پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
پاکستان کا سفر
(فیصل آباد اور پشاور)
ہندستان اور پاکستان کی سر حدیں ایک دورسے سے ملتی ہیں ، دونوں پڑوسی ملک ہیں ، دوری کے اعتبار سے بہت نزدیک ہے۔ لیکن کئی کے اعتبار سے بہت دور ہے اسی لیے لگتا ہے کہ جیسے یہ خوابوں کا ملک ہو ۔ میں نے اس ملک کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا کہ یہ کوئی غیر ملک ہے بلکہ ہمیشہ یہی جانا کہ یہ ہمارے ملک کا ہی ایک حصہ ہے جو اب ہم سے الگ ہو گیا ہے۔لیکن یہ سرزمین دو سرحدوں میں بٹ جانے کے بعد بھی ایک دوسرے سے الگ نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ ان دو نوںممالک کے درمیان ہزاروں برس کے جذباتی ، ثقافتی ، تہذیبی اور اقتصادی روابط ہیں۔ اسی لیے ہزار کدورتوں کے بعد بھی ان رشتوں کو نہ تو ختم کیا جاسکا ہے اور نہ ختم کیا جاسکتا ہے ۔اب بھی پاکستان اور ہندستان کے لوگ ناہموار سفارتی تعلقات کے باوجود ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور کتنے ہی لوگ ملنے کی آرزو لیے ہوئے جی رہے ہیں ۔ اب تک مجھے کوئی ایسا پاکستانی نہیں ملا جو ہندستان آنے کی تمنا نہ رکھتا ہو ۔ یا کوئی ایسا ہندستانی نہیں ملا جو پاکستان جانے کی خواہش نہ رکھتا ہو ۔دنیا میں یہی دو ممالک ایسے ہیں جو فطری اعتبار سے ایک دوسرے سے قریب تر ہیں اور سیاسی روابط کے اعتبار سے بہت دور۔شاید دنیا میں یہ ایسے ممالک ہیں جہاں کا ویزا حاصل کرنا سب سے مشکل ہے اور اگر مل بھی گیا تو مخصوص شہر اور مخصوص مقامات کے لیے ۔ اس پر طرہ یہ کہ آپ جہاں جہاں جائیں پولیس تھانے میں رپورٹ کرائیں ۔یہ سلوک دونوں طرف سے ہوتا ہے لیکن انہی ممالک میں اگر ہندستانی اور پاکستانی کے علاوہ کوئی غیر ملک کا شہری آتا ہے تو نہ اسے رپورٹ کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور نہ کسی خاص مقام یاشہر کی پابندی اس پر عائد ہوتی۔جس ملک کے باشندے ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ان پر اتنی پابندیاں اور جن کا کوئی واسطہ نہیں وہ پاکستان یا ہندستان کی گلی گلی کی خاک چھان سکتا ہے۔جو سچا ہندستانی یا پاکستانی ہے وہ سفارتی جواز کے ساتھ اپنے پڑوسی ملک میں جا کر کوئی غلط کام نہیں کر سکتا ، اور غلط کام کرنے والے سرحد پر ہزار چوکسی برتنے کے بعد بھی دراندازی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔اس لیے دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ ان ناروا اصولوں اور ہتک آمیز سلوک سے اپنے اپنے شہریوں کو بخش دیں ۔کیونکہ جس قدر آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوگا اسی قدر غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا اور اسی قدر دونوں ممالک قریب تر آئیں گے ۔اگر دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کی تلخیاں ختم ہوجائیں تو ایشیائی ممالک میں ان کا مقام کچھ اور ہوگا ۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلد ایسے دن دیکھائے ۔
فیصل آباد کا سفر :
اگست 2006 میں پاکستان کا یہ میرا پہلا سفر تھا ۔ پاکستان دیکھنے اوراس سرزمین پر اپنی مشترکہ تہذیب کے نقوش کے دیدار کا بہت دنوں سے اشتیاق تھا۔ اللہ سے بہت دعائیں کی تھیں کہ خدا کبھی اس ملک کا سفر نصیب کرے ۔ سو اللہ نے میری سن لی ۔ ایک دن میرے محسن پروفیسر عبد الحق صدر شعبہٴ اردو دہلی یونیورسٹی نے فون پر مجھ سے دریافت کیا کہ کیا آ پ ایک سیمنار کے لیے پاکستان جانا پسند کریں گے ؟ میں نے فوراً لبیک کہا کیونکہ ہمارے دل کی مراد پوری ہونے والی تھی۔ جی سی یونیورسٹی ، فیصل آباد سے محترمہ صباحت قمر کا دعوت نامہ بذریعہ میل آگیا ۔عنوان بہت عمدہ تھا ” اکیسویں صدی میں اردو تحقیق و تنقید‘‘ ۔ میں نے اپنی رضا مندی کے ساتھ شکریہ بھی کہا اور جلد ہی اپنا پیپر ان کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ بالآخر 28 اگست کو وہ دن آہی گیا ۔ ہم پروفیسر عبد الحق صاحب کی سر براہی میں پاکستا ن کے لیے روانہ ہوئے ۔دہلی سے ہماری فلائٹ شام چار بجے کی تھی مگر اتفاق سے اس دن ہندستان اور پاکستان میں طوفانی بارش ہورہی تھی اس سبب سے ہماری فلائٹ چار گھنٹے تاخیر سے دہلی پہنچی اور ہم پانچ گھنٹے تاخیر سے لاہور پہنچے۔تاخیر کے سبب ہمارے لیے لاہور ائیر پورٹ پر منتظر صاحبان کو کافی انتظار کرنا پڑا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس سفر میں میرا ایک بھائی مجھے ملنے والا ہے ۔لاہور ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی ڈاکٹر جمیل اصغر تپاک سے اور انتہائی خاکساری سے ملے ۔ پرو فیسر عبد الحق سے ان کی بارہا کی ملاقات تھی ۔ انھوں نے میرا اور پروفیسر ابن کنول کا تعارف کرایا۔ ہم لوگ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ان سے کہیں کہ آ پ کو انتظار کی زحمت ہوئی ۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے انھوں نے معذرت پیش کی کہ آپ لوگوں کو پریشانی اٹھانی پڑی۔ باہر ہوا میں خنکی بھی تھی اس لیے جمیل صاحب جلدی سے ہمیں گاڑی کے طرف لے گئے ۔ انتہائی آرام دہ کار میں ہم سوار ہوئے ۔ میں بہت خوش تھا اور ہر چیز کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا ۔ جو چیز مجھے سب سے زیادہ اچھی لگی کہ ہر شخص ایک دوسرے کو سلام ہی کر رہے تھے ۔ ہم ہندستان میں سامنے والے کو دیکھ کر یا تو سلام کرتے ہیں یا آداب پیش کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کی طرح وہاں سب مسلمان نہیں ہیں ۔ طے یہ تھا کہ ہمیں پہلے لاہور میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے گھر جانا ہے ۔ ان سے ملاقات اور ناشتے کے بعد فیصل آباد کے لیے نکلنا ہے ۔مگر بہت تاخیر ہونے کی وجہ سے ان سے معذرت کر لی گئی اور اگلے دن فیصل آباد میں ملاقات ہونا طے ہوا۔
