Home / Socio-political / کابل میں ہندستانی سفارتخانہ ایک بار پھر دہشت کے نشانے پر

کابل میں ہندستانی سفارتخانہ ایک بار پھر دہشت کے نشانے پر

            ۸ اکتوبر کی صبح  کابل میں واقع ہندستانی سفارتخانے پر ایک بار پھر دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے ۔ یہ حملہ ٹھیک ایک سال ایک مہنیے بعد دوبارہ ہواہے ۔ اس سے قبل 7 اکتوبر 2008  کو دہشت گردوں نے اسی سفارتخانے پر سخت حملہ کیا تھا جس میں سفارتخانے کے دروازے سے بارود بھری گاڑی کو ٹکرا دیا گیا جوبراہ راست حملہ تھا۔اس خود کش حملے  میں4 ہندستانی سمیت 42 افراد  ہلاک  اور 150 افراد شدیدطور پر زخمی ہوئے ہیں ۔اس دفعہ بھی اسی طرح کی ناپاک کوشش کی گئی۔یہ حملہ بھی اسی نوعیت کا ہے یہ شکر ہے کہ اس دفعہ اتنا نقصان نہیں ہو پایا جیسا کہ ان دہشت گرودں کا منصوبہ تھا۔اس حملے میں 15 افراد ہلاک اور 4ہندستانی سیکورٹی اہلکاروں سمیت 90 افراد زخمی ہو گئے ۔ سفارت خانے کی بڑی دیوار گر گئی ، قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا اور زخمیوں میں 20 افراد کی حالت تشویشناک ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے ۔خود کش حملے میں اقوام متحدہ کی گاڑیوں سمیت درجن سے زائد گاڑیاں تباہ ہو گئی ۔ تفصیلات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل شہر کے مرکز جہاں متعدد غیر ملکی سفارت خانے اور وزارت داخلہ کا دفتر واقع ہے ایک لینڈ کروز گاڑی میں سوار شخص نے خود کش حملہ کیا۔ خود کش حملہ افغانستان کے وقت کے مطابق 8 بجکر 30 منٹ کے قریب کیاگیا ۔ افغانستان وزارت داخلہ کے ترجمان زمری بشری نے میڈیا کو بتایا کہ زوردار خود کش بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی اکثریت سویلین لوگوں کی ہے۔ ا  س حملے کا اب  تک کسی نے واضح طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ایک ویب سائٹ پر طالبان کے ذمہ داری قبول کرنے کی خبر شائع ہوئی ہے ۔ لیکن حملہ جس نے بھی کیا ہو یہ بات تو واضح ہے کہ  یہ وہ منفی طاقتیں ہیں جو کسی بھی طرح سے افغانستان میں  ہندستان کے تعمیراتی کام کو نہیں پسند کرتے اور اسے ہندستان کی مداخلت سمجھتے ہیں ۔گذشتہ حملے میں واضح طور پر پاکستانی ہاتھ ہونے کا ثبوت ملا تھا ۔ اس لیے یہ سمجھا جا رہا ہےکہ ہے کہ اس میں بھی انھیں منفی قوتوں کی مدد شامل رہی ہوگی۔ افغان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ حملہ سرحد پار تیار کیے گئے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ ایک سال قبل کے حملے میں بھی افغان صدر حامد کرزئی کا ایسا ہی بیان تھا انھوں  نے ہندستانی سفارتخانے پرخودکش کاربم حملے کی مذمت کرتے ہوئے  کہا تھا کہ حملہ بھارت اور افغانستان کے دشمنوں نے کیا ہے اوراسےبھارت اور افغانستان کے دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔تاہم اس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا۔

            اس حملے کو اگر انسانی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا یہ کسی بھی طور  درست نہیں ہے ۔ جو حملہ کرنے والے ہیں وہ بھی یہیں کے ہیں اور جو مارے جانے والے ہیں وہ بھی یہیں کے ہیں ، لیکن ان کے ذہنوں میں ایسا جنون ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے باشندوں پر رحم نہیں کرتے ۔کیونکہ اس حملے میں زیادہ تر ہلاک ہونے والوں کی تعداد خود اس ملک کے باشندوں کی ہے۔وہ اپنے ملک کے ان لوگوں کو بھی ناپسند کرتے ہیں جو کسی بھی طرح ہندستان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر افغانستان کی صورت حال پر غور کریں کہ وہاں طبی سہولیات کیسی ہیں؟ تو یہ جان کر اور بھی حیرت ہوگی کہ وہاں زخمی ہونے والے بھی کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے سے کم بڑی مصیبت میں نہیں ہوتے کیونکہ دیگر سہولیات کی طرح طبی سہولیات بھی بہت کم ہیں ، غیر ملکی اسپتالو ں میں تو کسی حد تک مناسب انتطامات ہیں ۔ لیکن جہاں زخمی ہونے والوں کی تعداد اس قدر ہو کہ ہر روز دس بیس لوگ اسپتال پہنچ رہے ہوں ، وہاں زخمی ہونا بھی بڑی مصیبت ہی ہے کیونکہ علاج میں جو دشواری ہے وہ وہاں کے باشندے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ان حالات کے باوجود بھی شر پسند عناصر  اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں میں اپنے ہی لوگوں کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔

کابل میں ہندستانی سفارتخانے پر جو حملہ ہوا ہے اس کے پیچھے بھی کئی اسباب ہیں ۔ ایک تو یہ ہندستانیوں پر کوئی نیا حملہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی  حملے ہو چکے ہیں اور طالبان کی جانب سے یہ باور بھی کرا یا جاچکاہے کہ ہندستان اگر افغانستان میں اپنی کوششوں کو بند نہیں کرتا تو ایسی کاروائیاں جاری رہیں گی۔سوال یہ ہے کہ اس منفی فکر کو کس طرح ختم کیا جائے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب افغانستان پر اتحادی افواج نے حملہ کیا تو اس میں کسی بھی طرح سے ہندستان کی شمولیت نہیں تھی ۔ حملے  کے بعد جب اس ملک کی تعمیر نو کی ضرو رت پیش آئی تو ہندستان نے پہل کی ہے۔کیونکہ افغان اور ہند تعلقات دیرینہ ہیں اور اسی ناطے ہندستان اس ملک کے  فلاحی کاموں میں حصہ لے رہاہے جسے موجودہ افغانی حکومت سمیت اکثر افغانی باشندے بھی سراہتے ہیں ۔لیکن جو منفی طاقتیں ہیں انہیں یہ کسی بھی طرح گوارا نہیں ہے کہ ہندستان کسی بھی صورت میں افغانستان میں  موجودرہے اسی لیے اکثر ہندستانیوں کو زق پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ کبھی انجیئر کو اغوا کیا جاتا ہے تو کبھی کسی اور عملے کو ، یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور ان تمام معاملات میں طالبانی عناصر کا ہاتھ ہونے کے ثبوت بھی ملے ہیں ۔ امریکہ بھی اس کا اعتراف کرتا رہا ہے ۔مگر کیا ان حملوں سے ہندستان کو نقصان زیادہ ہے یا خود افغانستان کا ، یہ بات حملہ آوروں کے سمجھ میں اب تک نہیں آئی ہے۔ کیونکہ اس سے مجموعی طور پر اسی ملک کا نقصان ہے ۔

            اس حادثے سے یہی نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ اس کے پیچھے صرف دہشت پھیلانا مقصود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ہندستان کی تعمیراتی پہل کو نقصان اور سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن اس سے ہندستان پیچھے نہیں ہٹ سکتا کیونکہ چند شر پسندوں کی تخریبی کاروائیاں  اُس ملک اور عوام کی امیدوں پر پانی نہیں پھیر سکتا۔اس سنگین حادثے نے پھر ایک دفعہ  پوری دنیا کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائی ہے۔اور  ہر جانب سے سخت الفاظ میں اس کی تردید کی جارہی  ہے۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *