Home / Socio-political / پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کرنے سے کس کا بھلا ہوگا؟

پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کرنے سے کس کا بھلا ہوگا؟

پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کرنے سے کس کا بھلا ہوگا؟

تیشہ فکر عابد انور

                فسطائی طاقتوں کی سب سے بڑی شناخت یہی ہوتی ہے کہ جھوٹ ہو یا سچ معاملہ صحیح ہو یا غلط اپنے موقف پر قائم رہتی ہے اور اپنے موقف پر قائم رہنے کے لئے نہ تو وہ کسی دلیل کو تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی کسیِثبوت پر دھیان دیتی ہے۔ اپنی شان بچانے کے لئے خواہ ملک و قوم کی قربانی دینی پڑی اس سے قطعی گریزنہیں کرتی۔ ہٹلر ہو یا اس قبیل کے دوسرے آمر انہوں نے اپنی انا کی تسکین کے لئے پورے ملک کو تباہی کی بھٹی میں جھونک دیا۔یہ الگ بات ہے کہ ہر آمر کا انجام بھیانک ہی ہوا ہے لیکن تاریخ سے سبق کون سیکھتا ہے۔ اگر ذرا سا بھی اس سے درس لیا جاتا تو دنیا کی کتنی پرسکون ہوتی لیکن ان کی خصوصیت ہی یہی ہوتی ہے وہ ہر غلط بات کو سچ کے آئینے میں دکھاتی ہیں۔ اس کے لئے وہ تمام ذرائع ابلاغ اور ترسیل کے وسائل کااستعمال کرتی ہیں۔ یہ طاقتیں جس قدر ظالم ہوتی ہیں اسی قدر ڈرپوک بھی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ سے ظلم و ستم ڈھانے کے بعد اپنی بے گناہی کے طرح طرح بہانے تراشتے ہیں۔ دنیا کے سامنے خود کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ جیسے کہ اس سے بڑا معصوم کوئی نہیں ۔ہندوستان میں جتنے بھی فسادات ہوتے ہیں ہر جگہ ان ہی فسطائی طاقتوں کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن فسادات کے بعد میڈیا کے سہارے خود کو مظلوم ثابت کرنے میں اپنی ساری طاقت صرف کردیتی ہیں۔ یہی حال بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہے ۔ اس کے ساتھ منفی چیزیں جتنی بھی جوڑ دی جائیں وہ سب اس پرفٹ بیٹھتی ہیں۔ کرپشن، بدعنوانی، ملاوٹ کو بڑھاوا دینے، کمزوروں کو ستانے، چھوا چھوٹ کو فروغ دینے اور اپنی حکمرانی والی ریاستوں میں بدعنوانی کی وبا آسمان چھونے کے باوجود اس کے چہرے پر شکن تک نہیں پڑتا۔کرناٹک کے ریڈی برادران کا کوئلہ کان گھپلہ، زمین گھپلہ، مدھیہ پردیش میں طرح طرح کے گھپلے ہونے کے باوجود اس پارٹی کو کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ اسی ریاست میں کوئلہ اور پتھر مافیا کی سازش کا ایک آئی پی ایس افسر شکار ہوجاتاہے لیکن اس بے شرم پارٹی کو کوئی فرق نہیں پرٹا۔ہندوستان کا آئین دنیا کے بہترین آئینوں میں سے ایک ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ کمی ہے تو اس آئین کی تشریح کرنے والوں میں ہے جو اپنے مفادات کے کے حساب قانون کو بھی غلام بنالیا ہے۔اگر ہندوستانی قانونی کا صحیح طریقہ سے نفاذ ہوگا تو بی جے پی ، آر یس ایس اس کی ذیلی تمام تنظیموں کے ۹۵ ارکان جیل میں ہوں گے یا مقدمات کا سامنا کر رہے ہوں گے لیکن معاملہ یہی ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال تو اب ڈر کاہے کا‘‘۔۹۵ فیصد افسران کسی نہ کسی طریقے سے بی جے پی کے مقاصد کی تکمیل کیلئے کام کرتے ہیں خواہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو۔ اس کا فارمولہ ہی یہی ہے کہ جھوٹ اس قدر شور سے بولا جائے سچ دب کر رہ جائے۔پارلیمنٹ میں بی جے پی کا بحث سے گریز کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ انہیں کسی گھپلے کے اجاگر کرنے سے یا اس کے بارے میں حکومت کو گھیرنے کے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو اس کے سہارے اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کے گراف کو اونچا رکھنا چاہتی ہے ۔