ہماری کار بلا تاخیرلاہور سے فیصل آباد کے لیے روانہ ہوئی اور کچھ ہی دیر میں ہم موٹر وے پر آگئے ۔ موٹر وے پر سفر کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا ۔ موسم بھی کافی سہانا تھا ۔ میرے برابر جمیل صاحب بیٹھے تھے وہ اتنی محبت سے باتیں کرنے لگے کہ بس ہم باتوں میں ہی لگے رہے اور سفر کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔ لیکن یہ انداز ضرور ہوا کہ پاکستان کے لوگ بڑےپُر خلوص اور مہمان نواز ہوتے ہیں ۔ رات گیارہ بجے ہم گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ وہاں منتظمین ہمارے مننتظر تھے ۔سب سے پہلے ڈاکٹر رابعہ سرفراز نے ہمارا استقبال کیا ۔ اس کے بعد ڈاکٹر ریاض مجید اور ڈاکٹر محمد عقیل صاحبان سے مل کر حیرت ہوئی کہ ادب میں اتنا اونچا مقام رکھنے والی شخصیات اتنی محبت اور خاکساری سے ملیں گی ؟ اس کی توقع نہیں تھی۔ انھوں نے ہمارے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایا تھا ۔ اس لیے ہم ایک ساتھ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے ۔پُر تکلف کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں آرام کے لیے چلے گئے ۔ ہندستان سے روانہ ہوتے وقت طرح طرح کے خدشات تھے اور گھر والے بھی متفکر ، کیونکہ دنوں ملکوں کے حالات ہی ایسے نشیب و فراز سے گزرتے رہتے ہیں ۔ لیکن مجھے ان احباب سے مل کر ساری تشویش دور ہوگئی ۔ تشویش کی ایک وجہ ی بھی تھی کہ میں مسلم ممالک کے حالات پر کالم لکھتا رہا ہوں ۔ کئی کالم میں پاکستانی سیاست کو نشانہ بھی بنایا تھا اس لیے اندر اندر ہی ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں کوئی مجھ سے کچھ پوچھ نہ لے۔ کئی ایسی خبریں بھی پڑھی تھیں کہ پاکستان میں کئی ہندستانی صحافیوں کے کمروں میں رات کو ریڈ ہوئی اور ان سے تفتیش بھی ہوئی ۔ ہندستان میں بھی ایسا ہوا ہے ۔ اس لیے میرا ڈرنا فطری تھا۔ رات کو ڈاکٹر جمیل میرے ساتھ ہی میرے کمرے میں رکے تو سکون ملا ۔ صبح ناشتے کے بعد ہم کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ پاکستانی اردو ادب کی تمام مشہور شخصیات سے ملنے کا شرف ملا ۔
پہلے ہی دن میرا پیپر تھا جس کا عنوان تھا ’’ سائبر اسپیس اور اردو کی تدریس ‘‘ بہت سے لوگوں کو یہ عنوان عجیب لگا ۔( کیونکہ اس وقت ڈیجٹل میڈیاا ور سوشل میڈیا کا رواج بہت کم تھا ۔ اردو یونی کوڈ کا رواج تقریباً نہیں کے برابر تھا ۔)اس عنوان کے تحت میں نے آن لائن اردو تدریس کے امکانات اور ٹکنالوجی میں اردو کے استعمال پر بات کی تھی۔( بعد میں اسی موضوع پر میری کتاب’’ جدید ٹکنالوجی : وسائل اور امکانات ‘‘ بھی منظر عام پر آئی )میرے علاو ہ دیگر تمام مقالات عہد حاضر کے تنقیدی اورتحقیقی رویے پر تھے جو یقیناً بیش قیمت مقالے تھے ۔ بعد میں یہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوگئی ۔
پہلے سیشن میں جب چائے کا وقفہ ہو اتو داکٹر جمیل نے کہا کہ کیوں نا ہم کچھ دیر کے لیے کہیں باہر چلیں ۔ بات یہ تھی کہ پاکستان دیکھنا ہی میرا مقصد تھا سو میں نے بغیر کسی تامل کے ہاں میں ہاں ملا دی اور کسی مصلحت کو نہیں دیکھا اور نہ ہندستانی ہونے کے ناطے کسی پابندی کا احساس رہا۔ ہم نے چائے پی اور موٹر سائیکل پر جمیل صاحب کے ساتھ ان کے گاؤں لیے نکل پڑے ۔ ان کا گاؤں بمشکل تمام دس یا پندرہ کیلو میٹر کی دوری پر تھا ۔ وہ پہلے اپنے گھر لے گئے جہاں ان کے والدین اور بھابھی سے ملاقات ہوئی ۔ کس قدر جوش و ولولے کے ساتھ وہ ملے اور کتنا والہانہ استقبال کیایہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔پیار و محبت اور پُر خلوص ضیافت کے بعد جمیل صاحب ایک ٹیلر کے پاس لے گئے اور پوچھا کہ آ پ کو پاکستانی کرتا پائجامہ کیسالگتا ہے ؟ میں نے اشتیاق سے اثبات میں سر ہلایا تو انھوں نے دو کرتے پائجامے کے کپڑے پسند کرائے اور ٹیلر کو جلد تیار کرنے کی ہدایت کر دی ۔پاکستان لوٹنے سے پہلے یہ سلے سلائے کپڑے تحفے میں مجھے پیش کیا ۔گاؤں جاتے وقت کسی اور راستے سے گئے واپسی کسی ا ور راستے ہوئی تاکہ پاکستان کے دیہی علاقوں کو دیکھا جاسکے ۔ لہلاتے کھیت اور باغات اور سر سبز زمین بہت دیدہ زیب تھے ۔ ہم شاید دو گھنٹے میں واپس آگئے تھے لیکن جونہی یونیورسٹی کے گیٹ سے داخل ہوئے صباحت قمر حیران و پریشان تقریباً دوڑتی ہوئی آئیں ا ور پوچھا کہاں غائب تھے ؟ ہماری حالت تو خراب ہورہی تھی ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح میرےجانے سے کہرام مچ جائے گا ۔در اصل پولیس اور خفیہ محکمے کے افسران کی تما م ہندستانیوں پر گہری نظر تھی ۔ میری عدم موجودگی ان کے لیے باعث تشویش تھی اسی لیے منتظمین کو بار بار پوچھ رہے تھے ۔ خیر مجھے تو انھوں نے صرف اتنا کہا مگر مجھے اندازہ ہے کہ ڈاکٹر جمیل کو بہت کچھ کہا گیا ہوگا کہ یوں کسی ہندستانی کو بغیر پولیس کی اجازت کے کہیں نہیں لے جاتے ۔ خیر شام کو جب کانفرنس ختم ہوئی تو باضابطہ انھیں آگاہ کر کے ہم ڈاکٹر جمیل کے ساتھ فیصل آباد جسے ایشیا کا مانچسٹر کہا جاتا ہے ، وہاں کپڑوں کی شاپنگ کے لیے گئے ۔ پہلے کرنسی تبدیل کرائی اور جب کپڑوں کی قیمت معلوم کی تو ایسا لگا جیسے یہ انتہائی کم قیمت میں مجھے مل رہے ہیں ۔ اس کی وجہ کرنسی کی قیمت تھی ۔ ہندستانی کرنسی کے بدلے ہمیں دوگنے پاکستانی روپے ملے تھے۔ دوسرے دن بھی کانفرنس کی ہماہمی رہی۔ اختتامی اجلاس میں پنجاب کے گورنر محترم مہمان خصوصی تھے ۔ تاثرات کے لیے مجھے بلایا گیا تو میں نے وہی بات کہی جو میرے دل میں تھی ۔ میں نے کہا کہ جب مجھے دعوت نامہ ملا تھا تو سوچا تھا صباحت اور رابعہ کوئی معمر خاتون ہوں گی ، جن کےبال سفید ہوں گے لیکن ان جواں سال خواتین اور ان کی محنت کو دیکھ کر اندزہ ہواکہ پاکستان کی خواتین کسی بھی میدان عمل میں کسی سے کم نہیں ہیں ۔ یہ بات پاکستان کے روشن مستقبل کی علامت ہے ۔انھوں نے جس انداز سے کانفرنس کا اہتمام کیا ، مہمانوں کا خیال رکھا اور شایان شان استقبال کیا یہ اپنے آ پ میں ایک مثال ہے ۔
فیصل آباد میں یہ ہماری آخری رات تھی ۔ہمارے کمرے میں اس دن ماہر اقبالیات ڈاکٹر صابر کلوروی آگئے تھے ۔ دیر تک ان سے باتیں ہوتی رہیں ۔ انھوں نے بہت محبت اور شفقت سے تمام تعلیمی أحوال دریافت کیے ۔ پھر جب صبح ہماری نیند کھلی تو دیکھا کہ صابر صاحب نہیں ہیں ۔ شاید وہ جا چکے تھے ۔ میں نے کروٹ لی تو سامنے ایک رقعہ پر نظر پڑی اسے کھولا تو اس میں کچھ پاکستانی روپے رکھے ہوئے تھے اور رقعہ پر لکھا تھا ۔ ’ آپ کی نیند خراب نہ ہوا س لیے الوداعی سلام نہیں ہوسکا ۔ یہ ہماری طرف سے آ پ کے بچوں کے لیے کچھ روپے ہیں اس سے ضرور کچھ تحفہ خرید لیں ۔‘ اللہ مرحوم کو جنت بخشے کتنے نیک اور شریف انسان تھے ۔ اپنے چھوٹوں سے خوب شفقت کرتے تھے ۔ان کے اس اخلاق سے میں اس قدر متاثر ہوا کہ بیان سے باہر ہے ۔اس بعد ان سے دہلی میں ایک بار ملاقات ہوئی اور جب میں دوبارہ پاکستان گیا تو ان کے انتقال کی خبر پہلے ہی مل چکی تھی اس لیے سوائے دعائے مغفرت کے ان کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔
سیمنار کے بعد کا آخری دن اس لیے کوئی کام نہیں کرسکا کیونکہ اسی دن بگٹی صاحب کے ساتھ فوج کی کاروائی ہوئی تھی اس لیے تمام شہر سنسان تھا ۔ لوگوں کی آمد و رفت محدود تھی ۔ اس کے اگلے دن علی الصباح دو گاڑیوں سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے ۔ ویزا لاہور کا نہیں تھا مگر اصول یہ ہے کہ کسی شہر میں ٹرانزٹ کے طور پر چوبیس گھنٹے سے کم قیام کر سکتے ہیں ۔ ہماری گاڑی میں صباحت صاحبہ ، جرمنی کےایک مہمان اور پروفیسر ابن کنول تھے ۔ پہلے وہ ہمیں گھر لے گئیں۔ گھر داخل ہوتے ہی اپنے والدین سے کہا کہ ان کا آج یوم ولادت ہے اس لیے انھیں مبارکباد دیں ۔ لیکن یہ تو ہماری تاریخ پیدائش نہیں تھی ۔ مجھے حیرت میں دیکھ کر انھو ں نے قرة العین حیدر کا یہ جملہ سنایا کہ’ جن نے لاہور نئیں دیکھیا وہ جنما نئین‘چونکہ ہم نے پہلی دفعہ لاہور دیکھا تھا اس لیے ان کا یہ جملہ برمحل لگا ۔معاً بعد کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے ۔ بڑی بڑی روٹیاں دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ اتنی بڑی روٹیاں ہندستان میں نہیں بنتیں۔ جتنی بڑی روٹی تھی اس سے تو ہمارے یہاں چار روٹیاں بن جاتی ہیں ۔ تب صباحت نے بتایا کہ یہاں ایسی ہی روٹیاں بنتی ہیں ۔ کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کے والد محترم نے تحفے میں ہمیں پاکستانی کپڑے دئے ۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ یہاں کہ لوگ کتنے مہمان نواز ہیں ۔ پہلی ملاقات میں اس قدر عزت افزائی اور اتنے تحائف ۔
شام ہوتے ہی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے دولت کدے پر پہنچ گئے۔ رات یہیں قیام کرنا تھا ۔ یہاں بھی خوب ضیافتیں ہوئیں اور تحائف ملے ۔ صبح ہوتے ہی ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے ۔ہم سبھوں کے پاس مقررہ وزن سے زیادہ سامان ہوگیا تھا فکر اس بات کہ تھی کہ نجانے کتنی اضافی رقم ادا کرنا ہوگی۔ لیکن جناب مجھے یہاں بھی ائیر پورٹ کے افسران کا سلوک مثالی نظر آیا ۔ ایک تو انھو ں نے ہمارے بیگ دیکھے جس پر فیصل آباد جی سی یونیورسٹی لکھا ہواتھا تو پوچھا آپ کیا کرتے ہیں ؟ جب انھیں معلوم ہو ا کہ ہم یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور ہندستانی ہیں تو انھوں نے بڑی محبت دیکھائی اور کسی سے کوئی اضافی فیس نہیں لی بلکہ بڑی نرمیت اور خلوص سے ہمارے احوال دریافت کیے ۔ ۔۔ اس طرح بے شمار تحائف اور خوشگواریادیں لیے ہم ہندستان واپس آگئے ۔ یہ یادیں اب تک ذہن پر نقش ہیں ۔ پاکستانی احباب کا خلوص، مہمان نوازی اور اخلاق یقیناً بے مثل ہے۔
پشاور کا سفر :
پشاور یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن کی دعوت پر دوسری بار پاکستان کے لیے روانہ ہوا(-2008-26-19 جولائی)۔ میر کارواں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر چمن لال ،صدر ہندستانی زبانوں کا مرکز، تھے دیگر ہمراہان ڈاکٹر اخلاق احمد آہن ، ڈاکٹر رمن پرساد سنہا اور ڈاکٹر محمد کنجو تھے۔ ویزا ملنے کی داستان بھی عجیب ہے دعوت نامہ ایک ماہ قبل مل چکا تھا اور سیمنا ر کے موضوع’’ اعلیٰ تعلیم :رجحانات اور امکانات‘‘پر مقالے بھی تیار کر لیے گئے ، میزبانوں نےکہا کہ 12 جولائی تک ویزا مل جائے گا اور آپ افتتاحی تقریب میں ضرور شامل ہوں کیونکہ پروفیسر چمن لال کو اس نشست کی صدارت کرنی تھی۔چمن لال صاحب ،مستقل سفارتخانے کے رابطے میں رہے ۔متعقلہ آفیسر نے ہمیشہ یقین دہانی کرائی کہ وقت پہ ویز امل جائے گا۔ مگر 12 سے 17 تاریخ بھی گزر گئی اور ویزا نہ مل سکا ۔اچانک 17کی شام سفارتخانے سے فون موصول ہواکہ آپ حضرات تشریف لائیں اور ویزا لے جائیں ۔آفیس کے اوقات تقریباً ختم ہو چکے تھےاس لیے حیرت ہوئی کہ یہ کرم فرمائی چہ معنی دارد ؟اسی موضوع پہ ہم احباب گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ہمارے میزبان ڈاکٹر ارباب آفریدی ، صدر پشاور یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن و صدر آل پاکستان یونیورسٹی ٹیچرس و اسٹاف فیڈریشن کا فون آیا کہ ہم نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر کے سخت احتجاج کیا ہے کہ ہمارے ہندستانی دانشوروں کو کن اسباب کے تحت ویزا نہیں دیا گیا ؟اس پریس کانفرنس میں انھوں نے پاکستانی میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ ہم پاکستانیوں کوبھی ویزا ملتارہا ہے اور ہندستانی دانشوروں نے ہمیشہ والہانہ استقبال کیا ہے ۔ اس کے جواب میں ہمارے ملک نے یہ سلوک کیا ہے ۔پریس کانفرنس کے بعد پاکستان کے تما م اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا اور تما م ٹی وی چینلس میں اسے کور کیا گیا۔اس کے بعد سفارتی عملہ متحرک ہوااور آپ کو ویزے دئے جارہے ہیں ۔اس طرح ناوقت فون کا رزا معلوم ہوا اور 18 کی شام کو ہمیں ویزا مل گیا اور ہم 19جولائی کی صبح دہلی لاہور بس کے ذریعے سفر پر روانہ ہوئے ۔بس کا سفرہم سبھوں کے لیے ایک نیا تجربہ تھا ۔دہلی سے واگہہ تک پولیس کی گاڑی آگے آگے چلتی رہی۔ اس کے مخصوص سائرن کی آواز سے لوگ بس کی جانب متوجہ ہوجاتے اور ہاتھ ہلا ہلا کر مسافرو ں کو سفر کی مبارکباد پیش کرتے رہے۔ یہی حال سرحد پار بھی رہا۔در اصل یہ بس کی حفاظت کے لیے تھا کیونکہ ایک دو ناخوشگوار واقعا ت بھی رونما ہوچکے تھے ۔خیر ہم بخیر وخوبی واگہہ بارڈر پہنچے ۔امیگریشن کے بعد پاکستانی امیگریشن جو مشکل سے پانچ سو میٹر کی دوری پر تھا ۔ وہاں بھی ضروری کاروائیاں مکمل کیں ۔ وہاں سے نکل کر باضبطہ پاکستان کی سر زمین میں پہنچ گئے ۔
واگہہ سے ایک کیلومیٹر کے بعد ہماری بس نہر کے کنارے چلتی رہی یہ بہت ہی خوشنما منظر تھا ۔یہ کنارے دراصل تفریح گاہ تھے ۔بچے، بوڑھے نوجوان نہر میں غوطے لگا رہے تھے ۔ گرمی کا دن تھا ۔نہر کے دونوں کنارے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ کہیں چائے پی رہے تھے تو کہیں کھیل کود اور خوش گپیوں میں مشغول تھے ۔ کچھ عورتیں بھی نقاب کے ساتھ نہر کے ٹھنڈے پانی میں نہا رہی تھیں ۔اسے دیکھ کر ہمارے غیر مسلم ساتھیوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ واقعی یہ عجیب بات ہے ہم نے پاکستان کے بارے میں سنا تھا کہ لوگ بہت ہی قدامت پسند ہیں اور عورتوں پر سخت پابندیاں ہیں ۔ لیکن یہ تواپنی تہذیب کے ساتھ تفریح بھی کر سکتی ہیں ۔یقیناً یہ ہمارے لیے نئی بات ہے۔ بہر کیف واگہہ سے 50 منٹ کا یہ سفر دیکھتے ہی دیکھتے گذر گیا۔سورج کی ڈوبتی کرنوں کے ساتھ ہم لاہور پہنچ چکے تھے ۔ (مگر ذہن میں اس سہانی شام نے جونقوش بنائے وہ ہمیشہ یادگار رہیں گے۔)پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے ایڈیشنل رجسٹرار پروفیسر اورنگ زیب عالمگیر صاحب کو ہم نے بتا یا تھاکہ ہم لاہور آرہے ہیں مگر اسی شام پشاور کے لیے روانہ ہوں گے۔شاید آپ سے واپسی پر ملاقات ہو لیکن ان کی محبتوں کے ذکر کے لیے الفاظ نہیں ہیں ۔ وہ شام کو اپنی اہلیہ کے ساتھ وہاں موجود تھے ۔ انھوں نے چائے اور کھانے کے لیے مدعو کیا مگر ہمیں پشاور جاناتھا اور جناب پرفیسر مختار درانی ہمارے استقبال کے لیے پشاور سے آچکے تھے اس لیے ہم لاہور میں بہت دیر نہیں رک سکےلیکن ان کی دعوت قبول کر لی اور 24 جولائی کو لاہور آنے کا وعدہ کرلیا ۔
پشاور میں یہ ضرب المثل بہت مشہور کہ جب لوگ کسی کو خوش مذاقی میں بد دعا دیتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ’خدا تمہیں کسی پٹھان کا مہمان بنا دے‘ یہ بات ہمیں پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عظمت حیات خان صاحب نے بتائی تھی جب ہم ان کی دعوت پر ان کے گھر شام کی پُر تکلف چائے پر مدعو تھے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ قبائلی علاقوں میں پہلے یہ دستور تھا کہ لوگ اگر ایک دوسرے کے خلاف مہینوں سے سخت جنگ بھی کر رہے ہوتے اور درمیان اگر کوئی مہمان آجاتا تو مہمان کی آمد کے اعلان کے ساتھ ہی جنگ بندی شروع ہو جاتی اور دونوں فریق مل کر مہمان کی خاطر تواضع کرتے۔ اب یہ ہمارے لیے خوش بختی بھی تھی اور حیرانی کا سبب بھی کہ ہم لوگ پٹھان کے مہمان تھے۔ یہ اپنے مہمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ اس کی تشویش اور تشویق میں ہم مبتلا تھے۔ ڈاکٹر مختار درانی کو دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ہمارے ساتھ کیاسلوک کرنے والے ہیں ۔درانی صاحب آٹھ گھنٹے کا سفر طے کر کے ہمیں لینے کےلیے لاہور پہنچے تھے اور اب ہمارے ساتھ بھی انھیں مزید آٹھ گھنٹے کا سفر بذریعہ کار طے کرنا تھا۔لاہور بس اسٹینڈ پر ہمیں دیکھتے ہی لپٹ گئے اور فرط جذبات میں اپنی کہانی سنانے لگے کہ اگرآپ لوگوں کو ویز انہ ملتا تو ہماری تحریک اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہوتا ۔ ہم نے اپنے حکام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہندستانی دانشور وں کو ویزا نہ دینے کی وجہ کیا تھی ؟ کیا وہ چور اچکےہیں کہ انھیں تعلیمی کانفرنس میں آنے سے روکا جا رہا ہے ۔ یہ اور اس طرح کی باتیں وہ کرتے رہے تاکہ ہم ویزا کے لیے جن پریشانیوں سے گزرے ہیں اس کا ازالہ ہوجائے۔یہ باتیں ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھیں ہم پاکستان کے خوبصورت موٹر وے پر آگئے ۔ اس موٹر وے کو ’فخر ِ پاکستان ‘بھی کہا جاتا ہے۔واقعی جس طرح اسے مینٹین کیا جارہاہے وہ قابل تعریف ہے۔تھوڑی دیر کے بعد ہی ہم قیام طعام کے لیے بنے ایک خوبصورت اسٹاپ پر رُکے۔ انتہائی صاف و شفاف اور کشادہ احاطہ جس میں تمام سہولیات کے ساتھ ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی تھی۔ یہاں ہم نے چائے پی اور مختار صاحب یہ بھی لیں ، یہ بھی لیں کا اصرار کرتے رہے۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد ہم لوگ کھانے کےلیے ایسے ہی ایک پُر فضا مقام پر رُکے ۔ مختار دارنی صاحب نے انتہائی پُر تکلف کھانا کھلوایااور بار بار وہ یہ پوچھتے رہے کہ باقی احباب کیوں نہیں آئے ؟در اصل انھوں نے ہندستان سے 16 لوگوں کو مدعو کیا تھا ،آنا تو سب چاہ رہے تھے مگر ہم پانچ دیوانوں کی طرح کو ئی اور نہیں تھا کہ محض چھ سات گھنٹے میں سفر کی تیاری کر لیتے۔ اس کا سہرا بھی پروفیسر چمن لال کے سر جاتا ہےجن کی تحریک نے ہمیں اس سفر کا موقع دیا۔
درانی صاحب نے ہمیں بتا یا کہ ہم رات کے تین چار بجے تک پشاور یونیورسٹی کے سمر کیمپ باڑہ گلی پہنچ جائیں گے۔ ہم لوگ بس اور کار کے سفر سے تھک چکے تھے۔ اس کا احساس درانی صاحب کو بھی تھااس لیے وہ ہر طرح سے باتوں میں الجھائے رہے تاکہ راستہ کٹ جائے ۔حالانکہ وہ خود بھی ہم سے زیادہ تھکے ہوئے تھے۔لیکن ان کی دلچسپ گفتگو بھی جاری رہی اور ہم میں سے کچھ احباب میٹھی نیند کی آغوش میں بھی چلے گئے ۔میں فرط اشتیاق سے چاندنی رات میں موٹر وے کے سفر کے نظاروں میں کھویا رہا مگر ایبٹ آباد کے خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں پہنچتے ہی میری بھی آنکھ لگ گئی ۔ ڈاکٹر رمن جاگتے رہےاور دارنی صاحب نے جیسے نہ سونے کہ قسم کھا رکھی تھی۔ صبح کےچار بج رہے تھے ۔ درانی صاحب کی اس آواز سے میری آنکھیں کھلیں کہ دیکھیں یہ ہمارے سمر کیمپ کا راستہ ہے ۔پہاڑوں کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے یہ کچی سڑک تھی جس پر ہماری کار گزر رہی تھی مگر کار میں بیٹھے اکثر لوگوں کے دلوں پر کیا گزر رہی تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ ہماری کار اونچائی پر ایک جگہ اچانک رک گئی ۔ اگر خدا نخواستہ یہ پیچھے کی طرف لُڑھک جاتی تو ہم کئی سو گز کی گہرائیوں میں ہوتے۔ جیسے ہی ہماری کار گڑگڑاہٹ کے ساتھ رکنے لگی ڈاکٹر اخلاق جس تیزی سے نیچے اُترے اتنی رفتار تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ ان کے جسم میں ہلکی لرزش بھی تھی ۔ نہیں معلوم یہ یخ بستہ ہواؤں کے سبب تھا یا کچھ اور؟ درانی صاحب اور ڈرائیور ہم سےکہتے رہے کہ گھبرانے کی بات نہیں لیکن ہم میں سے کوئی نہیں رُکا اور ایک ہی لمحے میں ہم سب نیچے اتر چکے تھے۔معلوم ہوا کہ ہم بالکل گیسٹ ہاؤس کے سامنے کھڑے تھے۔اس وقت صبح کے چار بج رہے تھے ۔ ہمیں صرف اتنا یاد ہے کہ رمن ، اخلاق اور ہمارا ایک ہی کمرے میں سامان پہنچا یاگیا ۔ایک بیڈ پر میں نے اپناہینڈ بیگ رکھا اور لحاف تان کر سو گیا۔صبح کے دس بجے تھے ڈاکٹر ارباب آفریدی ہمارے کمرےمیں آئے تو ڈاکٹر اخلاق نے مجھے جگایا ۔ڈاکٹر آفریدی گلے سے اس طرح لپٹے جیسے کئی برسوں کے بچھڑے مل رہے ہوں ۔انھوں نے ہاتھ ملاتے ہوئے ہم سبھی دوستوں کو پانچ پانچ ہزار روپے پیش کیے اور یہ کہا کہ آج کا دن گھومنے کے لیے مخصوص ہے اس لیے آپ سب ہمارے ساتھ چلیں اور ان پیسوں سے اپنے گھر والوں کے لیے ہماری طرف سے تحائف خریدیں ۔ ہم نے ہزار کوشش کی کہ یہ نذرانہ قبول نہ کیا جائے مگر بات پٹھان کی مہمان نوازی کی تھی ۔ہم لوگ جلد ہی ناشتے سے فارغ ہوئے ہمارے لیے یونیورسٹی کی مخصوص گاڑی تیار تھی ۔معلوم یہ ہوا کہ دیگر مندوبین صبح ہی دو تین بسوں میں سوار ہوکر تفریح کے لیے نکل چکے ہیں ۔ ہم نے بھی ڈاکٹر آفریدی اور ڈاکٹر درانی کی ضیافت میں سارا دن مری کے پہاڑوں کی سیر میں گزارا ۔
دوسرے دن ناشتے کے بعد ہم سیمنار میں ہال میں پہنچے ۔غیر ملکی اور پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں سے آئے مہمانوں سے ہمارا تعارف کرایا گیا ۔ پہلے شیشن کی صدارت پروفیسر چمن لال نے کی۔ یہ ہمارے غیر مسلم دوستوں کے لیے انتہائی حیرت کن بات تھی کہ کرتا پائجامہ اور ٹوپی پہنے لوگ انگریزی زبان میں ملٹی میڈیا پرو جیکٹر کے ذریعے اپنا پیپر پیش کر رہے تھے ۔ نقاب پوش خواتین نے بھی بہترین انگلش لب ولہجے میں اپنے اپنے پیپر پیش کیے ۔تب انھیں اس غلط فہمی کا اندازہ ہوا کہ پاکستان میں خواتین اَن پڑھ نہیں جتنا کہ ان کے حوالے سے میڈیا میں خبریں آتی ہیں ۔ سیمنا ر کا موضوع اعلیٰ تعلیم :رجحانات اور امکانات تھا۔ اس میں زیادہ تر مقالوں میں پاکستان میں موجودہ تعلیمی صورت حال پر بات کی گئی اور حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لیے جو منصوبے بنائے ہیں ان کے مثبت اور منفی اثرات پر گفتگو کی گئی ۔سب سے زیادہ رد عمل آوٹ سورسینگ پر تھا۔اس کے علاوہ یہ مطالبات بھی سامنے آئے کہ ہائیر ایجوکیشن ادارے میں اساتذہ کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے تاکہ پالیسی طے کرتے وقت ان کی رائے بھی شامل ہو۔ ان کی رائے اس لیے زیادہ معتبر ہو سکتی کیونکہ یہ براہ راست اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں ۔جو خاص بات اس سیمنار کی تھی وہ یہ کہ اس سیمنار میں شریک تمام طلبہ و طالبات اور اساتذہ بخوبی تمام حالات سے آگاہ تھے اور مستقبل کے امکانات پر ان کی گہری نظر تھی۔یہ درا صل اشارہ اس بات کا ہےکہ پاکستان میں نئی نسل اعلیٰ تعلیم کی ضرورتوں اور تقاضوں کو سمجھ رہی ہے ۔ اگر یہی سنجیدگی پالیسی سازوں کی بھی رہی تو بلا شبہہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو نئی منزل اور نئی شناخت ملے گی۔اس آٹھ روزہ سیمنار میں ہم لوگ تین دن ہی رک سکے ۔کیونکہ ہمیں 26 کو ہر حال میں واپس ہونا تھا کیونکہ ویزا صرف 27 تک کا ہی تھا لیکن 27 کو کوئی بس نہیں تھی ۔ اور یہ ہمار ےبس میں بھی نہیں تھا کہ بس کے بجائے کسی اور سواری سے ہندستان واپس آتے کیونکہ ہند و پاک کے ویزا کا اصول یہ ہے کہ اگر آپ بس کے ذریعے پاکستان یا ہندستان میں داخل ہوئے ہیں تو ٹرین یا ہوائی جہاز سے واپس نہیں ہوسکتے۔ اس احمقانہ نظام کے ہم بھی شکار ہوئے اور ایک دن قبل ہی پاکستان سے واپس ہونا پڑا۔
ہمیں چونکہ تکشیلا کا بھی ویزا مل گیا تھا اس لیے22 جولائی کی دوپہر کو ہم تکشیلا کے لیے روانہ ہوئے۔خفیہ ایجنسیاں بھی ہمارے پیچھے پیچھے تھیں مگر درانی صاحب نے بتا یا کہ کوئی فکر کی بات نہیں یہ ہمارے تحفظ کے لیے ہیں ۔تین بجے ہم تکشیلا کے تاریخی کھنڈروں کی سیر کر رہے تھے ۔میرے دوست ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کو جب یہ اطلاع ملی کہ ہم پاکستان میں ہیں تو وہ ہمیں اسلام آباد لے جانے پر بضد تھے ۔ جب ہم نے ویزا نہ ملنے کی لاچاری ظاہر کی تو بہ حجت تما م وہ مان سکے اور ہم سے ملنے اپنے دوست فاروقی صاحب کے ساتھ تکشیلا پہنچے۔ کوئی آدمی صوفی بھی ہوا ور پُر بہار شخصیت کا مالک بھی، ایسا کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔لیکن اس قلندر صفت دوست جو ’ساحر ‘بھی ہے ان میں سب کچھ موجود ہے۔ان کے آنے سے کھنڈروں میں بھی بہار آگئی ۔ دو گھنٹے ان کے ساتھ ہم لوگوں نے گزاراجو اس سفر کی خوبصورت یاد گار بن گئی۔
شام ہوتے ہی ہم پشاور کے تاریخی شہر میں موجود تھے۔بچپن میں ہم نے کئی کہانیاں پڑھی تھیں جو پشاور اور سرحد کے علاقوں سے متعلق تھیں ۔ اس لیے اس شہر کو دیکھنے کا زیادہ اشتیاق تھا ۔یو ں بھی صوبہ سرحد تاریخی اعتبار سے برصغیر میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔اس لیے ہمارا پروگرام یہ تھا کہ صبح کوشہر کے گرد ونواح میں بھی جائیں گے ۔مگر حالات کی نزاکتوں کے سبب نہ ہم جاسکے اور نہ ہمیں جانے دیا گیا۔ صبح ہوتے ہی ڈاکٹر درانی ہمارے گیسٹ ہاؤس میں موجود تھے۔ ان کے ہمراہ ہم لوگ پشاور یونیورسٹی کے وسیع و عریض علاقے کو دیکھنے نکل پڑے ۔ انتہائی خوبصورت عمارتیں اور باغات کے درمیان ہاسٹلس اور ہر جانب ہرے بھرے میدان ،قدیم طرز کی تعلیمی عمارتیں اور صفائی کا خاص اہتمام دیکھ کر ہم لوگ بہت متاثر ہوئے ۔سب سے پہلے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ گئے اورشعبے کے ڈین سے ملاقات ہوئی ان کی ضیافت کے بعد جب ہمیں رخصت ملی تو شعبے کے کلاس روم دیکھنے کا موقع ملا ۔ خوشی ہوئی تمام کلاس روم میں ہر طرح کی جدید تکنالوجی موجود ہے۔اس کے بعد پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عظمت حیات خان صاحب سے ملاقات ہوئی ۔انتہائی خنداں پیشانی سے انھوں نے ہمارا استقبال کیا اور پُر تکلف قہوے کے بعد اپنی بیش قیمت کتابیں پیش کیں اور شام کی چائے کے لے گھر پر مدعو کیا۔ حالانکہ وقت کم تھا مگر پٹھانوں کی مہمان نوازی کے ڈر سے لا محالہ جانا ہی پڑا۔ چونکہ دن بھر ہم لوگ ادھر ادھر گھومتے رہے اس لیے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا ۔ شام چار بجے شاید ان کے گھر پہنچے ۔شاندار روایتی طرز کی کوٹھی ، وسیع دالان اور درون خانہ باغ جو مختلف طرح کے پھولوں سے سجا ہوا تھا ۔ گھر کے مین دروازے پر دستک دیتے ہی کئی خادم دوڑے ہوئے آئے اور دروازہ بڑے احترام سے کھولا۔ روایتی انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔شام سہانی تھی اس لیے صحن میں ہمارے بیٹھنے کے لیے سلیقے سے میز ، کرسیاں لگائی گئی تھیں ۔ مکان دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کسی جاگیردار یا رئیس کا روایتی مکان ہے ۔ کچھ ہی دیر میں اندر سے عظمت صاحب تشریف لائے ۔ والہانہ استقبال کیا ۔ گفتگو شروع ہوئی ہم لوگوں نے پشاور شہر نہ دیکھ پانے کا گلہ کیا ۔ انھو ں نے حالات کی ستم ظریفی بتائی۔ اتنے میں کئی خادم طشت پر کئی اقسام کے شربت لے کے آئے ۔ ہم نے تازے پھلوں کے شربت سے خود کو ترو تازہ کیا ۔ اتنے میں دسترخوان سمیٹ دیا گیا ۔ مجھے حیرت بھی ہوئی ۔ لیکن فوراً بعد دوسرا دسترخوان لگا اور اب کئی طرح کے تازے پھل ہمارے لیے پیش کیے گئے ۔ پھل واقعی میٹھے تھے اور ہمیں بھوک بھی لگی تھی اس لیے خوب سیر ہوکر ہم نے کھایا۔ اس کے بعد وہی عمل دہرایا گیا ۔ دسترخوان سے سارے سامان اٹھا لیے گئے ۔ کچھ ہی دیر میں اب طرح طرح کے پکوڑے سامنے تھے ۔ پھلوں سے سیر ہوچکے تھے اس لیے زیادہ پکوڑے نہیں کھائے گئے ۔ خیر صاحب ہم لوگوں کو کسی نے یہاں کی روایا ت کے بارے میں بتایا نہیں تھا اس لیے لاعلمی میں اپنا پیٹ بھر چکے تھے ۔ اب کیادیکھتے ہیں کہ خادم کئی اقسام کے کباب دسترخوان پر سجا رہے تھے ۔ خوشبو اس کے ذائقے کی گوہی دے رہے تھے اور ہم نادانی کر چکے تھے ۔ کھانے کی جگہ باقی نہیں تھی مگر صاحب جس اخلاص اور إصرار سے عظمت صاحب پیش آئے کہ کچھ نہ کچھ کھانا ہی پڑا ۔ پہلی دفعہ چپلی کباب کا نام سنا ۔ حیرت ہوئی کہ کباب کو چپل سے کیا نسبت لیکن جب اس کا سائز دیکھا تو اس کے نام کی مناسبت سمجھ میں آئی ۔ مگر کبابوں کے ساتھ انصاف نہ کرنے کا ملال آج تک ہے ۔ چائے اور قہوہ کے بعد انھوں نے بڑی محبت اور حسرت سے ہمیں رخصت کیا اور دوبارہ پشاور آنے کی دعوت دی ۔
اس دن کی خاص بات یہ رہی کہ ہم سبھی یہ چاہتے تھے کہ گندھارا آرٹ کے لیے مشہور پشاور میوزیم دیکھیں لیکن اس دن تعطیل کے سبب میوزیم بند تھا۔ درانی صاحب اور ان کے احباب کی تعریف کرنی پڑے گی کہ انھوں نےکسی طرح ہمارے لیے میوزیم دیکھنے کا انتظام کیا اور ہندستانی مہمانوں کے لیے ایک گھنٹے کے لیے اسے کھلوایا گیا۔ اس غیر معمولی مدد کے لیے ہم سب ان کے بہت ہی ممنون ہیں ۔دن بھر شہر کا چکر کاٹتے رہے کہیں جانے سے منع کیا گیا تو کہیں جانا نا ممکن تھا اس طرح رات ہو گئی ۔اسی رات ولوو کی آرامدہ بس سے ہم لوگوں کو لاہور کے لیے سفر کرنا تھا۔ہدایت کے مطابق وقت سے ایک گھنٹے پہلے دس بجے رات ہم لوگ بس اسٹینڈ پر موجود تھے ۔جس انداز سے رپورٹینگ اور دیگر ضوابط سے گزرنا پڑا اس سےروڈ ویز پر ہوائی سفر کاشائبہ ہورہا تھا ۔اب بس میں سوار ہونا تھا درانی صاحب اور علی اکبر خان صاحبان نے نم آنکھوں سے ہمیں رخصت کیا۔ ٹھیک گیارہ بجے ہماری بس کے خود کار دروازے بند ہوئے۔ اسی کے ساتھ بس ہوسٹس نے مترنم آواز میں دعائے سفرپڑھی ۔ہمارےلیے یہ نیاتجربہ تھا کہ بس میں بھی ہوائی سفر کی طرح ہوسٹس موجود تھی ۔ یہ سفر اتنی آسانی سے گزرا جس کا تصور ہم نے نہیں کیا تھا ۔ ایک سو بیس اور تیس کی رفتار میں بس چلتی رہی کہیں کوئی ریڈلائٹ اور کراسنگ نہیں ملا اور نہ سڑک پر ہچکولے کھائے۔پاکستانی حکومت نے ریلویز میں تو ترقی نہیں کی مگر روڈ ویز میں جو ترقی کہ ہے وہ بلا شبہ قابل تعریف ہے۔
صبح کے ساڑھے پانچ بجے ہم لوگ لاہور شہر میں موجود تھے ۔پروفیسر اورنگ زیب عالمگیر اور ان کی اہلیہ اپنی اپنی گاڑیاں لے کر ہمیں لینے بس اسٹینڈ آچکے تھے ۔ہم لوگ دل دل میں نادم ہورہے تھے کہ اتنی صبح اور اتنے سینئر استاذ نے زحمت کی مگر ان کی خاکساری اور مہمان نوازی نے ہمیں شکریہ کہنے کا بھی موقع نہیں دیا۔انھوں نے ہمارےلیے یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس میں تین کمرے بُک کرائے تھے ۔ ہم لوگ گیسٹ ہاؤس پہنچتے ہی سو گئے ۔ ابھی ہم گہری نیند میں ہی تھے کہ ناشتے کے لیے ہمیں جگا دیاگیا۔ابھی آنکھیں مل ہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی معلوم ہو اہمارے ناراض دوست ڈاکٹر جمیل اصغر، اور ڈاکٹر آصف اعوان جی سی یونیورسٹی، کچھ ہی دیر میں فیصل آباد سے لاہور پہنچنے والے ہیں ۔ڈاکٹر جمیل کے بارے میں پروفیسر عبد الحق سابق صدر شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی یہ کہتے ہیں کہ ’جمیل نصف پاکستان ہیں‘ اگر پاکستا ن گئے اور ان سے ملاقات نہ ہوئی تو گویا آپ نے نصف پاکستان دیکھا۔ ان سے ہماری ملاقات اگست 2006 میں فیصل آباد یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سیمنار میں ہوئی تھی۔ جمیل اسم بامسمیٰ ہیں جتنے وہ جمیل ہیں اتنا ہی ان کا اخلاق۔پہلی دفعہ ا ن سے لاہور ائیر پورٹ پر ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ہمیں فیصل آباد لے جانے کے لیے آئے تھے صرف چند جملوں کے تبادلے کے بعد ایسا لگا تھا جیسے ان سے برسوں کی آشنائی ہو اور اب تو ان کی دوستی بھائی چارگی میں داخل ہوچکی ہے ۔
2007 میں وہ پہلی دفعہ ہماری دعوت پر دہلی آئے تھے تب انھیں اور قریب سے دیکھا ۔خیر صاحب ناشتے سے ابھی فارغ بھی نہ ہوئے تھے کے ڈاکٹر موصوف اور ڈاکٹر اعوان تشریف لے آئے ۔ ان کی ناراضگی اس سبب سے تھی کہ انھوں نے ہمارے لیے اپنی یونیورسٹی میں ایک پروگرام مرتب کر لیاتھا ۔یونیورسٹی کے دیگر اساتذہ بھی ہمارے منتظر تھے ۔اس سے زیادہ جمیل کے والد صاحب ان کے گھر کے لوگ اور پیاری بیٹی سومیا اور علی بڑے خوش تھے کے انکل آنے والے ہیں ۔ان کا اصرار تھا کہ ہم 24 تاریخ کا پوار دن ان کے ساتھ فیصل آباد میں گزاریں۔ ہم لوگوں نے ویزا نہ ملنے کی مجبوری بھی بتائی مگر انھوں نے مقامی طور پر اس کی زبانی اجازت بھی لے لی تھی مگر دستاویزی ثبوت نہ ہونے کے سبب ہم لوگوں نے فیصل آباد کا پروگرام اس لیے بھی ملتوی کردیا ہے کہ باڑہ گلی سے پشاور تک ایجنسیوں نے جس طرح ہماری دیکھ بھال کہ ہم انھیں مزید زحمت نہیں دینا چاہتے تھے۔ہماری اس مجبوری کے سبب دونوں دوستوں کو ڈھیڑسو کیلو میٹر کاسفر طے کر ناپڑا۔ابھی شکوے گلے ہی ہورہے تھے کہ ڈاکٹر بزمی تشریف لے آئے ۔سب ہم سے شاکی تھے اور ہم حکومت کے شاکی تھے ۔کیونکہ صرف دن بھرکے لیے ہم لوگوں نے فیصل آباد کا ویزا طلب کیا تھا مگر حکومت نے اس شہر کے دیدار اور دوستوں سے ملاقات کو پسند نہیں کیا ۔ادھر احباب کی محبتوں کا یہ عالم کہ جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ ہم فیصل آباد نہیں آرہے ہیں تو سب کے سب لاہور پہنچنے لگے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی پروفیسر چمن لال نے جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ پر کئی کتابیں لکھی ہیں جو ہندی اور پنجابی میں چھپ چکی ہیں ۔ فیصل آباد سے قریب ہی بھگت سنگھ کا گاؤں موجود ہے اور ان کا وہ مکان بھی جس میں وہ رہتے تھے۔جسے ہم لوگ بھی دیکھنا چاہ رہے تھے اور جن لوگوں نے چمن لال صاحب کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں وہ چمن لال صاحب سے ملنا چاہتے تھے اور ان کے ساتھ بھگت سنگھ کے مکان کے پاس ہی ایک نشست کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے لوگ مایوس ہوکر لاہور ہی ملنے چلے آئے ۔جی سی یونیورسٹی کی استاذ ڈاکٹر رابعہ سرفراز نے ہمارےپاکستان پہنچتے ہی فون کرنا شروع کر دیا تھاکہ آپ لوگوں کو فیصل آباد ضرور آناہے ۔لیکن جب انھیں ہمارے نہ آنے کی اطلا ع ملی تو وہ بھی اپنی دوست ناز فاطمہ جو نئی نسل کی بہترین شاعرہ اور ناول نگار ہیں ، کے ساتھ ایک بجے کے قریب لاہور پہنچ گئیں ۔ان سے ہمارا پہلے سے وعدہ تھا کہ ہم لنچ ساتھ کریں گے مگر ہمارے میزبانِ مہربان اورنگ زیب صاحب نے اپنے گھر پہ انتہائی اہتمام سے کھانے کاانتظام کر رکھا تھا ۔ مستقل سفر کے سبب میری طبیعت کچھ ناساز تھی اس لیے میں دسترخوان پر بیٹھا رہا اور حسرت سے دوستوں کی جانب دیکھتا رہاہے جو دعوت شیراز کے مزے لے رہے تھے۔وہاں سے رخصت ہو کر ساڑھے تین بجے میں رابعہ اور ناز سے ملاقات کے لیے پہنچا بلکہ یوں کہیں کہ ان کی دل آزاری کے لیے گیا ۔کیونکہ انھوں نے ہمارے انتظار میں کھانا نہیں کھایا تھا ۔ میں وہاں بھی ان کے ساتھ بیٹھا رہا اور اس احساس سے نادم ہوتا رہا کہ مہمان تو ’مردہ بدست زندہ ‘کے مصداق ہوتا ہے۔ میں چاہ کر بھی وقت پر نہیں پہنچ سکا اور انھیں انتظار کی زحمت اٹھانی پڑی ۔میں نے ان کے ساتھ لنچ کا وعدہ تو کر لیا تھا مگر نہ تو وقت پر حاضر ہوسکا اور نہ ہی ان کا ساتھ دے سکا۔لیکن ان کے خلوص کا شکر گزار ہوں کہ تین گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد بھی انھوں نے خنداں پیشانی سے میر ااستقبال کیا ۔اب مجھے نہیں معلوم انتظار کی صعوبتوں سے گزرنے کے بعدانھوں نے دل سے کیا کیا کہا ہوگا۔خدا ان دوستوں کو آبا دوشاد رکھے۔ان سے ملنے کے بعد شاہی مسجد اور مزار اقبال کی زیارت کر رہے دوستوں کو ساتھ لے کر دیال سنگھ فاؤنڈیشن گیا جہاں پروفیسر چمن لال ہمارا انتظار کر رہے تھے۔اس کے بعد ہم لوگوں نےانارکلی بازار کی سیر کی۔اس طرح یہ پورا دن نکل گیا ۔ دوسرے دن بھی ڈاکٹر جمیل ہمارے ساتھ تھے اس دن ہم نے لاہور شہر کی تاریخی عمارتوں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔ حیرت ہوئی کہ ان تاریخی یادگار کی رکھ رکھاؤ کی جانب حکومت کی کوئی توجہ نہیں ۔ انار کلی کی قبر تو اس لیے صحیح سالم ہے کیونکہ وہ سیکریٹریٹ کے احاطے میں میوزیم کے ساتھ ہے مگر نور جہاں کا مقبرہ انتہائی مخدوش حالت میں ہے یہی حال جہانگیر کے مقبرے کا بھی ہے۔شالیمار باغ کو بھی جس طرح صاف ستھرا رکھا جانا چاہیے تھا وہ نہیں ہے ۔ ان عمارتوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستانی حکومت نے ابھی تک ا ن آثار قدیمہ کی اہمیت کو یا تو سمجھا نہیں یا ان کی سیاست میں یوں بھی اتنا کچھ کرنے کو ہے کہ اس جانب توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں ملی۔
پاکستان میں یہ ہماری آخری شام تھی اس لیے ہم لوگوں نے بازار کا رخ کیا اور عزیزوں کے لیے کچھ تحائف بھی لیے۔اس کے بعد الحمرا کیمپس گئے یہاں کا نظارہ بھی خوب تھا ایک طرف صوفیانہ قوالی کاپروگرام چل رہا تھا تو دوسری جانب موسیقی کا اور کئی الگ الگ آڈیٹوریم میں مختلف اسٹیج ڈرامے کا شو چل رہا تھا ۔اسی کیمپس میں ایک جگہ شہر کے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کی کہکشاں بھی جلوہ افروز تھی ۔ دلی کے منڈی ہاؤس کی طرح یہ جگہ تہذیبی اور ثقافتی مرکز ہے ۔انتہائی خوبصورت کیمپس میں ہم اور بھی وقت گزارنا چاہ رہے تھے کہ اورنگ زیب صاحب کا فون آنے لگا کہ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم لوگ اس خیال سے بھی کہ گھر والوں کو ہمارے سبب دیر تک جاگنا نہ پڑے جلد ہی ان کے گھر پہنچ گئے ۔ اس بار بھی پُر تکلف کھانے کا اہتمام دیکھ کر سوچنے لگا کہ ہم لوگ اتنا نہیں کر سکتے جتنا یہ پاکستانی احباب کرتے ہیں ۔ یہ بات صرف میں نہیں کہہ رہاہوں جن لوگوں کو بھی پاکستان جانے کو موقع ملا ہے وہ ان کی مہمان نوازی کے قائل ہوکر لوٹیں ہیں ۔
26 جولائی کو علی الصباح ہم لوگ تیار ہوگئے پروفیسر اورنگ زیب عالمگیر اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ہمیں رخصت کرنے بس اسٹینڈ تک آئے ڈاکٹر جمیل اصغر تو ہماری وجہ سے لاہور ہی رک گئے تھے وہ بھی ساتھ ساتھ تھے۔انتہائی جذباتی انداز میں ہم سبھوں نے ایک دوسرےکو دیکھا اور پاکستان کی بے شمار محبت اور یادیں لے کر ہندستان کے لیے روانہ ہوئے ۔یہ بس امرتسر تک کی تھی ۔امرتسر میں ہمارے پاس تین گھنٹے کا وقت تھا اس لیے پروفیسر چمن لال نے مجھے اور ڈاکٹر رمن کوجلیانوالا باغ اور گولڈن ٹیمپل کی سیر کرائی۔ڈاکٹر اخلاق اور کنجو نے اسٹیشن پر ہی آرام کرنا مناسب سمجھا۔شام کو پانج بجے امرتسر دہلی شتابدی سے چل کر دہلی پہنچے۔ اب تک پاکستان کی یادیں ذہن میں تازہ ہیں خدا کرے ان نقوش کے مٹنے سےپہلے دوسرے نقش کی سبیل نکل آئے
اللہ نے یہ دعائیں قبول کیں اور اس کے بعد بھی کئی بار پاکستان جانے کا موقع ملا ۔ بس اس بات کا اعتراف ضرور کرنا ہے کہ یہاں کے لو گ بہت محبتی ہیں ۔ ہندستانیوں کو بہت پیار دیتے ہیں ۔ بہت مہمان نواز ہیں ۔ اللہ ان کو سلامت رکھے ۔
***
احباب کے لیے چند تصاویر