عباس ملک
ملک اور معاشرے کے نگہبانوں اور پاسبانوں کے پاس اگر ایک صوبائی وزیر داخلہ اور طبقہ اشرافیہ کے منحرف کیلئے شنوائی نہیں تو پھر عام آدمی کیلئے انصاف اور اقدام کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔مہذب اقوام میں ایسے مواقع پر فوری اقدامات کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ ہمارا دامن امثال زریں سے بانجھ ہے ۔اس سے یہی اخذ کیا جا سکتاہے کہ شاید ہم مہذب معاشرے کا حصہ نہیں ۔ملک کو پہاڑی پر بیٹھے اور پہاڑوں کے دامن میں پھیلے اور پناہ گزینوں سے خطرہ ہے ۔پہاڑی والا اور پہاڑوں والے پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے قہر و الام کا سبب ہو چکے ہیں ۔پہاڑی والے نے مہنگائی ،بدعنوانی ،اقربا پروی ،سفارش رشوت ،دھونس اور نااہلیت کا قہر مچا رکھا ہے ۔دوسری طرف پہاڑوں پرمکین پاکستان اور پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں ۔پہاڑوں کے دامن میں پھیلے ہوئے لٹیرے عوام کے بچے کچھے خون اور پاکستان کے وجود کو چرکے لگانے میں مصروف کار ہیں ۔کسی کو اقتدار کے حصول اورکسی کو بچاؤ کی تمنا ہے ۔اقتدار کے حصول کی خاطر کوئی چِلا رہا ہے تو کسی کو اس کے بچاؤ کی تمنا ہے ۔حصول اقتدار کیلئے غیروں کے تلوے چاٹنے پڑیں یا ان کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنا پڑے دریغ نہیں ۔اقتدار کے بچاؤ کیلئے دوستوں سے ناتا توڑنا پڑے یا اپوزیشن سے مفاہمت کی پالیسی اپنائی جائے مضائقہ نہیں۔ سیاست میں کوئی دوست نہیں ہوتا اور کوئی دشمن نہیں ہوتا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کا کوئی اخلاقیات نامی کوئی اصول نہیں ہوتا ۔سیاست میں صرف مفادات دیکھے جاتے ہیں ۔اقتدار کے حصول اوراقتدار کے بچاؤ کو دیکھا جاتا ہے ۔وہ عبادت کی طرح سیاست قائد اعظم ہی کو زیب تھی ۔اب سیاستدان کسی بیان کو حرف آخر نہیں قرار دیتے ۔سمجھتے ہیں کہ ان وعدہ بھی قرآن و حدیث نہیں کہ وہ اس پر قائم رہیں ۔حصول اقتدار کیلئے میثاق جمہوریت کو مقدس دستاویز قرار دیا گیا لیکن اسے ایک معائدہ عام جو ٹوٹ جانے کیلئے تھا قرار دیا گیا ۔جمہوریت مئوریثت اور خاندانی سیاست کے توڑ کے طور پر متعارف کرائی گئی تھی ۔آمریت اور بادشاہت میں عوام کے روزی روٹی تو چلتی ہی رہتی تھی اور ہے ۔جمہوریت عوام کی آواز اور عوام کی خواہشات کی ترجمانی کا نام ہے جبکہ اب جمہوریت سیاسی اکابرین کی تعریف اور منشوری نعروں کی ترویج کا نام ہے ۔کای اسلام سے بڑا کوئی منشور ہو سکتاہے جو سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو اہم قرار دے کر اس کی ترویج کیلئے کوشاں ہیں ۔حضور ﷺ سے بڑا کوئی راہنما ہے جس کے افکار کو زیادہ اہم قرار دیکر ان پر عمل کو فوقیت دی جائے ۔اللہ اکبر اور صدقے یا رسول اللہ سے اور پاکستان زندہ باد سے بڑھ کو کوئی نعرہ کیسے ہو گیا ۔حضور ﷺ نے امت کو یکجا اور سیاستدانوں نے سے سندھی کارڈ اور بلوچی کارڈ میں تقسیم کرکے امت محمدیہ کے جسد کو کاٹ کر قوم پرست کہلوانے میں فخر محسوس کیا ۔وہ پاکستانی قوم کے اعضا منتشر کرنے کا فریضہ سر انجام دیکر بھی محترم ہیں اور قابل پیروی ہونے کے دعویدار ہیں ۔پہاڑوں پربکھر کر اورپہاڑوں کے دامن میں پناہ لے کر اس قوم کی اصل اساس کلمہ توحید کی بجائے ہمیں قوم پرستی کے الاؤ میں جھونکنے کے ذمہ داران جمہوریت کے لبادے میں ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں جس سے یہ ملت پارہ پارہ ہو جائے ۔