                اس میں کوئی شک نہیں کہ یو پی اے دوم کا تنازعہ سے گہرا تعلق رہا ہے۔ ۲۰۰۹ کے بعد وہ مستقل تنازعات کے گھیرے میں ہے اور بدعنوانی کے کئی معاملے سامنے آچکے ہیں۔ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ترقی پسند اتحاد حکومت کا بدعنوانی ، مہنگائی اور تنازعات سے رشتہ چولی دامن کا ہے۔ جس میں ٹو جی اسپیکٹرم کا گھپلہ سب سے نمایاں ہے۔ جس میں ایک سابق وزیر طویل عرصہ تک جیل میں رہ چکے ہیں اور کئی سیاست داں ، صنعت کار اوربیوروکریٹ پر مقدمہ چل رہاہے۔ لیکن حالیہ گھپلہ نے عوام کی نیند کی اڑادی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں دونوں فریقوں کانگریس اور بی جے پی کا رویہ گمراہ کن ہے۔ جہاں بی جے پی اس معاملے کو رائی کا پہاڑ بنانے پر تلی ہے وہیں کانگریس کی قیادت والی حکومت اسے معمول کا واقعہ بتارہی ہے۔ بی جے پی اس کا نقصان کا ذکر کر رہی ہے جس پر ابھی کام ہی شروع نہیں ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھی سی اے جی کی رپورٹ لیک ہوئی تھی جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا ۔اس وقت پارلیمنٹ میں ہنگامہ سی اے جی کی اس رپورٹ کے سبب ہے جس میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیلامی کے بغیر کوئلے کی کانیں حاصل ہونے سے ہندوستان کی نجی کمپنیوں کو ایک لاکھ چھیاسی ہزار کروڑ روپے کا فائدہ ہونے کا امکان ہے اور یہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ سی اے جی کے خیال میں اگر کوئلہ بلاک کے الاٹمنٹ میں نیلامی والا معاملہ اختیار کیا جاتا تو یہ نقصان نہیں ہوتا کیوں کہ سب سے زیادہ بولی لگانے والی کمپنیوں کو الاٹ کیا جاتا۔ جمعہ کو پارلیمنٹ میں پیش کی گئی کیگ کی رپورٹ کے مطابق ایسار پاور، ہنڈالکو، ٹاٹا سٹیل، ٹاٹا پاور، جندل سٹیل اینڈ پاور سمیت 25 کمپنیوں کو مختلف ریاستوں میں کوئلے کا بلاک الاٹ کیا گیا۔کیگ کے مطابق نجی کمپنیوں کو اس سے 1.86 لاکھ کروڑ کا اقتصادی فائدہ ہوا۔ کیگ کے اس اعداد و شمار کی بنیاد سال 2010۔11 میں کانوں کی اوسط لاگت اور اوسط فروخت لاگت پر ہے۔کوئلہ وزیر پرکاش جیسوال نے کیگ کے اس اندازے کو مسترد کر دیا ہے کہ 2005 سے 2009 کے درمیان 57 کوئلہ بلاکوں کے الاٹمنٹ میں نجی کمپنیوں کو 1.86 لاکھ کروڑ کا فائدہ ہوا ہے۔حکومت کا موقف یہ ہے کہ کیگ کی رپورٹ گمراہ کن ہے کیوں کہ جتنے بلاک الاٹ کئے گئے ہیں ان میں سے ابھی تک کوئی نکالا ہی گیا تو یہ نقصان اندازہ کیسا۔حکومت کا کہنا ہے کہ کیگ نے مجوزہ آمدنی کی معمولی سی رقم کو شامل کر لیا ہے اور اس کے موجودہ قیمت پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔اس کے کانگریس کا موقف یہ بھی ہے کہ کیگ کے اعلی عہدیدار بی جے پی کے اشارے پر کام کر رہے ہیںکیوں کہ اس سے پہلے کیگ کے سربراہ کو بی جے پی ممبر پارلیمنٹ بناچکی ہے۔بی جے پی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ ان کے مفاد کی تکمیل کے لئے کام کرنے والے افسران کو پارلیمنٹ میں ضرور پہنچاتی ہے۔ ۱۹۹۲ میں اجودھیا میں بابری مسجد کی شہادت میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ایس پی اور رام مندر کا تالا کھولنے والے جج کو بی جے پی پارلیمنٹ پہنچا چکی ہے ۔ اس کے علاوہ متعصب اور ہندوتو نظریہ کے حامل افسران کی آخری پناہ گاہ بی جے پی ہیڈکوارٹر ہی ہوتی ہے۔ اس لئے کانگریس کا الزام بلاسبب بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کانگریس کا دامن صاف ہے وہ بھی بی جے پی کی ’’بی‘‘ ٹیم ہی ہے ۔ تمام خرافات اس پارٹی میں بھی پائی جاتی ہے یہ الگ بات ہے کہ کانگریس میں آر ایس ایس نظریہ کے حامی کی ایک بڑی تعداد ہے جس میں کئی سینئر وزیر بھی ہیں جو جو بی جے پی راہ آسان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

