عباس ملک
کیا پاکستان اور پاکستانیوں کا مقدر یہی ہے کہ انہیں ہر طرف سے صرف لعن وطعن اور تضحیک کا ہی نشانہ بنایا جا ئے ۔مجموعی طور پر محدود چند اشخاص کی ناعاقبت اندیشی اور خود غرضی کو پاکستان اور پاکستانیوں کی شناخت کی علامت قرار دینا ہرگز بھی مناسب نہیں ہے ۔ معاشرے میں صفات کا بہاؤ ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف ہی آتا ہے ۔ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ ایسی قبیحات کی ترویج کی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی گراؤٹ کا تناسب بڑھا ہے ۔ باوجودیکہ معاشرے میں مجموعی طور پر ابھی تک خوف خدا اور اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان میں کمی نہیں ہوئی ۔عوام جو اکابرین کو کرتے دیکھتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی نقالی کریں ۔ اس طرح سے معاشرے میں اکابرین کی نقالی کرتے ہوئے کچھ قبیحات معاشرے میں عود کر آئی ہیں ۔ان کے خاتمے کی صور ت صرف اس طرح ہی ممکن ہے کہ جب اکابرین اس کو متروک کریں گے تو عوام میں بھی ان کی نقالی کے تحت ان سے اجتناب کیا جائے گا۔ سب سے پہلے اور اہم چیز جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے وہ اقربا پروری ہے ۔اس وقت اکابرین ہر طریقے سے اپنے اقربا کو نوازنے کیلئے راہیں نکال لیتے ہیں ۔اس کی امثال شعبہ ہائے زندگی کے ہر گوشے سے لی جا سکتی ہیں ۔ سفارش اختیارات کے استعمال نے معاشرے میں میرٹ کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ پانی،بجلی ،گیس ،کے کنکشن کیلئے سفارش ، بچوں کو سکول میں داخلہ کیلئے سفارش، سرکاری ہسپتال میں علاج کیلئے سفارش ، کسی دفتر میں کوئی کام ہو تو سفارش کے سہارے کے بغیر ناؤ پار نہیں لگتی ۔ٹریفک وارڈن آپ کو روکے تو آپ اس کے کان سے فون لگا دیں کہ تو وہاں بھی سفارش آپ کو اس مصیبت سے نجات دلا نے میں ممد د ہوگی ۔سرکاری نوکری کیلئے آپ کے پاس کوالیفکیشن کے ساتھ اگر پرچی اور سفارش نہیں تو بھی آپ انتہائی نا اہل ہیں۔ اچھے ادارے جن میں تنخواہ اور مراعات کے پیکیج ہیں میں نوکری کیلئے پرچی اور سفارش کے بغیر نوکری کا حصول سمندر میں سوئی کی تلا ش کے مترادف ہے ۔البتہ پرچی جتنی بھاری اور سفارش جتنی تگڑی ہو گی اتنے ہی پروٹوکول کے ساتھ نوکری مل جاتی ہے ۔مشاہدے میں یہاں تک آیا ہے کہ سفارش اور پرچی کے سہارے اسامیاں جنریٹ کر کے بھرتی کی جاتی ہے ۔پی آئی اے ، ریلوے ، سٹیل مل جیسے ادارے اسی طرح کی بھرتیوں کی وجہ سے ڈیفالٹ کر رہے ہیں۔ ہر صاحب اقتدار ،اختیار نے پرچی اور سفارش کے سہارے اپنے اہل و نااہل قرابت داروں کو ان اداروں میں اہم اسامیوں پر تعینات کر ایا خواہ وہ اس کے اہل ہیں یا نہیں۔ یہ بات بھی انتہائی کرب کا باعث ہے کہ نیم عسکری اداروں میں ایم اے پاس جوان تو کلرک ہیں لیکن عسکری اداروں کے رٹیائرڈ افراد جن کوالیفکیشن میڑک یا کچھ زیادہ ہے وہ سپریٹنڈنٹ کی پوسٹ پر بیٹھے ہیں جبکہ نہ تو انہیں مناسب کمپیوٹر استعمال کرنا آتا ہے اور نہ ہی وہ انگریزی یا اردو میں مناسب جملہ سازی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ سب کا م ان پڑھے لکھے لڑکوں سے کرا کر خود اس کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ چند رٹے رٹائے جملوں اور درخواستوں کے نمونہ جات کا علم اتنا بھاری ہے کہ ایم اے کی ڈگری اس کے سامنے مانند ہے ۔یہ اقربا پروری کی اہم ترین قسم ہمارے معاشرے کے اہم ترین اداروں اور بڑی بڑی کارپوریشینز کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے ۔حال ہی میں رینٹل پاور یونٹس کے بارے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ یہ منصوبہ جات ملکی خزانے کیلئے زہر قاتل اور عوامی مفادات سے ماورا صرف ذاتی مفادات کی نگہبانی کی امثال ہیں ۔