پاکستان میں سیلاب سے تباہی اور ہندوستانی امداد
پاکستان ان دنوں اپنی تاریخ کی سب سے بدترین تباہی کے دور سے گزر رہا ہے۔ گذشتہ 80 سالوں کے دوران آنے والا پاکستان کا یہ سب سے تباہ کن سیلاب ہے جس نے 2 کروڑ افراد کو متاثر کیا ہے۔ تقریباً 1600 افراد اب تک اس سیلاب کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہزاروں لاپتہ ہیں۔ لاکھوں گھر تباہ ہو چکے ہیں اور بہت سے گاؤں اور شہر اب بھی پانی سے لبالب بھرے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے راحت رسانی کے کاموں میں مصروف افراد کو متاثرین تک پہنچنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ جو لوگ زندہ بچے ہوئے ہیں، ان کے پاس نہ تو کھانے کے لیے کچھ بچا ہے اور نہ پینے کا صاف پانی انھیں دستیاب ہے۔ ہر طرف قیامت صغریٰ کا عالم ہے۔ پوری انسانیت کراہ رہی ہے۔ اس سیلاب نے خاص کر پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں تباہی مچائی ہے۔ انتہائی تشویش اور فکر کی بات یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے آئندہ ابھی اور بارش اور اس کے نتیجہ میں مزید سیلاب کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ اگر یہ پیش گوئی درست ثابت ہوتی ہے تو پھر سیلاب کی تباہ کاریوں کا حقیقی اندازہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے حال ہی میں پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور ان علاقوں میں راحت رسانی اور متاثرین کی بازآبادکاری کے لیے امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ تباہی کی اس گھڑی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ساری دنیا پاکستان کی مدد کے لیے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سامنے آ جاتی، جیسا کہ ماضی میں اکثر قدرتی آفات کے مواقع پر دیکھا گیا ہے۔ لیکن اس دفعہ دنیا کے بیشتر ممالک پاکستان کو مالی امداد بھیجنے سے اس لیے کترا رہے ہیں کیوں کہ انھیں خدشہ ہے کہ راحت کی یہ رقم پاکستان میں موجود دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں لگ سکتی ہے۔ لیکن وہیں دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے پڑوسی، ہندوستان نے سیلاب کے متاثرین کے تئیں اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف پچاس لاکھ امریکی ڈالر کی مالی امداد کی پیش کش کی ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر مزید امداد بھیجنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ خود پہلے تو وزیر برائے امورِ خارجہ ایس ایم کرشنا نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کو فون کرکے سیلاب میں ہلاک ہونے والے افراد کے تئیں اظہار تعزیت کیا اور ہندوستان کی طرف سے مالی امداد کی پیش کش کی، اس کے بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بھی اپنے پاکستانی ہم منصب سید یوسف رضا گیلانی کو فون کرکے رنج و ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہندوستان ہر قسم کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ ایک ہفتہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان کی طرف سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا ہے کہ آیا اسے یہ مالی مدد قبول ہے یا نہیں۔ اسے پاکستان کی بدقسمتی ہی تصور کیا جائے گا کہ اس کا پڑوسی اس کی مدد کے لیے تیار ہے لیکن وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔
پاکستان شاید ہندوستان کی اس مدد کو قبول کرنے میں اس لیے پس و پیش کر رہا ہے کیوں کہ قبول کرنے کی صورت میں اسے ہندوستان کو ان تمام مقامات کی نشاندہی اور تفصیلات پیش کرنی پڑیں گی جن کے ذریعے راحت رسانی کے یہ سامان سیلاب کے متاثرین تک پہنچائے جائےں گے۔ لیکن ہندوستان نے پاکستان کی اس تشویش کا بھی لحاظ رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ہندوستان یہ امداد اقوام متحدہ کے توسط سے پاکستان بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ اب بھلا اس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ہم سبھی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات خاص کر 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے بعد سے کشیدہ ہیں اور اعتماد بحالی کی متعدد کوششوں کے باوجود کوئی خاص تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی ہے ، لیکن ساتھ ہی پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کے قدرتی آفات کے موقع پر ظاہر کیے جانے والے انسانی ہمدردی کے جذبات کے ذریعہ ہی دلوں کی کدورتیں دور ہوتی ہیں اور نفرتوں کو ختم کرتے ہوئے انسانیت اور دوستی کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس امداد کی پیش کش کو دشمن یا مخالف ملک کی پیش کش کی بجائے انسانی بنیادوں پر ایک ہمدرد پڑوسی کی امداد کے طور پر دیکھتے ہوئے اسے قبول کیا جانا چاہیے۔ پریشانی کے اس عالم میں لاکھوں افراد کو ان امداد سے راحت مل سکتی ہے۔
ہمارا یہ ایمان ہے کہ زمین پر جب ظلم و زیادتی کا ماحول ہوگا اور اللہ کی نافرمانیاں بڑھیں گی تو اوپر والا نہ صرف ظالموں پر قدرتی آفات بھیجے گا بلکہ انھیں مختلف قسم کی مشکلات میں بھی مبتلا کر دے گا۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ سیلاب سے پاکستان کے وہی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں پر دہشت گردوں کی کارروائیاں اپنے عروج پر ہیں یا جن علاقوں کو عسکریت پسندوں نے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا رکھا ہے۔ کیا یہ قدرتی آفت اُن کے لیے اوپر والے کی طرف سے واضح پیغام نہیں ہے کہ وہ جس اسلام کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دہشت گردی کے جس راستے کی تبلیغ کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ بے قصور مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرنا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسلام میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو اب خدائے عز و جل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور تشدد اور قتل و غارت گری سے توبہ کر لینی چاہیے۔
جہاں تک پریشانی کی اس گھڑی میں دنیا کے ممالک کا پاکستان کی مدد کے لیے سامنے نہ آنے کا تعلق ہے تو پاکستان کو خود یہ محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر اس نے اپنے ملک کی شبیہ ایسی کیوں بنا لی ہے کہ لفظ ’پاکستان‘ سنتے ہی ’دہشت گردی‘ کا لفظ کانوں میں گونجنے لگتا ہے۔ کب تک پاکستانی حکمراں دنیا کے سامنے یہ صفائی پیش کرتے رہیں گے کہ دہشت گردی کے سب سے بڑے شکار وہی ہیں۔ صرف یہی کہہ دینے سے تو کام نہیں چلے گا۔ عملی طور پر دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ واقعی پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آج کل امریکہ کے دورے پر ہیں اور وہاں سے بین الاقوامی برادری سے اپیل کررہے ہیں وہ تباہی کی اس گھڑی میں پاکستان کی مدد کے لیے آگے آئیں۔ انھوں نے دنیا کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی ہے کہ امدادی رقم کسی بھی طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں نہیں لگنے دی جائے گی۔ انھوں نے امداد کی پیش کش کے لیے ہندوستان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستان کو سیلاب سے جلد چھٹکارہ حاصل ہو اور وہاں زندگی کی رونق ایک بار پھر لوٹے۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ پاکستان تمام نفرتوں اور کدورتوں کو بھلا کر ہندوستانی امداد کو قبول کرے گا اور اپنے ملک کے پریشان حال لوگوں کو راحت پہنچانے کی پوری کوشش کرے گا۔