                اہم اپوزیشن پارٹی بی جے پی کا موقف ہے کہ  2006۔09 کے دوران الاٹ شدہ 70 کوئلہ بلاک میں ایک سے بھی کوئلے کی پیداوار شروع نہیں ہوا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ فیصلہ اقتصادی ترقی کو ذہن میں رکھ کر نہیں کیا گیا تھا۔ پارٹی کے مطابق وزیراعظم کی یہ دلیل کہ کوئلہ بلاک کا الاٹمنٹ ملک کی اقتصادی ترقی کو بڑھانے کے لئے کیا گیا تھا، کھوکھلی ثابت ہوئی۔ اس لئے  وزیر اعظم کو اخلاقیات کی بنیاد پر استعفی دے دینا چاہئے۔ ہندوستان میں کوئلہ توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور ۳۴ سے ۴۰ فیصد توانائی کی ضرورت کوئلے سے ہی پوری ہوتی ہے۔ہندوستان میں بیشتر بجلی گھر گوئلے سے ہی چلتے ہیں۔ اگر کوئلے پر تعطل برقرار رہا اور کانوں سے کوئلہ نہیں نکالا گیا تو اس کا سب سے زیادہ اثر بجلی گھروں پر ہی پڑے گا۔ جنوری 2000 میں کیے گئے تعین کے مطابق ہندوستان کی کانوں میں کل 211.5 ارب ٹن کوئلے کا ذخیرہ موجودہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کے ہندوستان  میں 19689 کروڑ ٹن کوئلہ نکالنے کی پہلی کوشش 1774 میں جھارکھنڈ کے رانی گج کوئلہ علاقے میں دو انگریزوں سنمر اور ہیل تھیلی نے کی تھی اور اس کے بعد 1814 میں اسی علاقے میں رورپٹ جونز کی رپورٹ ملنے پر کوئلے کی کان کنی شروع کی گئی تھی۔ جھارکھنڈ میں سب سے زیادہ کوئلہ پایا جاتا ہے اور ملک کو ۲۴ فیصد کوئلہ سپلائی کرتاہے۔ اس کے بعداڑیسہ، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال کا نمبر آتا ہے ۔ ملک میں کوئلہ کانوں کی تعداد ۶۰۶ ہے۔

