Home / Socio-political / وہی پتے ہوادینے لگے(آخری قسط)

وہی پتے ہوادینے لگے(آخری قسط)

سمیع اللہ ملک

۲مئی کوایبٹ آبادپاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی یکطرفہ آپریشن کے بعدپاکستان اورامریکاکی عسکری قیادت میں یقینا اختلافات شدیدہوگئے ہیں لیکن ان اختلافات کاآغازس واقعے سے چندماہ پہلے ریمنڈڈیوس کے واقعے نے آئی ایس آئی اورسی آئی اے کے تعلقات میں دراڑپیداکردی تھی جب واشنگٹن میں سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا کو پاکستانی انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل پاشا نے ”تم میرے باس نہیں ہو،میراباس میراخداہے“ یہ کہہ کر اس اہم میٹنگ کودرمیان میں چھوڑکرپہلی پروازسے واپس پاکستان چلے آئے تھے۔امریکانے پاکستانی عسکری قیادت پرجنرل پاشاکے خلاف ایکشن لینے پربہت زورڈالااوراس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت سے بھی رابطہ کیالیکن ناکامی کے بعدامریکی اعلیٰ عہدیدار کویہ کہناپڑاکہ پاکستان کی سیاسی حکومت کے ساتھ توہمارے تعلقات بہت بہترہیں لیکن پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ تعلقات اب بہتر نہیں رہے،یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج کوسزادینے کے عمل پرپہلاقدم اس کی امدادپربندش کے اعلان سے شروع ہوگیاہے اورجواب میں پاک افواج نے اس اعلان کوخاطر میں نہ لانے کافیصلہ کرتے ہوئے اہم اقدامات کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے۔گویاامریکی اب بھی صدرزرداری سے تومطمئن ہیں لیکن عسکری قیادت کی نئی انگڑائی سے انہیں شکایات ہیں۔آئیے اب دیکھتے ہیں کہ وکی لیکس میں ہمارے ملک کے دوسرے سیاسی رہنماوٴں کے بارے میں کیاانکشافات موجودہیں۔

پاکستان کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے بارے میں کئی انکشافات سامنے آئے ہیں،بالعموم پارٹی کے اندر کے حالات اوربالخصوص جب نوازشریف اپنے مشکل دور سے گزررہے تھے ۔ ۱۲ستمبر۲۰۰۷ء کوسعودی عرب کے خفیہ ادارے کے سربراہ شہزادہ مقرن کے ساتھ امریکی سفیرفورڈایم فریکراپنی ملاقات کے بارے میں اپنی حکومت کومراسلہ روانہ کرتے ہیں:”شہزادہ مقرن نے بتایاکہ نوازشریف کوپاکستان سے جلاوطنی کے بعدسعودی عرب جاتے ہوئے اپنی گرفتاری کاخوف تھاجس پرنون لیگ کے قائد کودوآپشنزدیئے گئے تھے کہ یاتووہ پاکستان واپس جائیں یاپھراپنے لئے بنائے گئے محل میں قیام کریں،انہوں نے واپسی کوترجیح دی ،نوازشریف سے کہاگیاتھاکہ سعودی عرب قیام کے دوران کچھ عرصہ انہیں اپنی سرگرمیوں پرپابندیوں کاسامناکرناپڑے گا،شہزادہ نے نوازشریف سے کئے گئے اس دس سالہ معاہدے کاذکربھی کیاجس میں مرحوم لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری بھی پیش پیش تھے۔معاہدے میں نوازشریف کوپابندکیاگیاتھاکہ وہ پاکستانی سیاست سے دوررہیں گے اوررفیق الحریری کے بیٹے سعدالحریری نے ن لیگ کے قائدکوخبرداربھی کیاتھاکہ وہ پاکستان نہ جائیں لیکن نوازشریف اسے خاطرمیں نہیں لائے“۔

ایک اورمراسلہ بہت اہم ہے جس کاتعلق مسلم لیگ کے رہنماشہبازشریف سے ہے۔لاہورمیں امریکی قونصل خانے کے پرنسپل آفیسربرائن ڈی ہنٹ نے ۱۴مارچ ۲۰۰۹ء کوشہبازشریف سے ملاقات کے بعداپنی حکومت کوتحریرکیا: ” شہبازشریف نے کہاکہ اگرچیف جسٹس افتخارچوہدری کوعلامتی طورپربحال کردیاجائے تووہ اس معاملے پربات چیت کیلئے تیارہیں۔شہبازشریف نے کہاکہ ان کی جماعت چیف جسٹس کی بحالی کے اپنے موٴقف سے پھرنے کارسک نہیں لے سکتی ۔شہبازشریف نے یہ بات تسلیم کی کہ جسٹس افتخارچوہدری مشکلات کھڑی کرنے والے جج ہیں اوران کے اختیارات کواحتیاط کے ساتھ کم کرنے کی ضرورت ہے،شہبازشریف کے مطابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے بھی پی سی اوکے تحت حلف لیاتھااس لئے میثاقِ جمہوریت کے تحت اگربعدمیں کوئی قانون سازی ہوتی ہے توچیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کوہٹایاجاسکتاہے“َ۔

اسی مراسلے میں قومی اسمبلی کے قائدچوہدری نثارکے بارے میں تحریرکیاگیا:” چوہدری نثارنے امریکی سفارت خانے میں بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ پی سی اواورعدلیہ کے اس فیصلے سے قبل مسلم لیگ ن کے ۹۵٪افرادکاکہناتھاکہ وکلاء تحریک میں شامل نہیں ہوناچاہئے لیکن اس فیصلے کے بعدمسلم لیگ ن کے پاس ان کاساتھ دینے کے سواکوئی راستہ نہیں رہا“۔ایک اورمراسلہ جواین پیٹرسن نے ۴نومبر۲۰۰۹ء کواپنی حکومت کولکھا:” نوازشریف پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول سیاستدان ہیں اورآئی آرآئی کے سروے کے مطابق زرداری کی۲۰ ٪مقبولیت کے مقابلے میں نوازشریف کو۸۳٪مقبولیت حاصل ہے لیکن اس کے باوجودحکومت گرانے کیلئے نوازشریف کے پاس اکثریت نہیں ہے ۔نوازشریف اگلے انتخابات کیلئے اپنی جماعت کی بھرپورتنظیم سازی کررہے ہیں“۔

۲۱اکتوبر۲۰۰۸ء سابق برطانوی وزیراعظم کے خارجہ اورسیکورٹی مشیرسائمن میکڈونلڈکے خیالات پرمشتمل مراسلہ بھی سامنے آیاہے:”سائمن میکڈونلڈنے نوازشریف کے مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ تعلقات پرامریکی تشویش کی حمائت کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے اپنے خیالات بدلنے کے اشارے دیئے ہیں اورکچھ کاخیال ہے کہ وہ اس پالیسی پرپہلے سے ہی کاربندہیں،اگرچہ نوازشریف کواقتدارکیلئے کچھ اورسال کاانتظارکرناہوگالیکن وہ پاکستان کے اگلے صدربن سکتے ہیں“َاس میں توکوئی دورائے نہیں کہ جناب نوازشریف کو کسی معاہدے کے تحت ہی اس ملک سے جلاوطن کیاگیااوراب وکی لیکس کے ان انکشافات سے یہ بات توثابت ہوگئی کہ نواز شریف نے عدالتی سزاسے بچنے کیلئے پرویزمشرف کے ساتھ دس سالہ جلاوطنی اورپاکستانی سیاست سے لاتعلق رہنے کامعاہدہ کیاتھاجس کوماننے سے آج تک ان کی پارٹی عوام میں انکار کرتی چلی آرہی ہے حالانکہ اس معاہدے میں شامل غیرملکی دوستوں کے نام اورکرداربھی افشاء ہوگئے ہیں اورنوازشریف سے اس معاہدے کی تعمیل بھی کروائی گئی اوردس سال کے بعدہی نوازشریف نے پاکستانی سیاست میں عملاً حصہ لیالیکن یہ بات بھی کافی اہم ہے کہ امریکی پاکستان میں دینی جماعتوں سے تعلق کی بناء پر نوازشریف کی مقبولیت سے اس لئے خائف ہیں کہ ممکن ہے کہ اگر آئندہ پاکستان میں نواز شریف برسراقتدارآتے ہیں توپاکستان میں ان کے مفادات کونقصان پہنچ سکتاہے۔

یہ وکی لیکس دستاویزات ہی ہیں جس نے پاکستانیوں پرظاہرکردیاکہ پاکستان کے سیاستدان امریکیوں سے اندر کچھ اوربات کرتے ہیں اورباہرعوام کوکچھ اوربتاتے ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے معروف رہنماافراسیاب خٹک سے ملاقات کے حوالے سے ۳جولائی ۲۰۰۹ء کوپشاورمیں امریکی قونصل خانے کی پرنسپل افسرلن ٹریسی اپنے مراسلے میں تحریرکرتی ہیں: ”افراسیاب خٹک نے فاٹااورخیبرپختونخواہ میں شدت پسندگروہوں کے بارے میں پاک فوج کی بڑھتی ہوئی دلچسپی پربات کی۔افراسیاب خٹک کاکہناتھا کہ پاک فوج دیگرشدت پسندجماعتوں کے برعکس حقانی گروپ سے مختلف طریقے سے پیش آتی ہے․․․․․․․خٹک نے تحریک نفاذشریعت محمدی کے رہنماصوفی محمدکورہاکرنے کے آئی ایس آئی منصوبے پر تنقید بھی کی․․․․افراسیاب خٹک نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ آئی ایس آئی کی حکمت عملی کامقصدطالبان کوشکست سے بچاناتھا“۔۲۲مارچ ۲۰۰۸ء کو امریکی سفیراین پیٹرسن نیشنل پارٹی

کے سربراہ اسفندیارولی سے اپنی ملاقات کااحوال اپنے مراسلے میں اس طرح کرتی ہیں: ”اسفندیارولی کاکہناتھاکہ آئی ایس آئی کی قیادت دہشتگردوں سے لڑنے کیلئے پرعزم ہے تاہم میدان جنگ میں موجودآئی ایس آئی کے ایجنٹس پرعزم نہیں،ان ایجنٹس کے ماضی میں القاعدہ اورطالبان سے ذاتی تعلقات رہے ہیں تاہم اسفندیارولی نے کہاکہ وہ مشرف حکومت کی کوششوں کی حمائت کریں گے“۔

۴جون ۲۰۰۷ء کوایم کیوایم کے رہنمابابرغوری کی امریکی سفارتکارپیٹربوڈسے ملاقات کے بارے میں اسی قسم کا مراسلہ وکی لیکس نے شائع کیاہے جس میں وہ تحریرکرتے ہیں: ”بابر غوری نے کہاکہ ۱۲مئی کے بعدایم کیوایم کی ساری توجہ سندھ بھرمیں پارٹی کاامیج بحال کرنے پرمرکوزہے،بابرغوری نے ۱۲مئی کے پرتشددواقعات کی منصوبہ بندی میں الطاف حسین کے کسی بھی عمل دخل سے بالکل انکارکیا․․․․․․بابرغوری کے مطابق ۱۲مئی کے واقعات سے ان کی جماعت شدیدمتاثرہوئی اورخودکوتنہامحسوس کرتی ہے“۔۲۹جنوری ۲۰۰۸ء کے مراسلے میں امریکی سفیراین پیٹرسن ایم کیوایم کے دیگررہنمامصطفیٰ کمال،ڈاکٹرفاروق ستاراورحیدرعباس رضوی سے اپنی ملاقات کااحوال لکھتی ہیں: ”ملاقات ۲۵جنوری کوہوئی ، ایم کیوایم کے رہنماوٴں نے امریکی حکام پرزوردیاکہ ان کی جماعت سیاسی ہے لیکن بدقسمتی سے تاثریہ پایاجاتاہے کہ ایم کیوایم سیاسی پارٹی سے زیادہ کریمنل گروہ ہے۔کراچی میں امریکی قونصل خانے کی رہائش گاہ پررات کے کھانے کے دوران فاروق ستااورحیدررضوی نے کہاکہ ایم کیوایم سیکولرجماعت ہے جوامریکی پالیسی کی مسلسل حمائت کے باوجود دہشتگردکے طورپردیکھی جاتی ہے،ایم کیوایم کے رہنماوٴں نے کہاکہ برائے مہربانی انہیں نظراندازنہ کیاجائے ،یہ درخواست بھی کی گئی کہ ایم کیوایم کودہشتگردفہرست سے نکالنے کیلئے کینیڈین امیگریشن سروس کوقائل کیاجائے“۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے بارے میں وکی لیکس کی یہ وہ دستاویزات ہیں جوپاکستانی عوام کی نگاہوں سے پہلے اوجھل تھیں لیکن ان دستاویزات کے سامنے آنے سے یوں محسوس ہورہاہے کہ امریکیوں کی غلامی کے حمام میں یہ سب ننگے ہیں۔ان تمام مراسلوں سے محسوس ہوتاہے کہ امریکاکس قدرباریک بینی سے پاکستان کے حالات پرنظررکھے ہوئے ہے اوراس کے سفارتکاراپنی ملاقاتوں کی لمحہ بہ لمحہ کاروائی ضبط تحریرمیں لاتے ہوئے اپنی حکومت کوباخبررکھتے ہیں لیکن کیاپاکستان کے حکومتی ادارے بھی اپنی ملاقاتوں کاایسا ہی ریکارڈ مرتب کرتے ہیں؟کیاپاکستان کی وزارتِ خارجہ کے پاس وکی لیکس کے ان انکشافات کی تردیدکے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات موجودہیں ؟اکثرمیڈیامیں دکھائی دیتاہے کہ امریکی کی کوئی بھی اعلیٰ سیاسی یافوجی قیادت جب پاکستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرتے ہیں توان کے ساتھ امریکی سفیریاسفارت خانے کاکوئی اعلیٰ عہدیدار ضروردکھائی دیتاہے،کیاپاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ ان ملاقاتوں کے دوران وزارتِ خارجہ کاکوئی نمائندہ موجودہوتاہے یاہمارے عسکری ادارے ایسا کوئی ریکارڈ مرتب کرکے وزارتِ خارجہ کوباخبررکھتے ہیں؟

تمام جمہوری ممالک میں ایسے سیاسی ،اخلاقی اورقانونی ضابطے موجودہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کاکوئی بھی نمائندہ جب بھی کسی غیرملکی سفارتی یاسیاسی نمائندے سے ملاقات کرے تووہ اپنی تمام گفتگوکی تفصیلات سے اپنے اداروں کومطلع کرتاہے لیکن وکی لیکس کے انکشافات سے معلوم ہوتاہے کہ پاکستان کے اندرکوئی ایسا نظام موجودنہیں ۔وکی لیکس نے ان تمام چہروں سے نقاب اٹھادیاہے جواپنے اقتدارکی خاطرملکی مفادکوداوٴ پرلگانے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے۔اب وقت آگیاہے کہ قوم ان تمام نام نہاد رہنماوٴں کااسی بے رحمی سے احتساب کرے جیسا ان کا اپنی قوم سے بے رحمانہ سلوک ہے۔

مجھ کوبھی پڑھ کتاب ہوں،مضمون خاص ہوں ماناتیرے نصاب میں شامل نہیں ہوں میں

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *