پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا ۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کسی بھی صورت اغراض ممکن نہیں ۔ کچھ ایسے عناصر ہیں جو خود ساختہ مدبر پن کے جوش میں یا ڈالر کی جھلک سے مدہوش ہو کر اس کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مدبرین و مفکریں کرام جنہوں نے پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ کو بدل کر اپنے من پسند نعرے میں تبدیل کرنے کی سعی کی ۔ ان کی عقل کل میں یہ بات نہیں آئی کی لاالہ الااللہ میں سب پہلے تو تعلیم ہی اولیت رکھتی ہے ۔اسلام کا پہلاسبق ہی تعلیم کا ہے ۔ دیکھا جائے تو شریعت میںحصول تعلیم کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا گیا ہے ۔اگر ہم خود بتائے ہوئے مقصد کی بجائے کسی اور مقصد کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں تو اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے ۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان نے واضح طور پر پاکستانیوں کی راہیں متعین کر دیں تھیں ۔ اب یہ پاکستانی ہیں جو اپنا مقصد اور اپنی راہ گم کر چکے ہیں ۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور نظریہ پاکستان ان کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق ڈھالا جائے ۔ یہ قوم اور ملک کا نظریہ ہے اس کو بدلنا کسی قوم کی اساس بدلنے سے بھی مشکل ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کی بنیاد صرف اور صرف ایسا دیس حاصل کرنے کیلئے رکھی گئی تھی جہاں مسلمان اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگیاں گذار سکیں ۔ وہاں پر اسلامی حکومت اور اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جانا مقصود تھا۔ جمہوریت اور اس کے ثمرات کے تعاقب میں ہم اپنے اصل مقصد سے بے نیاز ہوگئے اور ہمیں یاد ہی نہیں کہ ہم پاکستانی ہیں ۔ اس جمہوریت نے پاکستانیوں نے پاکستانیت چھین کر انہیں گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ اب یہ جیالے ، متوالے اور بے تالے ہیں۔ ان کیلئے قائد اعظم اور علامہ اقبال کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ یہ اب اپنے پارٹی لیڈر کو بابائے قوم پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال پارٹی کے اجلاسوں اور ایوان صدر و قصر اعظم میں پارٹی لیڈر کی پورٹریٹ کی آویزگی ہے ۔ اس قوم کا بابائے قوم مر چکاہے لیکن وہ زندہ ہیں جن کی وجہ سے یہ قوم قریب المرگ ہو چکی ہے ۔ اس میں سے عزت ، ذلت ، انا ، خودی ، سب کچھ مار دینے والے اس قوم کے محسن بن چکے ہیں ۔ وہ جنہوں نے اس قوم کو یہ سب کچھ دیا ان کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ تاکہ خود ساختہ ملت کے یہ ترجمان اور بابے اس قوم پر مسلط کیے جا سکیں ۔ ان کے فرمودات کو مقصد دستاویزات کا درجہ دیے کر ہر مقدس دستاویز کو پردہ پوش کیا جا سکے ۔ یہ اس قوم کی بد قسمتی ہے کہ ہر مفاد پرست اور خود غرض ،نفس کا پجاری خود کو اس قوم کا ترجمان پاسبان نگہبان بنا کر دھن دولت کے بل بوتے پر اس کے کندھوں پر سوار ہے ۔
اس قوم کی سادگی یا اس قوم کا اخلاص ہے کہ یہ ہر اس شخص کو دیوتا بنا کر پوجنا شروع کر دیتی ہے جس کے متعلق اسے حسن زن دلایا جاتا ہے کہ یہ ان کیلئے کچھ کرنے کی کوشش کرے گا ۔ یہ قوم اس کو سر آنکھوں پر بٹھا کر جب تخت پر بٹھاتی ہے تو اس کے بعد اس کیلئے اس شخص کی زیارت کا ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے وہ اسے خبرنامے میں عوام کو پند ونصائح کرتی ہوئی ملتی ہے ۔ یہی عوام کیلئے مرنے اور جینے کی قسمیں کھانے والے سیکورٹی کے نام پر عوام کو دھتکار کر ایک طرف کھڑا کر کے طوفانی سپیڈ سے ان کے سامنے سے گذر جاتے ہیں ۔
اصل میں ہم بعض اوقات کسی کے کہنے پر یہ دیکھے بغیر کے کان تو ساتھ ہی ہے کتے کے پیچھے بھاگ جاتے ہیں ۔ امن کی آشا کے نام پر کمرشل مفادات کے حصول کیلئے ملک وقوم کے مقاصد کو پس پشت ڈال کر کون سی قومی خدمت سرانجام دی جارہی ہے ۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ کس مذہب میں امن کی آشا کی طلب اور اس کیلئے پیغام محبت ہے ۔امن کی آشا کا پیغام دینے سے پہلے اگر اپنے ابائو و
