پاکستان سانحات کی زد میں
تحریرروف عامر پپا بریار
پاکستان کو اجکل کئی گھمبیر مصائب اور سانحات نے گھیر رکھا ہے ۔کبھی ڈنکے ی چوٹ پر ڈکیٹ بنکوں کو لوٹ لیتے ہیں تو کبھی زلزلے اکھوں انسانوں کی زندگی کو ہڑپ کر لیتے ہیں تو کبھی سیلابی طوفان ایسی تباہی پھیلاتا ہے کہ منٹوں میں بستیاں ملیا میٹ بن جاتی ہیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ یہاں کسی واقعے اور سانحہ کی نہ تو میرٹ پر انکوائری و تفتیش ہوتی ہے اور نہ ہی عوام کو کسی قومی سانحے کی سچائی سے اگا ہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ قائد اعظم کی مشکوک موت سے لیکر قائد ملت کے بہیمانہ قتل تک اور جسٹس حمود الرحمن کمیشن سے لیکر کارگل کی جنگ سمیت درجنوں ایسے نمناک حوادث ایسے ہیں جنکی حقیقی رپورٹ اور صورتحال اج تک سامنے نہیں اسکی۔ ٹیگور کا جملہ ہے کہ تاریخ کا کھلواڑ کرنے واے خود ہی مذاق بن جاتے ہیں۔دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ ہزاروں مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ جس قوم نے صدق دل اور سچائی سے تاریخ کا درس سیکھ لیا تو وہ ترقی کی اوج ثریا سے مستفید ہو ئی اور ترقی کی منازل تک پہنچنا انکے جاں جھوکوں کا کام نہیں اور جن قوموں نے تاریخ کو بھلا کر سچ کا گلا گھونٹنے ی حماقت کی ۔ملزمان کو جیلوں کی بجائے ازادی کا پروانہ تھماہایا تو انکا حشر دیدہ عبرت اور مذاق بن گیا۔ دین اسلام سے دوری، لوٹ مار، کرپشن زخیرہ اندوزی، ائین کشی انصاف کی عدم فراہمی خود غرضی نفسا نفسی اور مادیت پرستی اور بے گناہوں کے خون بہانے ایسی خرافات کے کارن قوم خدائی رحمتوں سے محروم ہوجاتی ہے جسکا نتیجہ خدائی قہر کی شکل میں سامنے اتا ہے۔یوں ہمارے غموں میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ہمارے ہاں پہلے ہی رنج و لم ہر سو چھایا ہوا تھا کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں جہاز انے اپنی تباہی کے ساتھ152 مسافروں کو ئلہ بناڈالا۔ مرنے والوں نے اخری لمحات میں کیا ازعتیں برداشت کیں کوئی نہیں جانتا۔ کوئی نہیں جانتا کہ کریش کے وقت انکی سسکیاں کرب چیخ و پکار ہچکیاں، اور جسموں کے جلتے ہوئے اعضا سمیت اخری چند منٹوں میں انکی حالت زار کیسی تھی۔ابتدا میں بلیک باکس نہیں ملا پھر اعلان ہوا کہ بلیک ڈبہ مل گیا۔بلیک ڈبے میں سے کیا برامد ہوا کوئی نہیں جانتا۔خبر اگئی کہ بلیک باکس کو فرانس بھیج دیا گیا ہے مگر کچھ نہیں ہوگا۔ خیر کچھ ہوجائے لواحقین پر جو قیامت گزر گئی اسکا مداو انہیں ہوسکتا۔ پگھل جانے واے مسافرکئی داستانیں چھوڑ گئے۔ یوتھ پارلیمنٹ کے پرائم منسٹر اور پانچ نورتن وزرا انکھوں میں سہانے سپنے سجائے مارگلہ کریش کا ایندھن بن گئے۔ ایک شادی شدہ جوڑا بھی موت کی وحشت ناکی کی بھینٹ چڑھ گیا۔انکی شادی تین روز قبل ہوئی تھی اور دونوں نے عمر بھر ساتھ نبھانے کے عہد و پیمان کئے تھے،یوں دونوں عہد و پیمان کی لاج رکھ کر عدم راہی ہوئے۔ ناہید بھٹی ایرہوسٹس تھی۔