سمیع اللہ ملک
وکی لیکس کے چونکادینے والے انکشافات نے ایک دفعہ پھر ہلچل پیداکردی ہے اورپاکستانی قوم مارے حیرت کے انگشت بدنداں ہے کہ سرکوپیٹے یاجگرکو،کہ جن پتوں پرتکیہ تھاوہی ہوا دینے لگے ہیں۔وکی لیکس کے انکشافات کی ابھی تک کہیں سے بھی کوئی تردیدنہیں آئی جسکی بناء پران کی صداقت پرکوئی شک وشبہ باقی نہیں رہاالبتہ یہ سوال ضرورکیاجاسکتاہے کہ ایسے انکشافات کیلئے ان اوقات کاانتخاب کیوں کیاگیاجبکہ پاکستان اورامریکاکی عسکری قیادتوں میں اختلاف اپنے عروج پرہے۔آسٹریلیوی نژادجولین اسانج کی ادارت میں ۲۰۰۶ء میں قائم ہونے والے وکی لیکس کے ادارے نے دنیامیں ہونے والے واقعات اورسازشوں پرمبنی خفیہ دستاویزات کواپنی ویب سائٹ پرمنظرعام پرلاکرکئی ملکوں کے شہریوں کوان کے اداروں میں ہونے والی کاروائیوں سے متعارف کروایاہے جہاں اس کے شہریوں کوان معاملات سے بالکل بے خبررکھاجاتاہے۔
اس ویب سائٹ کو”سن شائن“نامی تنظیم چلاتی ہے جس کادعویٰ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ،عام شہری،تحقیقاتی صحافت کرنے والے صحافی اورٹیکنالوجی کے ماہرین ان کومالی وسائل مہیاکرتے ہیں۔کوئی بھی گمنام شخص ویب سائٹ کو معلومات بھیج سکتاہے جس کاجائزہ ایک ٹیم لیتی ہے۔ویب سائٹ سویڈن کا ایک انٹرنیٹ مہیاکرنیوالا ادارہ”پی ایس کیو“ چلارہاہے۔وکی لیکس نے ۲۰۰۷ء میں ایک ویڈیوجاری کی تھی جس میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں نہتے عراقیوں کوقتل ہوتے دکھایاگیاتھااوراس نے وکی لیکس کی شہرت میں اہم کرداراداکیاتھا۔جولائی ۲۰۱۰ء میں ۹۲ہزاررپورٹس پرمشتمل ضخیم دستاویزجاری کی گئی جس میں کہاگیاکہ افغان جنگ کے حوالے سے امریکانے جنگی کامیابیوں پربالکل غلط بیانات جاری کرکے عوام کوگمراہ کیا۔بعدازاںآ ج سے چندماہ قبل وکی لیکس نے دولاکھ سے زائدخفیہ امریکی سفارتی دستاویزجاری کیں۔وکی لیکس کے مستندہونے کے بارے میں کسی بھی مستندذریعے سے ابھی تک یہ اطلاع نہیں آئی کہ یہ کوئی جعلی تنظیم ہے اوراس کی جاری کردہ دستاویزات مشکوک ہیں۔
اس تنظیم کامقصدکیاہے اوریہ کس طرح سے کام کرتی ہے اس کے بارے میں اس کے بانی جولین اسانج خودکہتے ہیں کہ ”خفیہ معلومات فراہم کرنے والوں کے بارے میں صرف یہ بتایاجاسکتاہے․․․․․خفیہ معلومات فراہم کرنے والوں کے بارے میں ہم نے کئی طریقے وضع کئے ہیں تاکہ ہم تک وہ تمام باتیں پہنچ سکیں،انٹرنیٹ پرہم جدیدترین خفیہ کوڈکی مددسے تمام معلومات حاصل کرتے ہیں،نشانات بھی خفیہ رکھے جاتے ہیں،سویڈن اوربیلجئم جیسے ممالک کے قانونی دائرہٴ اختیارکے ذریعے ان معلومات کوقانونی دفاع کیلئے ڈھالاجاتاہے،