اس میں سپریم کورٹ نے اس وقت کے وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف کو مورد الزام قرار دیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ اس کو سزا کیلئے نامزد کرے کی گی یا پھر اقربا پروری کے تحت اس کا دفاع کیا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی وفاقی وزیر داخلہ کے خلاف سزا کو معطل کر کے انہیں بری الذمہ قرار دے کر اقربا پروری کی مثال قائم کی گئی تھی ۔وزیر اعظم کے صاحبزادے عبدالقادر صاحب کے خلاف اس سے حج کرپشن کیس اقربا پروری کے تحت دبا دیا گیا ۔اس میں اس وقت کے وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کو گھسیٹا جا رہا ہے لیکن وزیر اعظم کے صاحبزادے کو اس کی آنچ بھی نہیں آئی ۔اب ان کے دوسرے صاحبزادے موسیٰ گیلانی ایک ڈرگ سکینڈل میں ملوث قرار دئیے گئے ہیں ۔ گیلانی صاحب کا ارشاد گرامی قدر اس سے پہلے اہل ذوق کی تسکین کیلئے موجود ہے جو انہیں اقربا پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر جیل ہونے پر ہوا ۔ گیلانی صاحب تو اب برملا یہ کہتے ہیں کہ وہ اقربا پروری ، کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم میں جیل جانے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔عوام کو نوازنے کی آڑ میں جمہوریت کے پاسبان جمہوریت کی پاسداری اور اخلاقیات کی حدود اور قانون کی بالادستی کے سبق کیونکر بھول جاتے ہیں ۔گیلانی صاحب اپنے قرابت داروں کو نوکریاں تقیسم کرنے کے جرم میں جیل گئے تھے لیکن الیکشن کمیشن کے قرابت داروں نے انہیں عوامی نمائیندگی کے لیے اہل قراردے دیا۔آج اس کا خمیازہ قوم ان کے ہاتھوں ، ان کے بیٹوں اور ان کی کابینہ کے ہاتھوں رسوا ہو کر بھگت رہی ہے ۔گیلانی صاحب سپیکر ہو کر تو نوکریاں قرابت داروں کو تقسیم کرنے کے جنون کو عوام کی خدمت سے تعبیر کرتے تھے ۔وزیر اعظم بن کر انہیں عوام کی بیروزگاری اور محرومیاں کیوں نظر نہیں آتیں۔ ایسے اقدامات کی ترویج و تحسین کیلئے ان کا میڈیا سیل عوامی خزانے کواشتہارات کی مد میں آڑا رہا ہے جن کا عوامی فلاح سے کوئی تعلق نہیں ۔ بی بی اور بھٹو صاحب تو زندہ ہیں لیکن عوام کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں پھر بھی حکمران خود کو خدا ترس اور جمہوریت اور عوام کے پاسبان ق
رار دینے کیلئے میڈیا پر سرمایہ ضائع کر رہے ہیں۔ میڈیا کو استعمال کرنے کیلئے مالکان کو اور ان کی تنظیموں کو چندہ کی آڑ میں کروڑوں کے عطیات کس لیے دئیے جارہے ہیں تاکہ میڈیا ان کے مخالف نہ ہو ۔ یہ اقربا پروری ہی تو ہے ۔کیا میڈیا کے کارکنوں کے ویج بورڈ کے اطلاق کیلئے حکومت اقدامات اٹھا سکتی ہے ۔ مقبو ل اور مضبوط میڈیا گروپس کو عطیات اور اشتہارات کے زریعے کنڑول کر کے کارکن صحافیوں کیلئے ویج بورڈ کے فیصلوں کا عدم اطلاق اقربا پروری اور اختیارات کے عدم استعمال کی علامت ہے ۔وزیر اعظم صاحب یہ مسلہ بھی آپ کے جلال کا منتظر ہے ۔اقربا پروری اور اکابرین کا تعلق پختہ کرنے کی بجائے متاثرین اور ضرروت مندوں کو بھی آپ کے جمال نظر کی ضرورت ہے ۔کورٹس فیصلے دیتی ہیں اورحکومتی اہلکار تذہیک سے ان کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں ۔اس سے بہتر یہ نہیں کہ محترم جج صاحبان انصاف کی کرسی کی توہین کرانے کی بجائے کولمبین ججز والی روایت کو دہرایں۔ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے نگہبان کیا ملک میں قانون و اخلاقیات اور تمام اقدار کے جنازہ اٹھنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔عوام کی نظریں عدلیہ کے ایسے فیصلوں کی منتظر ہیں جو عوام مفادات ،ملکی قوانین اوراسلامی اقدار کے دفاع کے عکاس ہوں۔ محترم چیف جسٹس آف پاکستان سے انتہائی ادب سے التماس ہے اور وہ بھی عوام کے مطالبہ پر اور عوام کی آواز کو آپ تک پہنچانے کی جسارت کرتے ہوئے کہ فیصلے محفوظ کرنے کی روایت ختم کی جائے ۔ عوام پوچھتے ہیں کہ کسی عام آدمی کا مقدمے کا فیصلہ تو کبھی محفوظ کر کے اسے وقت نہیں دیا جاتا تو پھر خواص کیلئے یہ روایت عدل کے منافی نہیں۔عوام پوچھتے ہیں کہ اگر آپ فیصلے محفوظ کرتے گئے تو پانی سر سے گذر جانے کے بعد کیا فائدہ ہوگا۔