ناہید بھٹی کو اسکے والد نے ڈیوٹی پر نکلنے سے پہلے انڈا ابال کر کھلایا۔ ناہید بھٹی کی والدہ ابھی تک سکتے میں ہے۔ ہمارا کلیجہ منہ کو انے لگتا جب ایر کریش میںوالدین اپنے تین بچوں ے ساتھ بھسم ہوگئے۔کریش میں ایک ہی فیملی کے سات افراد کریش ہوگئے جو کراچی میں جنازے میں شرکت کے بعد واپس گھر ارہے تھے۔ ان غمریز کہانیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو روح میں نشتر کی طرح پیوست ہوجاتا ہے۔ داتا دربار پر ظالمان کی بربریت پر دل رو رہا ہے علاوہ ازیں سانحہ بولٹن مارکیٹ کراچی دسویں محرم پر خودکش حملہ جناح ہسپتال کا بم دھماکہ لاہور پشاور پنڈی اور بلوچستان میں خود کش بمباری کے المناک سانحات اور کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کی پرسوز فتنہ گریاں بھی دلوں کو خون کے انسو رونے پر مجبور کر دیتی ہیں کرتے ہیں۔بس ہر طرف جنازے اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر طرف موت پاکستانیوں کا پیچھا کررہی ہے۔ خودکش حملے بم دھماکے فاٹا میں پراکسی وار میں مرجانے والے مسلمانوں کے واقعات کم نہیں تھے کہ دریائے سندھ نے ہیڈ تونسہ بیراج سے لیکر علی پور تک اور جیک اباد سے لیکر ڈیرہ مراد جمالی تک چاروں صوبوں اور شمالی علاقاجات میں پہلی مرتبہ ہولناک سیلاب نےپورے ملک میں ایسی تباہی مچائی کہ دو کروڑ پاکستانی سڑکوں پر بھٹک رہے ہیں۔انکا کوئی پرسان حال نہیں۔دریائے سندھ ہزاروں بستیوں اور80 لاکھ ایکڑ پر لہلہاتی فصلوں کو ہڑپ کرگیا۔چارسدہ مظفرگڑھ دادو نوشہرہ ناران اور کلام سمیت37 تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز پانیءمیں ڈوب گئے۔مستند زرائع کے مطابق1600 افراد پانی کے ریلوں میں ہمیشہ کے لئے ڈوب گئے۔ صوبہ بلوچستان میں بارش نے خوب تباہی مچائی۔جعفر اباد سبی اور ڈیرہ مراد جمالی میں سیلابی ریلے نے ناقابل بیان تباہی مچادی۔زخموں سے چور چور بلوچستان میں باران رحمت قاتل بن گئی۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان قیامت خیز لمحات میں بھی لوگوں کو عبرت نہ مل سکی۔دفاتر میں کرپشن کا کاروبار جاری و ساری ہے۔امدادی رقوم میں خرد بر د جاری ہوچکا ہے۔ چور ڈکیٹ لانچز کے زریعے عوام کو خوب لوٹ رہے ہیں۔بازاروں میں مہنگائی اسمانوں سے باتیں کررہی ہے۔۔بیوپاری حضرات ٹکے بھاو کسانوں سے جانور خرید رہے ہیں۔بازاروں میں غذائی اجناس کی قلت ہوچکی۔ لوٹ مار کرنے والہ سرکاری افسر ہویا تاجر و بیوپاری شائد یہ سمجھتا ہے کہ اس نے قبر میں نہیں جانا۔سیلاب زدہ علاقوں میں غنڈہ عناصر لوگوں کے پلاٹوں پر قبضے کررہے ہیں۔ مصیبت زدگان کا مال و متاع لوٹنے والے چوروں ڈکیٹوں اور افسر شاہی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی لاٹھی بے اواز ہے۔ لہذا ساروں کو اللہ کے غضب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ لوٹ مار کرنے والوں کو نادیدہ طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جبکہ کمزور اور اصل حقدار اس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب تخت گرائے جا] ]>