اجداد پر ہونے والے مظالم کو نظر انداز کر بھی دیا جائے ۔ قیام پاکستان کے وقت کے جبر و استحصال کو بھول کر امن کی آشا کی بھیک مانگی بھی جائے ۔ اپنے شہدا کے خون کو رائیگاں قرار دے بھی دیا جائے ۔ پاکستان کو دولخت کرنے کی حزیمت بھول جائے ۔ بلوچستان ،سندھ میں پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج کی فصل کی آبیاری کو نظر انداز کر دیا جائے ۔ طالبان کے روپ میں پاکستان میں خود کش بمباروں کی پشت بانی کو بھی امن کی آشا ہی قرار دے دیا جائے ۔ سب کچھ چھوڑ دیا جائے لیکن کیا کشمیر کے بھائیوں کی پکار کو نظر انداز کرنا ممکن ہے ۔ ان بہنوں ان بھائیوں کے کرب اور ان کی پکار کا جواب کیا امن کی آشا ہو سکتا ہے ۔زندہ قومیں کیا اپنی شناخت مٹا کر امن کی بھیک حاصل کرتی ہیں ۔ امن بھیک میں نہیں ملتا امن کیلئے بھی زور بازو چاہیے ہوتا ہے ۔ کمزور کو ہر کوئی دباتا ہے اور ہر کوئی جھڑکتا ہے ۔ بھکاری کے منہ پر تو ویسے ہی لعنت برس رہی ہوتی ہے ۔ اسے خواہ مخواہ ہی دھتکار پڑتی رہتی ہے ۔ہم کس قدر گرے ہوئے ہیں کہ ہمیں دولت کی چمک اتنا اندھا کر دیتی ہے کہ ہمیں اپنامنصب بھی یاد نہیں رہتا ۔ امن کی آشا کی بھیک مانگتے ہوئے ہمیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ امن دست نگر قوموں کے نصیب میں نہیں ۔ امن بھیک میں نہیں ملتا ۔بھکاریوں کے مانگے سے ان کی مطلوبہ ڈیمانڈ نہیں ملتی ۔ پاکستان کا مطلب بھکاری پن کبھی نہیں تھا۔ اس قوم کو خوداری اور خودی کی تعلیم دی گئی تھی ۔ اس کو تعلیم دی گئی تھی کہ عزت نفس اور غیرت کے ساتھ جینا ہی مومن کی شان ہے ۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ وطن اللہ اور اس کے رسول کے عاشقوں کی جنت ہوگا ۔ اس میں مسلمان آزادی سے اپنی زندگیاں اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق بسر کریں گے۔ اس کے آئین میں اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کو مدنظر رکھا جائے گا ۔ اس میں تعلیم ہوگی ۔ اس میں تربیت ہوگی۔پاکستان کا مطلب بدل دینے سے بھی یہ بدل نہیں جائیگا۔ آسمان کا رنگ کسی کے کہنے سے نیلے سے پیلا نہیں ہو سکتا۔ پاکستان جب تک نام ہے اس وقت تک اس کا مطلب یہی رہے گا ۔ پاکستا ن کا مطلب بدلنے کی کوشش کرنے والوں کو پاکستان کا نام بدلنے کی قیمت اب وصول کرنی چاہیے ۔ پاکستان کے نام کا سودا شاید ان کی ہوس کو مٹانے اور ان کی تجوریوں کی بھوک مٹانے کے کام آئے ۔ اس پاکستان کو کس کس طرح بیچو گے ۔ یہ کس کس طرح بک کر تمھاری بھوک ، تمھاری تمنائوں اور تمھاری خواہشات کی تکمیل کرے گا ۔ بیچو اور کھائو پیو۔ پھر کہو پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ۔ اس کو مہاجر ، بلوچ ،سندھی ، سرائیکی ، پٹھان میں تقسیم کر نے کی قیمت وصول کرو۔ اس قوم کو اس کی اصل شناخت اور اس کی پہچان گم کرنے میں دشمن کی مدد کی قیمت وصول کرو۔ پاکستان تو بناہی اس لیے ہے کہ یہ مسلمان خواہ وہ برائے نام ہی کیوں نہ ہو اس کی خواہشات اور اس کی تمنائوں کی تعبیر کا آمین ہو گا ۔ یہ جنگ نہ اس سے پہلے ہم نے لڑی ہے اور نہ تم اب اس کیلئے جیو۔ جیو تو صرف اپنی خواہشات اور اپنی اجارہ داری کیلئے جیو۔ جنگ کرو صرف اپنے مفادات کیلئے اور اپنی خواہشات کی راہ میں حائل محب الوطن عناصر کے ساتھ جنگ کرو ۔ جیو بھکاری بن کر اور پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرو ۔ بِک کر جیو، جھک کر جیو، غیرت ،انا ،خودی ، مار کر جیو۔ جنگ کرو پاکستان کے استحکام کے خلاف ۔ جنگ کرو پاکستان کے خلاف ۔
یاد رکھنا تمھاری حسرتوں کے جنازے کو کندھا دینے کیلئے یہی پاکستان ہوگا۔ جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی پاکستان ہو گا ۔ میرا ایمان ہے کہ کلمہ جب تک ہے اس وقت تک پاکستان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ پاکستان کلمہ کا دوسرا روپ ہے اور یہ اللہ پاک کی عطا و احسان ہے ۔
پاکستان کا مطلب کیا
پاکستان کا مطلب کیا