Home / Articles / پاکستانی غزل کی سنجیدہ آواز :ڈاکٹر رابعہ سرفراز

پاکستانی غزل کی سنجیدہ آواز :ڈاکٹر رابعہ سرفراز

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

پاکستانی غزل کی سنجیدہ آواز :ڈاکٹر رابعہ سرفراز

ڈاکٹر رابعہ سرفراز ایک کثیر الجہات ادبی شخصیت ہیں اور گزشتہ ڈیرھ دہائیوں سے اپنی متنوع علمی اور ادبی سرگرمیوں کے سبب اہل علم و ادب کے درمیان اعتبار کی نظروں سے دیکھی جاتی ہیں۔یہ ان خوش بخت خواتین میں سے ہیں جنھیں اعلا تعلیم کے مواقع میسر آئے اور جنھوں نے جادۂ علم و آگہی پر بڑی تیزگامی کے ساتھ قدم بھی بڑھایا۔موصوفہ کے تالیفی و تصنیفی سرمایے کی مطول فہرست میں اکیس مطبوعہ اور تین غیر مطبوعہ کتابیں ہیں۔یہ علمی نگارشات وسیع علاقے اور مضامین پر محیط ہیں؛ ان میں تنقید و تجزیہ، ترجمہ اور فن ترجمہ ، اردو زبان اور اس کی اساسی لسانیات، اقبالیات، توضیحی مطالعات اور اشاریے کے علاوہ سوانح و سیرتِ پاک ﷺ قابلِ ذکر ہیں۔ان پر مستزاد موصوفہ کا خالص تخلیقی افق بھی روشن ہے؛بچوں کے لیے نظمیں اور پھر پابند اور آزاد نظموں کے مزید چار مجموعے، دو مجموعۂ غزلیات ، رباعیات سے شغف اور جہاتِ رباعیاتِ یگانہ پر ایک وقیع علمی پیش کش وغیرہ ،یہ اور ان جیسے علمی کارنامے رابعہ سرفرازکا جامع تعارف ہیں۔اس نوع کی فعالیت کی توقع بجا طور پر کسی بھی علمی ادارے کی پروردہ شخصیت سے رکھی جاسکتی ہے تاہم عملاًایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک شخص جس توانائی کا اظہار اپنے ابتدائے سفر میں کرے اسی قوت کے ساتھ بہت دیر تک اور بہت دور تک آگے قدم بڑھاتا چلا جائے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے؛موصوفہ نے علم و آگہی سے اپنے گرد و پیش جو ماحول خلق کیا ہے وہ نہایت توانائی کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کی روش ہے،جو بلاشبہ خیر طلبی ا ور فیض رسانی پر مبنی ہے۔

تخلیقی سفر میں موصوفہ کا رشتہ جس قدر نظموں سے استوار ہے اسی کے بقدر ان کی طبیعت کو غزلوں سے بھی ایک خاص مناسبت ہے۔سخن زاد اور عکس در عکس کے بعد یہ ان کا تیسرا مجموعۂ غزل ہے،جو منظر عام پر آیا چاہتا ہے۔ادب کی ایک معلمہ کی حیثیت سے وہ اس صنف کے نشیب و فراز سے کما حقّہ واقف ہیں کہ غزل ابتلا و آزمائش کی ایک منضبط تاریخ رکھتی ہے۔غزل کا بانکپن،اس کے نرم اور سبک و شیریں الفاظ،حسن و عشق کے مضامین سے لبریز اس کی داخلی و خارجی کائنات،بدلتے وقت کے ساتھ اس کے نوع بہ نوع مضامین اور زمانے کے ہمراہ قدم بہ قدم چلنے کی اس کی صلاحیت وغیرہ جہات سے موصوفہ کی واقفیت نے انھیں اس صنف لطیف کو برتنے کا ایک خاص سلیقہ عطا کیا ہے ،اس طرح کہ ان کی غزلیں عصری آگہی، روشن اور کشادہ ذہن اور لطیف حسیت کا زائدہ نظر آتی ہیں۔غزل امکان کی زمین ہے۔فن کار جس قدر کشادہ ظرف ہوگا،اس کی غزلوں میںزمانے کی روش اور اس کے شرارے کو بھرنے کی قوت اسی کے بقدر ہوگی۔ رابعہ سرفرازنے اپنے ایک غزلیہ شعر میں اپنے داخلی فکرکے دروبست میں مضمر امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ع

خبر کس کو ہو کیا ہے رابعہ کی فکر کا محور             حقیقت آشنا کب ہیں مقید سب گماں میں ہیں

 حقیقت اور گمان کے درمیان پنپنے والے خیالات کا تانابانا دراصل وہ مغز غلیظ ہے جو کسی بھی فن پارے میں تخلیق کار کا سرمایہ ہوتی ہے ۔یہ سرمایہ بلاشبہ ایک قیمی اثاثہ ہے جس کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ رابعہ کی پوری غزلیہ شاعری اسی حقیقت اور گمان کے درمیان کی کڑی ہے۔ان کی غزلیں اہل ذوق و نظر کو اسی کمیاب نکتہ کی بازیافت اور اس پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔اس سیاق میں یہ شعر دیکھیں:

حیات اپنے مفاہیم سے مرصع ہے                 تو ڈھونڈتے ہیں کہیں دکشا معانی پھر

 زندگی کا حقیقی مفہوم اور اس کے پہلو میں پوشید معانی کی تلاش رابعہ سرفراز کا مطلوبہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ زندگی کی معنویت ایک وقیع سیاق کا متقاضی ہے اور اسی توانا سیاق سے معنوی حسن وابستہ ہے ۔ گویا فنکارکوبے معنی زندگی کے عذاب کا نہ صرف علم ہے بلکہ ایسی صورت میں اسے دکشا معانی کے زیاں کا بھی اندیشہ ہے۔اس کا ذہن اقدارِ حیات پر مرکوز ہے اور وہ وسیع تر انسانی مفاد کے پیشِ نظر حیاتِ مستعار کا تحفظ چاہتا ہے۔

 رابعہ سرفراز کی غزلوں کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ اس کے پس پردہ ایک توانا ذہن کام کرتا نظر آتا ہے ۔یہ وہی ذہن ہے جس کے ڈانڈے غالب کے ذہن و فکر سے ملتا ہے اور جو قاری کو فکر و تدبرکی دہلیز پر لا کھڑا کرتا ہے۔

ہر اک نگاہ میں ہے لا شعور کا قصّہ                   نہیں ہے بات کوئی بھی یہاں شعوری پھر

ادھورے لوگ ملے رابعہ ہر اک جانب            وہی زباں پہ ہے گفتگو ادھوری پھر

عصری حسیت کے حوالے رابعہ کے یہاں بہ کثرت ملتے ہیں۔اس میں ظلم و عدوان اور ناانصافی کی نشاندہی ، بے اماں زندگی کا نوحہ، نارسائیوں سے بیر، جبر کو صبر سے شکست دینے کی للک،خود پسندی کے حصار سے باہر نکلنے کی جدوجہد وغیرہ جہتیں نمایاں ہیں۔چند اشعار دیکھیں:

جبر کا اک تسلط ٹھکانے لگا                ہورہی ہے سحر حکمراں آپ ہی

ظلم ہے آگ ہے اور ہنگام ہے            دیکھ کر رو پڑا آسماں آپ ہی

۔۔۔۔۔۔

جبر کے بوجھ سے دب چکے خواب سب            ڈھل چکے ساز میں ہو بہو آجکل

اک سراسیمگی چھا گئی ہر طرف                     شہر در شہر ہے ہائو ہو آجکل

۔۔۔۔۔۔

راکھ ہو جائے گا ظلم خود آگ میں                  جبر کو صبر سے ہم ہرا کے چلے

قاعدے ضابطے غیر کے واسطے                   ماورا آپ ہیں سب بھلا کر چلے

رابعہ سرفراز کی غزلوں میں لفظِ ’خاموشی‘ اپنے پہلو میں ایک جہاں معانی سمیٹے ہوئے ہے ۔ یہ متنوع مفاہیم پر مشتمل ایک شعری استعارہ ہے جس کا سیاق اشعار میں ازخود متعین ہوتا چلا جاتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:

رابعہ معجزے رونما ہوچکے              خامشی بن گئی ترجماں آپ ہی

۔۔۔۔۔

خاموشی ہے مری گفتگو آجکل            شور ہی شور ہے چار سو آجکل

۔۔۔۔۔

چہار سمت خموشی ہے بے زبانی ہے                یہ جو سکوت ہے اک ظلم کی نشانی ہے

خاموشی کا متذکرہ استعارہ رابعہ سے کہیں پس ہمتی کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ وہ اسی بے تکلمی میں خیر اور بدی کے درمیان بہت کچھ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں۔کہیں خموشی ان کے نزدیک ظلم کی نشانی بن کر آتی ہے،تو کہیںوہ خموشی کو تکلم اور ترجمان بنا لیتی ہیں۔ایسی صورت میں ان کا حوصلہ یقیناً دیدنی ہوتا ہے:

میں ہار مان لوں تجھ سے محاذ پر کیسے                مرے حریف تجھے کیوں یہ خوش گمانی ہے

خالص تغزل کے باب میںبھی رابعہ سرفراز کے یہاں قابل اعتنا حوالوں کی کمی نہیں۔ایسے اشعار قوس قزح کی بوقلمونی سے مملو ہیں ۔

یہ زندگی ہمیں تیرے سبب سے پیاری ہے                   تمام رات سحر کے لیے گزاری ہے

جومثلِ سنگ اسی راہ میں پڑے تھے ہم                      ہر ایک بات حریفوں پہ اب یوں بھاری ہے

یہ دریا چاہ کا ہے کس قدر گہرا                               کہاں تم جان پائوگے کناروں سے

بہت سکون میں تھا آگ کے بھڑکنے پر                       پلٹ کے دیکھ برسنے لگی گھٹائیں وہ

تمھارے دم سے ہے ہر کامیابی ہر خوشی میری                مرادامن سکوں سے روشنی سے بھر رہے ہو تم

وہ ایک رنگ مری زندگی کا حاصل ہو                       جو کائنات کے ہر زوایے پر بھاری ہے

رابعہ سرفراز حرف و صوت کی کائنات میں غزل جیسی نازک صنف کی ہم دوش ہیں،انھوں نے غزل کے مزاج کو سمجھا اور اس کی طبیعت سے خود کو ہم آہنگ کیا ہے ،وہ قابل داد ہے۔ یہ سفر غزل اور اس کے فنکار رابعہ سرفراز دونوں کے لیے نیگ شکون ہے۔

اڑان رابعہ کی فکر کی وہاں تک ہے                 وہ دیکھ دور جہاں حکمِ آسمانی ہے

اور   پر کچھ اس قدر روشن ہیں کہ غزل کے ایک ایک شعر میں وہ زمانے کی روش اور اس کے شرارے کو بھرتی چلی جاتی ہیں۔   کے اظہار کی قوت،  میں یوں بھی بڑی کشش ہے اور جب معاملہ رابعہ سرفرازجیسے ہمہ جہت فن کار کا ہو تو غزل سے   اورموصوفہ کی ذات میں غزل کا ایک توانا فنکار موجود ہے۔

تخلیقی سفر میں موصوفہ کا رشتہ جس قدر نظموں سے استوار ہے اسی کے بقدر ان کی طبیعت کو غزلوں سے بھی ایک خاص مناسبت ہے۔سخن زاد اور عکس در عکس کے بعد یہ ان کا تیسرا مجموعۂ غزل ہے۔

About admin

Check Also

ہری چند اختر کا نثری اور شعری اسلوب

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ہندستانی زبانوں کا مرکز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *