پاکستان پر امریکی شکنجے کی نئی کوشش
دو روز قبل امریکی سینیٹرز کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر آیا ۔ اس دورے کا مقصد بظاہر تو یہ تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنا یا جائے اور ڈرون حملے سبب پاکستان کی عوام کی بے چینی اور سیاسی انتشار کو کم کیا جائے ۔لیکن اس دورے میں وہ نہیں ہوا جو پاکستان کی موجودہ حکومت چاہتی تھی یا وہ بھی نہیں ہوا جس کے سبب سیاسی پارٹیوں میں اختلافات موجود تھے ۔ البتہ اس دورے میں جو بات نکل کر سامنے آئی وہ یہ تھی ہزار اختلافات کے باوجود امریکہ نے وہی کیا اور وہی کہا جو اس کا منشا ہے ۔ اس دورے میں جو چونکانے والی بات تھی وہ یہ کہ امریکہ نے پاکستان کےوزیر اعظم اور صدر کی بات سننے کے بعد بعداپنی موجودہ پالیسی میں کوئی نرمی دکھانے کےبجائے صرف اپنی تشویش کا اظہار کیا اور ان کے کسی مطالبے کا بھی ان کی پریس کانفرنس میں ذکر نہیں آیا۔جبکہ پاکستانی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے امریکا پر واضح کیا ہے کہ پاکستان ڈرون حملوں سے متاثر ہو رہا ہے، حملے بند کر کے ٹیکنالوجی پاکستان کو فراہم کی جائے۔انھوں نے یہ مطالبہ پاکستان کے دورے پر آئے سینیٹرز کے سامنے رکھا۔ملاقات میں خطے کی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے دو طرفہ، علاقائی اور عالمی امورپر تبادلہ خیال کیا گیا۔ذرائع کے مطابق اس موقع وزیر اعظم نے کہا کہ ڈرون حملوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان پایا جانے والا اتفاق رائے متاثر ہو رہا ہے۔ اس لئے فوری طور پر ڈرون حملے بند کئے جائیں اور پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی فراہم کی جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا پینتیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی ملک ہے۔ اس لئے اتحادی ممالک پاکستان کی مدد کریں۔ اس کے علاوہ صدر آصف زرداری نے بھی سیاسی دباؤ اور عوامی بے چینی کو دیکھتے ہوئے کئی بار یہ کہا تھا کہ ڈرون حملے کے سبب جو بے قصور افراد مارے جارہے ہیں اس لیے کوئی منصوبہ طے کیا جائے گا اور ڈرون حملوں کا پاکستانی عوام کے لیے قہر نہیں بننے دیا جائے گا۔ لیکن یہ تمام بیانات محض بیانات ہی بن کر رہ گئے ۔ شاید حالات کی نزاکت کو امریکہ نے بھانپ لیا تھا اسی لیے ایک وفد روانہ کر کے اپنے اثر ورسوخ کو پاکستان پر مزید باور کرانے میں کامیاب بھی ہوا۔ پریس کانفرنس میں جو بات کہی اسے ملاحظہ فرمائیں۔ تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ کس طرح پاکستان امریکہ کے ہاتھوں مجبور ہو گیا ہے ۔’’امریکی ارکان سینٹ نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں یا امریکی سفارت کاروں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے ۔ ڈرون حملے ان چند ہتھیاروں میں سے ایک ہیں جنہیں دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جانا چاہئے‘ مشکل اقتصادی حالات کے باوجود امریکہ نے پاکستان کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد کی منظوری دی‘ کیری لوگر بل میں شرائط امریکی سینیٹ کمیٹی کے اطمینان کے لئے رکھی گئی ہیں۔ایسی ہی بعض شرائط امریکی فوج کے لئے بھی ہیں‘پاکستان اور افغانستان میں سرگرم طالبان کے درمیان کوئی فرق نہیں یہ امریکی ‘ پاکستانی اور افغان عوام کے لئے خطرہ ہیں دہشت گردوں کے حملوں سے امریکی شہریوں کو محفوظ رکھنا ضروری ہے ‘دہشت گرد جہاں بھی ہوں گے ان کا پیچھا کریں گے‘پاکستان اور امریکہ کو انتہا پسند قوتوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہئے‘ پاکستان میں کامیابی حاصل ہونے تک افغانستان میں کامیابی ممکن نہیں۔’’ان خیالات کا اظہار پاکستان کے دورے پر آئے امریکی ارکان سینٹ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ امریکی سینیٹر جان مکین نے مزید یہ کہاکہ ‘‘پاکستان اور امریکہ کے درمیان تمام معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہے کیونکہ دوست تمام معاملات پر متفق نہیں رہا کرتے۔ انہوں نے کہاکہ ڈرون حملوں کا معاملہ صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی زیرغور آیا ہے۔ اور اس معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے تاہم انہوں نے کہاکہ ہمارے حکومت کا مؤقف ہے کہ ڈرون حملے ان چند ہتھیاروں میں سے ایک ہیں جنہیں دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ڈرون حملوں کے حوالہ سے مختلف آراء موجود ہیں لیکن اس حقیقی خطرے کو سمجھنا ضروری ہے جو پاکستان کی حکومت عوام‘ افغانستان اور امریکہ کو لاحق ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ دہشت گرد جہاں بھی ہوں ان کا پیچھا کیاجائے۔ ’’ سینیٹر جان مکین نے کہاکہ یہ معاملہ پاکستانی قیادت کے ساتھ زیرغور لایا جائے گا اور اس حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بے گناہ شخص زخمی بھی نہ ہو۔انہوں نے کہاکہ ڈرون حملوں سے متعلق فیصلہ کئے جانے کے حوالے سے بہت زیادہ پیشرفت ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ڈرون حملوں پر اختلاف رائے کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پوری کوشش کریں گے کہ پاکستان‘ امریکہ‘ افغانستان اور دیگر ممالک کی آزاد حیثیت کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستانی حکومت کے ساتھ شراکت داری کے عمل میں کامیابی حاصل کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو اجازت ملنے پر افغانستان جا کر امریکیوں کو قتل کریں گے اور وہاں کی حکومت کو تباہ کردیں گے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان کو امریکہ اور دوسرے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لئے بیس کے طور پر استعمال کیاجا رہا ہے۔
پاکستان کی جمہوری حکومت اور امریکہ کے درمیان جس طرح کے تعلقات حالیہ دنوں میں قائم ہیں ماضی میں نہیں رہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرنا چاہتے ہیں جبکہ پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی عوام کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے امریکہ اتنا سنجیدہ پہلے کبھی نہیں رہا جتنا آج ہے۔ امریکی ارکان سینیٹ نے کہاکہ امریکی عوام پاکستانی حکومت اور عوام سے قریبی تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مشترکہ اقدار‘ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بنیاد پر قائم ہیں۔۔ پریس کانفرنس کے دوران امریکی ارکان سینیٹ نے کہاکہ امریکہ اور پاکستان دونوں دہشت گردی کا شکار ہیں اور ہم دونوں کو ساتھ کھڑے ہونا چاہئے اور مل کر انتہا پسند قوتوں پر غلبہ حاصل کرناچاہئے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے۔ امریکی سینیٹرز نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہاکہ وہ پاکستانی فوج کے عمدہ اقدامات پر شکرگزار ہیں۔
اس تفصیل کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکی وفد کے ارکان نے پاکستان کی شکایت سننے کے بجائے خود ان پر اپنے شرائط کو لادنے کی کوشش کی ۔ہر اعتبار سے پاکستان پر یہ بوار کر ادیا کہ پاکستان نہ صرف خطے کے لیے خطرہ بنا ہوا بلکہ امریکہ کے ساتھ پوری دنیا کے لیے و ہ خطرہ بنتا جا رہا ہے ۔ اس لیے وہ تمام کاروائی ہوگی جو امریکہ مناسب سمجھتا ہے ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ عراق کے وقت بھی امریکہ نے یہی بات دنیا پر واضح کرنے میں کامیاب ہوا تھا کہ عراق دنیا کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے اور اب وہی خطر ے کے بادل پاکستا ن پر بھی منڈالانے لگا ہے ۔