سندھ ،بلوچستان ،جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ذمہ دار کون ہے ۔جمہوریت کے پاسبان کیا اس کو جھوٹ کہیں گے کہ وہ ہر دور میں خواہ جرنل ضیاء الحق کے مارشل لا کا دور ہو یا مشرف کے آئینی انحراف کا دور ہو سب میں عوام کی نمائیندگی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں ۔نسل درنسل گیلانی ، مخدوم ، ملک ،خانزادے ،سب کیا یہ کردار ادا نہیں کرتے رہے ۔ان میں سے کئی سیاستدان آج بھی خود کو ضیاء الحق کا جانشین اور مشرف کے دائیں بازو کے طور پر دیکھ سکتے ہیں ۔ضیاء کی مجلس شوری کے رکن بھی آج وریز اعظم کی نشست پر بیٹھ کر اس محرومی کا پرچار کرتے ہیں ۔تیس سال سے تو وہ خود سیاست میں اہم کردار ادا کرتے آرہے ہیں تو اپنے علاقے کی محرومی کے ذمہ دار وہ ہوئے یا پنجاب ہو ا یا وفاق کی کمزوری کو اس کاسبب قرار دیا جائے ۔اس ملک اورقوم کو نسل در نسل خاندانی سیاست کے جانشینوں نے لوٹا ہے ۔ضیاء کی مجلس شوری کے اراکین اس وقت سے لیکر آج تک اس ملک اور قوم کی تقدیر کو بدلنے کے دعوی کے ساتھ سٹیج پر آج بھی موجود ہیں ۔وہ گیلانی صاحب ہوں یا ہاشمی صاحب ۔ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے ایک ہی خاندان نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے پرچم تلے پورے ملتان کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔مرکز میں جنوبی پنجاب کا نمائیندہ وزیراعظم کے روپ میں موجود ہے ۔ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی جنوبی پنجاب سے ہیں ۔اس کے علاوہ کئی اور راہنما اہم ترین وزارتوں پر موجود ہیں ۔وہ اس احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کیوں نہیں کرتے ۔وہ وہاں عوام کیلئے صنعتوں اور کارخانوں کے جال کیوں نہیں بچھاتے ۔تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز کی سہولت کو اپنے علاقوں تک پہنچانے کے منصوبہ جات شروع کیوں نہیں کراتے تاکہ ان کا احساس محرومی دور ہو۔درانی میاں کو اور لغاری صاحب کو اپنے اپنے دور میں بہاولپور کے احساس محرومی کاازالہ کرنے کا سنہری موقع تھا اس وقت ان کا دماغ آفاق بوسی نہ کر رہا ہوتا تو آج ان کے دل میں بابائے بہاولپور بننے کی تمنا تشنہ نہ رہتی ۔ بلوچ سردار بھی زیادتی کر رہے ہیں ۔میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز رہے اور اب محترم آصف زرداری صاحب بھی بلوچ ہیں ۔بگٹی صاحب سے لیکر رئیسانی صاحب تک سب بلوچ سرداروں کو مرکز میں عزت و احترام سے دیکھا گیا اب اگر وہ بلوچستان کے حق
وق کی بجائے اپنے قبائلی تعصبات کی وجہ سے ایک دوسرے کے ترقیاتی منصوبوں کے آڑے آئیں تو اس میں قصور نہ تو پاکستان کا ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت کا ہے اور نہ پنجاب ان کا حق کھا رہا ہے ۔پہاڑوں اور پہاڑیوں کی چوٹیوں کے پناہ گزین اور میدانوں میں نعرہ زن و نوحہ خواں اگر اپنے تعصبات اور اپنے منشور کی بجائے اگر پاکستان اور پاکستانی ہونے کے حوالے سے اگر اپنی ترجیحات مرتب کریں تو پاسبانی اور نگہبانی دونوں کا کردار احسن ہو جائے ۔ ایسے میں وہ اپنے منصب اور اپنے کردار سے بھی انصاف کرنے کی پوزیشن میں ہونگے ۔تاریخ میں کریہہ کردار کی بجائے اگر سنہری حروف میں کردار لکھوانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے انہیں منشور اعظم کی پیروی کرنی ہوگی ۔