ہم میل اورپوسٹل میل کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ہیں چاہے وہ خفیہ ہویانہ ہوپھرکسی بھی خبرکی طرح اس کاجائزہ لیتے ہیں اوراس کوترتیب دیتے ہیں۔کبھی یہ بہت مشکل ہوتاہے اورجبکہ آپ معلومات کے ضخیم ڈیٹابیس کی بات کرتے ہیں ، اس کوعوام کیلئے پیش کرتے ہیں اورپھرقانونی اورسیاسی حملوں کے خلاف اپنادفاع کرتے ہیں“۔
جب جولین اسانج سے یہ پوچھاگیا، کیا وجہ ہے کہ امریکی حکومت تمام تکنیکی مہارت رکھنے کے باوجودوکی لیکس کوان تمام دستاویزات سے دورنہیں رکھ سکی تاکہ اس کے خفیہ راز افشا نہ ہوسکیں؟توجولین اسانج نے اس سوال کے جواب میں کہا ”امریکاکے پاس وہ ٹیکنالوجی نہیں جس کی مددسے(ہماری)ویب سائٹ بندکی جاسکے۔انٹرنیٹ کی طرزپرہماری ٹیکنالوجی بنائی گئی ہے ،ان چیزوں کوپھرسے نمودارہونے سے روکناخاصامشکل ہے“۔لگتایہ ہے کہ اس کاپہلاہدف خود امریکی حکومت اوراس کے بعض اہم فوجی ادارے ہیں لیکن جولین نے اس کی تردیدکرتے ہوئے یہ بھی کہا”یہ تصورغلط ہے کہ ہماراکوئی مخصوص ہدف ہے،ہم کسی ایک مخصوص ملک یا کسی بھی مخصوص ادارے کے خلاف کام نہیں کرتے ،ہم صرف معلومات کی اشاعت کے وعدے پرقائم ہیں جس کے ممکنہ طورپراہم اثرات رونماہوسکتے ہیں“۔
پاکستان میں متعین امریکی سفارتکاروں یادوسرے اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے دورے کے بعدپاکستان کے بارے میں ہزاروں دستاویزات وکی لیکس نے بغیرکسی ترمیم کے شائع کی ہیں۔ان دستاویزات سے پہلی مرتبہ معلوم ہواکہ ہمارے عسکری اورسیاسی رہنماامریکیوں سے کس قسم کی گفتگوکرتے ہیں اور امریکاکاپاکستان میں کتنااثرورسوخ ہے اور امریکا پاکستان کے مختلف اداروں میں کس قدررسائی رکھتاہے۔یہ زرخیزمعلومات پرمبنی دستاویز ایک کھلی کتاب ہیں جن کوپڑھ کر محسوس یہ ہوتاہے کہ پاکستان شائداب امریکاکی ایک کالونی ہے جہاں قصرسفیدمیں بیٹھے شخص کی حکمرانی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک موٴقراخبار”ڈان“نے وکی لیکس کے ساتھ ایک خصوصی معاہدے کے بعدان کی اشاعت کی ہے۔
سابقہ امریکی سفیربرائے پاکستان این پیٹرسن کے حوالے سے کئی مراسلے پاک فوج کے حوالے سے وکی لیکس میں شائع ہوئے ہیں جوانہوں نے اپنے دورِ سفارت کے دوران اپنی حکومت کوتحریرکئے۔این پیٹرسن نے یہ مراسلے امریکی وزارت خارجہ اور امریکاکے ملکی سلامتی کے اداوں کوتحریرکئے جن میں سے ایک اہم مراسلہ جو۸ستمبر۲۰۰۸ء کو امریکی افواج کے سربراہ مائیک مولن کی جنرل کیانی سے ملاقات کے حوالے سے ہے ،جس میں انہوں نے تحریرکیاہے کہ”جنرل کیانی نے مائیک مولن سے کہاکہ وہ فوجی آپریشنز خصوصاً آئی ایس آئی پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے فوج میں معمول کے تبادوں اور ترقیوں کاطریقہٴ کار استعمال کریں گے۔