ٹیکسوں کی ادائیگی
اے حق۔لندن
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لئے ٹیکسوں کی وصولی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک میں ٹیکس کی وصولی کے نظام کو بہترین بنانے کی ضرورت ہے،مگر اس طرف بالکل توجہ نہیں دی جا رہی۔بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس کلچرفروغ ہی نہیں پاسکا۔پاکستان وہ ملک جہاں کے باسی سالانہ اربوں روپے خیرات میں دیتے ہیں مگر اکثر امیرزادے ٹیکس دینا پسند نہیں کرتے اور پاکستان کو باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں۔پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ فی کس آمدنی کے لحاظ سے سب سے زیادہ رقم فلاحی اداروں کودیتے ہیں۔ایدھی ٹرسٹ کو ایشیاءیاشایددنیا کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ کہا جاتا ہے۔جومکمل طور پر لوگوں کی امداد پر چل رہا ہے۔اس کے علاوہ شوکت خانم ہسپتال اور دوسرے بڑے ادارے بھی موجود ہیں۔اس کی بڑی وجہ اس بات پر یقین ہے کہ جو رقم ان اداروں کو دی جارہی ہے وہی صحیح طریقے سے خرچ ہورہی ہے۔پھر پاکستان وہ ملک ہے جہاں کے لوگ سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں۔پاکستان کی 180ملین کی آبادی میں سے صرف 17ملین لوگ ٹیکس گذار ہیں۔پاکستانی جی ڈی پی کا صرف 10%ٹیکسوں کی شکل میں آتا ہے۔ایک رپورٹ میں ہیمبرگ یونیورسٹی کے ایک ماہرمعاشیات کی تحقیق کے مطابق کسی قوم کی معیشت،معاشرت اور تاریخ کا گہراتعلق ٹیکس کلچر سے ہوتا ہے،پاکستان بھی اس الگ نہیں۔ہمارے ملک میں ٹیکس وصولی کا نظام نہایت فرسودہ اور ایک لحاظ سے ناانصافی پرمبنی ہے۔پاکستان وہ ملک ہے جہاں پر لوگوں کی دولت پر ٹیکس بہت کم لیا جارہا ہے۔جو کروڑوں اربوں روپے کی جائیدادیں رکھتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح سے ٹیکس بچا رہے ہیں۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس کی بات کریں تو یہ ٹیکس عام عوام سے ایک طرح زبردستی یااُنہیں بتائے بنا وصول کیا جا رہا ہے۔اسی ان ڈائریکٹ ٹیکس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کی قوت خرید متاثر ہوتی ہے۔عام صارفین پر لگائے گئے ٹیکس کاانحصار اس بات پر ہوتا کہ جانا جاسکے کہ عوام کی قوت خریدکتنی ہے۔اس صورت میں سپلائی چین خودبخودریونیواکٹھا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ملکی پیدا واراور صارفین کو بڑھانے کا ایک اور اہم طریقہ تو یہ ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔سیلزٹیکس کو انسانی تاریخ کا سب سے پرانا ٹیکس کہا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ ہر بڑی ٹرانسزکشن پر ٹیکس وصول کیا جائے اور اس کا بوجھ آخری صارف تک منتقل کیا جائے۔پاکستان میں سیلزٹیکس اور جنرل ٹیکس ہی ریونیوکے بڑے ذرائع بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں لوگ خوشی سے ٹیکس کیوں نہیں ادا کرتے اور یہاں ٹیکس کلچر کیوں نہیں پنپ سکا؟