلحوں کی سیکورٹی سے متعلق اپنی تشویشوں کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اور اب اوبامہ انتظامیہ بھی ہندوستان کے نظریات سے اتفاق کرتی نظر آ رہی ہے۔ لہٰذا پاکستان پر یہ دباؤ بڑھنا لازمی ہے کہ وہ ان جوہری تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے کیا اقدام کر رہا ہے۔ اگر پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی مانیں تو وہ بار بار یہ بیان دینے میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کے تمام جوہری اسلحے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور امریکہ کو اس بات کا بخوبی علم ہے۔ واشنگٹن میں نیوکلیئر سیکورٹی اجلاس کے دوران گیلانی نے کہا ہے کہ ’’اسلام آباد نے بڑے پیمانے پر قانونی، ریگولیٹری اور انتظامی فریم ورک کے ذریعے نیوکلیائی تحفظ، سیکورٹی اور عدم توسیع کے لیے مؤثر اقدام کر رکھے ہیں۔‘‘
اگر واقعی میں ایسا ہے تو پھر بین الاقوامی برادری پاکستان کے جوہری اسلحوں کی سیکورٹی سے متعلق اس قسم کی تشویشوں کا اظہار کیوں کر رہی ہے۔ ہندوستان کو سب سے زیادہ فکرمندی اس لیے ہے کیوں کہ پاکستان اس کا سب سے قریبی پڑوسی ہے اور یہ حقیقت ساری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان میں تربیت حاصل کرنے والے دہشت گرد اکثر و بیشتر ہندوستان کو اپنا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ اسلحے ان کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو وہ ہندوستان میں بھاری تباہی پھیلا سکتے ہیں۔
یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ اوبامہ نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو یقین دلایا ہے کہ وہ ہندوستان کی ان تشویشوں کو پاکستان کے سامنے اٹھائیں گے اور اسے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہیں گے کہ پاکستان ہندوستان کی ان تشویشوں کو عملی طور پر دور کرے۔ لیکن امریکہ پر آنکھ موند کر اس لیے بھی یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ’دہشت گردی مخالف جنگ‘ میں پاکستان امریکہ کا سب سے بڑا حلیف ہے اور امریکہ کی جانب سے گاہے بہ گاہے پاکستان کی فوجی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے مالی تعاون پیش کی جاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے ہندوستان نے بارہا امریکہ سے گزارش کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ پاکستان کو جتنی امداد پیش کر رہا ہے اس کا استعمال ہندوستان کے خلاف نہیں کیا جائے گا۔ لیکن کتھنی اور کرنی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہم یہ خبریں سن رہے ہیں پاکستان کی 50 ہزار زمینی فوج نے اب تک کی اپنی سب سے بڑی جنگی مشق شروع کی ہے جس کا مقصد ہندوستان سے مستقبل میں کیے جانے والے کسی بھی حملہ کا جواب دینے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔اس کے علاوہ حافظ سعید، الیاس کشمیری جیسے پاکستانی دہشت گردوں کی جانب سے بھی حالیہ دنوں میں بار بار دھمکی دی جاتی رہی ہے کہ ہند- پاک کے درمیان آبی تنازع حل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ ہندوستان پر جنگ مسلط کردے۔ اس قسم کی دھمکیوں کو یونہی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان کو تمام حالات پر گہری نظر رکھنی ہی پڑے گی اور پاکستان کے تئیں اپنی تشویشوں کو پورے زور شور سے عالمی برادری کے سامنے اٹھانا ہوگا، تاکہ پاکستان پر یہ دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ ہندوستان کے خلاف سازش کرنا بند کرے اور ان دہشت گردوں کی زبان پر لگام لگائے۔
نیوکلیئر سیکورٹی کے موضوع پر ہندوستان بہت پہلے ہی اپنا یہ موقف واضح کر چکا ہے کہ وہ جنگ کی صورت میں اپنے جوہری اسلحوں کا استعمال کرنے میں کبھی بھی پہل نہیں کرے گا اور نہ ہی ایسے اسلحوں کا استعمال کسی ایسے ملک کے خلاف کرے گا جس کے پاس جوہری اسلحے نہیں ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے نیوکلیئر ڈیل کو لے کر بھی پاکستان نے کافی واویلا مچایا ہے، جب کہ ہندوستان نے جوہری توانائی کے پرامن استعمال کی ہمیشہ وکالت کی ہے اور ساری دنیا نیوکلیئر سیکورٹی سے متعلق ہندوستان کے رویہ کی تعریف کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکی صدر براک اوبامہ نے آج نیوکلیئر سیکورٹی سے متعلق اجلاس بلا کر جو پہل کی ہے اس کی وکالت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہندوستان بہت پہلے سے کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے ماہرین اس وقت یہی کہتے نظر آرہے ہیں کہ واشنگٹن میں ہونے والا نیوکلیئر سیکورٹی اجلاس ہندوستان کی ایک واضح جیت ہے۔