جنرل کیانی نے جنرل شجاع پاشا اورمیجرجنرل طارق خان کی انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں کے طور پر نشاندہی کی “۔یہ بات اہم ہے کہ اس مراسلے کے ذریعے یہ گمان ہورہاہے کہ جنرل پاشاکی آئی ایس آئی کے سربراہ مقررکرنے کے بارے میں جنرل کیانی نے مائیک مولن سے بھی تذکرہ کیاتھا۔ اس مراسلے میں آگے چل کریہ بھی لکھاہے کہ” ۲۹ستمبرکو۷میجرجنرلوں کولیفٹیننٹ جنرلوں کے عہدوں پرترقی دی گئی اوران ترقیوں کے کچھ ہی گھنٹوں میں فوج میں سنیئرعہدوں پرتبادلے کئے گئے ،ان میں احمدشجاع پاشازیادہ قابل ذکرہیں جنہیں لیفٹیننت جنرل کے عہدے پرترقی دیکرڈی جی ملٹری آپریشنزسے تبدیل کرکے ڈی جی آئی ایس آئی مقررکیاگیا ․․․․․․․․جنرل کیانی نے آئی ایس آئی میں اصلاحات کیلئے ایڈمرل مولن اورسی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹراسٹیفن کیپس کی درخواست کابراہِ راست جواب نہیں دیالیکن انہوں نے صدر پرویزمشرف کے مقررکردہ افسران کوہٹاکر اپنے وفادارساتھیوں کوتعینات کردیا“۔
این ڈبلیوپیٹرسن مراسلے میں مزیدتحریرکرتی ہیں”بطورڈی جی ملٹری آپریشنزاحمدشجاع پاشاکوآئی ایس آئی کی حکمتِ عملی اور طریقہ کارکاپہلے سے علم تھااوراگروہ آئی ایس آئی میں اصلاحات لاتے ہیں تواس عمل کو براہِ راست جنرل کیانی سے منسوب کیاجائے گا“۔یہ تبصرہ اس فیصلے پرتھاجس کے ذریعے جنرل پاشاکوڈی جی آئی ایس آئی بنایاگیاتھا۔یہ بھی اسی مراسلے میں لکھاگیاہے کہ ”امیدہے پاشاآئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل تاج ندیم کے مقابلے میں اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ زیادہ رابطوں میں رہیں گے اورسیاسی جوڑ توڑ کی بجائے انسدادِ دہشتگردی کے اقدامات پرزیادہ توجہ دیں گے“۔دہشتگردی کے بارے میں جوامریکیوں سے بات چیت رہی ہے اس حوالے سے ۲۲جنوری ۲۰۰۸ء کے ایک مراسلے میں این ڈبلیوپیٹرسن نے جنرل کیانی اورایڈمرل ولیم فیلن کی ملاقات کے حوالے سے تحریرکیاہے: ”جنوبی وزیرستان کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل کیانی نے ایڈمرل فیلن سے درخواست کی کہ کیاوہ علاقے میں فوجی آپریشن کی مددکیلئے”پریڈیٹرکوریج“جاری رکھنے میں تعاون کرسکتے ہیں․․․․․․جنرل کیانی نے ایڈمرل فیلن سے کہاکہ وہ پریڈیٹرطیاروں کاحصول نہیں چاہتے بلکہ ان کی دلچسپی تکنیکی طورپرUAVsمیں ہے۔جنرل کیانی کاخیال تھاکہ یہ طیارے مہنگے ہیں اوردرخواست کی کہ امریکایہ طیارے امدادیاعارضی طورپرپاکستان کوفراہم کرے“۔
۹اکتوبر۲۰۰۹ء کے ایک مراسلے میں پیٹرسن تحریرکرتی ہیں”جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے گیارہویں کورکیلئے امریکی فوجی تعاون ڈویژن سطح پرہوگااورڈرون طیاروں کی کاروائی کی براہِ راست ویڈیونشریات اس میں شامل ہونگی“۔جنرل کیانی کوڈرون حملوں کی خبرہے اس سلسلے میں امریکی سفیرپیٹرسن اپنے ۱۹فروری ۲۰۰۹ء کے مراسلے میں مزیدلکھتی ہیں:”جنرل کیانی مکمل اطلاعات رکھتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں اب تک مقررہ اہداف کوہی نشانہ بنایاگیاہے (اورصرف چندسویلین اموات واقع ہوئی ہیں)اوروزیرستان کے دونوں علاقوں(شمالی وجنوبی)میں بنیادی طورپرغیرملکی جنگجووٴں کونشانہ بنایاگیا“۔این پیٹرسن کے مراسلے کے مطابق گویاامریکی ڈرون حملوں کوجنرل کیانی کی مکمل حمائت حاصل ہے۔ایک اوربہت ہی اہم مراسلہ این ڈبلیوپیٹرسن نے ۴۔۳مارچ۲۰۰۸ء کوتحریرکیاہے ”ایڈمرل مولن نے جنرل کیانی سے فاٹاکی فضائی حدودپرامریکی طیاروں کیلئے تیسرے ہوائی زون کی منظوری کی درخواست کی“ اس مراسلے سے لگتاہے کہ امریکی افواج کوپہلے دوفضائی زون کی منظوری دی گئی تھی۔ وکی لیکس کے انکشافات کے بعدآج تک این ڈبلیوپیٹرسن نے ان کی بالکل تردید نہیں کی جسکی وجہ سے ان مراسلوں کی حقیقت کوجھٹلایانہیں جایاسکتا۔
ان مراسلوں کوپڑھنے کے بعددوچیزیں بہت اہم ہیں کہ یہ واضح ہوگیاہے کہ کس حدتک ہماری سیاسی اوعسکری قیادت امریکاکے ایجنڈے پرعمل کرتے نظرآتے ہیں لیکن ہمیں یہاں اس بات کاخیال رکھناہوگاکہ یہ تمام مراسلے امریکی سفیراین ڈبلیوپیٹرسن کاذاتی نکتہ نظر ہے اوریہ ضروری نہیں کہ مراسلوں میں بیان کردہ حقائق کادوسرے فریق کی سوچ سے بھی اتفاق ہو۔ لیکن جب کوئی سفیرکسی ایسی فوجی قیادت کی ملاقات کے بارے میں مراسلہ تحریرکرے اوراس کے مضمون کی کوئی تردیدبھی سامنے نہ آئے تواس کوجھٹلاناازحدمشکل ہوجاتاہے۔جہاں تک ڈرون حملوں کاتعلق ہے اس کے بارے میں جب جنرل پاشاڈی جی ایم اوتھے توانہوں نے جی ایچ کیومیں میڈیاکو ایک بریفنگ میں واضح طورپراعلان کیاتھاکہ کوئی ڈرو ن ہماری اجازت ،اطلاعات اورہماری مرضی ومنشاکے بغیر نہیں اڑتاتوگویااس کاصاف مطلب یہ ہے کہ ڈرون حملے ہماری سیاسی وعسکری قیادت کی مرضی کے ساتھ ہورہے ہیں۔حال ہی میں اگراس پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے تواس کا ابھی تک کوئی واضح اعلان سننے میں نہیں آیا۔پھران مراسلوں میں جس طرح جنرل کیانی سے مولن نے فاٹاکے علاقوں پر تیسرے زون پرحملے کی اجازت طلب کی توگویاپاکستان کے دوزون پرامریکی فضائی حملوں کی اجازت پہلے سے موجودتھی اورجنرل کیانی اس وقت بھی افواج کے چیف آف سٹاف تھے ۔ان مراسلوں کے منظرعام پرآجانے کے بعدیہ ضروری نہیں کہ ہماری سیاسی وعسکری قیادت پاکستانی عوام کے سامنے اصل حقائق کوسامنے لائیں وگرنہ عوامی غیض وغضب کوکہاں تک روک سکیں (گے
(جاری ہے)