ویسے تو اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ لیکن سب اہم وجہ کرپشن ہے،ٹیکس گذار اور حکومت کے درمیان اعتمادکا فقدان ہے۔اصل مےں کرپشن کی وجہ سے لوگوں کو اس بات کا ہرگزیقین نہیں کہ ان کا ادا کردہ ٹیکس صحیح ہاتھوں میں جارہا ہے۔جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود بھی ملک کی حالت ویسی ہی ہے تو ہر کوئی ٹےکس سے بچنے کی خاطر نت نئے طرےقے سوچتا ہے اور پاکستان میں کوئی ایسا کام نہیں جو ناممکن ہو،البتہ پےسہ ہونا ضروری ہے۔حکومت لوگوں کے بنیادی حقوق بھی ادا نہیں کررہی،ٹوٹی ہوئی سڑکیں،صاف پانی کی نایابی،ہسپتال ، صحت کی سہولیات کا کم ہونا اور دوسری بے شمار ضروریات جولوگوں کا حق ہیں،وہ مہیا نہیں کی جا رہےں۔توپھر یہ قدرتی امرہوگا کہ عام لوگ سمجھیں گے کہ ان کا ٹیکس دینا پیسے کا زیاع ہے۔پھر یہ ناانصافی بھی نظر آتی ہے کہ ملک کی دولت مند اشرافیہ ،جاگیردار،سیاستدان،سرمایہ کار سالانہ اربوں کھربوں روپے کا ٹیکس ادا نہےں کر رہے ےعنی چوری کررہے ہیں،ملک سے بےوفائی کر رہے ہےں،ملک سے غداری کر رہے ہےں۔ترقی یافتہ ملکوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ حالیہ عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے جرمنی کی معیشت کو بھی نقصان پہنچا۔جرمنی ایک ویلفئیراسٹیٹ ہے۔حکومت پناہ گزینوں،بیروزگاروں،بزرگ افراد اور طالب علموں کی مدد کرتی ہے۔کچھ عرصہ قبل معاشی بحران کی وجہ سے حکومت اس معاملے میں دباؤکاشکار ہوگئی تھی۔اس صورتحال میں جرمنی کے محب وطن لوگوں نے حکومت کی مدد کرنے کی ٹھانی جو کہ دنےا بھر مےں محب الوطنی کا جذبہ رکھنے والوں کے لئے مثال تھی۔اُس وقت جرمن حکومت کو مالیاتی خسارے کا سامنا تھااور لوگوںکا کوالٹی آف لائف برقراررکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ان حالات میں ”سرمایہ داروں پر ٹیکس بڑھاؤگروپ“سامنے آیا۔یہ جرمنی کے تاجروں ،سرمایہ داروں،صنعت کاروں کا ایک دلچسپ گروپ ہے۔اس میں جرمنی کے چوٹی کے بزنس مین شامل ہیں۔ان لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ”ہم دنیا کے خوشحال ترین لوگ ہیں،ہمارے پاس ہماری ضرورت سے بہت زیادہ سرمایہ ہے۔اس لئے حکومت ہم پر 5فیصد مزیدٹیکس بڑھا دے۔ “اس سے حکومت کو مزیدسواارب یورو کی آمدن ہوئی اور حکومت اس کی مدد سے عام شہریوں،بے روزگاروں،بے گھرلوگوں، طالبعلموں اور غربت کے شکار خاندانوں کی مدد کرسکے گی۔اس گروپ کا کہنا ہے کہ حکومت ہراُس جرمن شہری پر 5فیصدڈائریکٹ ٹیکس لگا دے جس کے اثاثے 5لاکھ یورو سے زائد ہیں۔اس سے جرمنی کے لوگوں کا معیارزندگی خراب نہیں ہوگا۔دولت مندوں کے اس گروپ نے برلن میں ایک مظاہرہ بھی کیا۔مظاہرے کے دوران گروپ کے اراکین نے اپنے ہاتھوں سے یوروکے نوٹ ہوا میں لہرائے اورنعرہ لگایا کہ ”ہمارے پاس دولت ہے۔ہم سے ہماری دولت لے لوتاکہ جرمنی ترقی کرسکے“۔کاش اےسے محب وطن پاکستان مےں بھی ہوتے۔مگر پاکستان مےں ٹےکس وصول کرنے والوں کی جےبوں مےںجہنم ےعنی رشوت ڈال کر ملک سے غداری کا ثبوت دےا جاتا ہے۔پاکستان کے بڑے بڑے بزنس مینوں اور سرمایہ داروں ک] ]>