                مانسون سیشن میں پارلیمنٹ کا کوئی کام کاج نہیں ہوا ہے۔ اس سے قبل ٹوجی اسپیکٹرم گھپلہ کے سلسلے میں پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں چلی تھی۔ جس میں ۵۴ بل پاس ہونے تھے لیکن کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے صرف ۲۸ بل ہی منظور کئے گئے تھے۔ پی آر ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال بجٹ سیشن (مارچ تا مئی) میں تقریباً نوے فیصد اوقات کا قابل قدر استعمال ہوا اور بارہ بل منظور کیے گئے جبکہ سترہ نئے بل پیش کیے گئے جبکہ سیشن کے اختتام پر سو (۱۰۰) بل التوا میں پڑے تھے۔اس مانسون اجلاس میں بھی گزشتہ سال کا سایہ نظر آرہاہے۔ حزب اختلاف کی اہم جماعت بی جے پی کے ہنگامے کے سبب اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔حالانکہ موجودہ سیشن میں پارلیمنٹ میں کچھ اہم قوانین بننے تھے جن میں بدعنوانی مخالف قانون، دفتروں میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے خلاف قانون، کسی غلط کام کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو تحفظ فراہم کرنے والا قانون اور اعلی تعلیمی نظام کو درست کرنے والا قانون شامل ہے۔لیکن تازہ صورت حال کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ ان پر بحث بھی ہو جائے تو غنیمت ہے قانون بننا تو دور کی بات ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی پارلیمنٹ میں بحث اس لئے خوف زدہ ہے اسے لگتا ہے کہ اس کا بھی کچا چٹھا عوام کے سامنے آجائے گا۔ ٹوجی اسپیکٹرم پر بہت  ہنگامہ ہوا جو صحیح بھی ہے لیکن میڈیا ۱۹۹۸ سے ۲۰۰۳ کے درمیان ٹیلی مواصلات گھپلے کے بارے میں خاموشی کیوں اختیار کی گئی۔ ایک وزیر نے ایک کمپنی بے حد فائدہ پہنچایا جس کے عوض اس وزیر پانچ ہزار شےئر دئے گئے تھے لیکن کانگریس کی آرام پسندی کہیں یا بی جے پی کی بی پارٹی وہ مدلل جواب نہیں دیتی یا اپنے لوگوں کے خلاف محاذ کھڑا کرنا نہیں چاہتی۔

                ملک اس وقت مہنگائی اقتصادی کساد بازاری سمیت مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ لیکن بی جے پی کو صرف پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کرنے میں دلچسپی ہے اور وہ بحث سے مسلسل بھاگ رہی ہے کیوں کہ بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں بدعنوانی کا بول بالا ہے اور اگر بحث ہوگئی تو اس کے بھی کچے چٹھے عوام کے سامنے آجائیں گے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کو عوام کی فلاح بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ ہنگامہ کھڑا کرکے صرف اپنا کھویا ہوا وقار اور گرتی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ۲۰۱۴ کے میددان کو فتح حاصل کرنے کے لئے ہر حربہ اپنا رہی ہے جہاں ایک ملک میں فسادات کو ہوا دے رہی ہے وہی پارلیمنٹ کو یرغمال بناکر عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رہی ہے ۔ اگر بھارتیہ جنتاپارٹی کو عوام سے ہمدردی ہوتی ہے تو وہ پہلے اپنی ریاست میں مہنگائی پر قابو کرتی اور پھر مرکزی حکومت کو مجبور کرتی کہ وہ مہنگائی کو قابو میں کرے۔ بی جے پی اور ملغوبہ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ اس عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے کتنے روز تک پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کی۔ کتنی تحریکیں چلائیں۔ آج عوام کا مسئلہ بدعنوانی نہیں مہنگائی ہے اس سے پورا ملک پریشان ہے۔ ملک جہاں نقص تغذیہ کا شکار ہے وہیں یہاں عوام اپنا پیٹ پالنے کیلئے اپنے بچوں کو فروخت کر رہے ہیں اس سے زیادہ شرم کی اور بات ہوسکتی ہے۔ یہ واقعات بی جے پی یا اس کی اتحادی حکومت والی ریاست پیش آر ہے ہیں۔ اس کیلئے وہ پارلیمنٹ کا اجلاس ٹھپ کیوں نہیں اس لئے کہ اس سے اس کا بھی بھیانک چہرہ ملک کے سامنے آجاتا۔ اب کوئلہ گھپلہ میں پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کرکے عوام کی گاڑھی کمائی کا اربوں روپے برباد کر رہی ہے اس لئے عوام کو اس کے حقیقی چہرے کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *