Home / Socio-political / پاک امریکہ کے کشیدہ ہوتے تعلقات اورا نسداد دہشت گردی مہم کا مستقبل

پاک امریکہ کے کشیدہ ہوتے تعلقات اورا نسداد دہشت گردی مہم کا مستقبل

دہشت گردی ایک ایسا لفظ ہے جس کا استعمال  مختلف ممالک اپنے اپنے طور  کر رہے ہیں اور اس کی تشریحات بھی اسی انداز سے  کی جارہی ہیں۔اس کے حوالے سے عالمی سطح پر سیاست بھی  کئی رنگ لیے  ہوئے ہے ۔ کہیں دہشت گرد خود کو مظلوم کہہ رہےہیں اور اسی کی مدافعت کے لیے اپنے اس حربے کو جائز ٹھہرا رہے ہیں تو کہیں کوئی ملک خود دہشت گردانہ کاروائیوں میں مصروف ہے لیکن وہ مظلموں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں ۔ جیسے اسرائیل جو اپنی جارحانہ اور دہشت گردانہ کاروائیوں  کے سبب فلسطین کے لیے عرصہ ٴ حیات تنگ کر رکھا ہے  لیکن خود کو مظلوم کہتا ہے ۔ اسی طرح امریکہ کا حال یہ ہے کہ خود کو ایسا ملک مانتا ہے جس پر دہشت گردوں کی نظر  ہے اور دہشت گردوں  نے امریکہ کے ٹریڈ ٹاور پر حملہ کر کے اس کو جو زخم دیا ہے اس کا علاج یہی ہے کہ دنیا کے جس کونے میں بھی دہشت گرد  موجود ہیں ان  کو سر ے سے ختم کر دیا جائے ۔ امریکہ کی اس سوچ میں دنیا کے کئی ممالک بھی شامل ہیں اور ایسے ممالک بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں جو خود ستائے ہوئے بھی ہیں ۔بہت سے ایسے ممالکک بھی ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً  ان کے ساتھ ہیں ی ادوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے ممالک کےپاس  ہاں کہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی  نہیں تھا۔ اس کی صرف ایک  وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ امریکہ طاقت قوت میں ابھی سب سے مضبوط ملک  ہے جو کسی بھی ملک کو کسی بھی وقت اپنے قبضہ ٴ قدرت میں لے سکتا ہے یا اسے تباہ  و برباد کر سکتا ہے۔اس کی مثال عراق اور افغانستان  ہے ۔ عراق پر موجود حقائق کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف عراق سے نا پسند یدگی کی وجہ سے عراق کو تختہ ٴ مشق بنایا ۔ اس کے بعد عالمی سطح پر جس طرح عراق  جنگ کی حمایت کی گئی اور امریکہ کا ساتھ دیا گیا وہ بھی باعث حیرت ہے کہ کیونکہ دنیا حقائق کو جان رہی تھی مگر امریکہ کے خوف سے یا اس کی خوشا مد  کے لیے عالمی طاقتوں نے اس کا ساتھ دیا۔

عراق کے بعد باری افغانستان کی آئی جس پر امریکہ نے قہر برسایا اور اس اب بھی افغانستان میں قتل وخون کا بازار گرم ہے ۔امریکی حکمت عملی کے ساتھ طالبان کی بھی جارحانہ کاروائیاں  جاری ہیں ۔ جس کے نتیجے میں افغانی عوام تختہٴ مشق بنے ہوئے ہیں ۔ اس جنگ میں امریکہ یا طالبان دونوں  میں سے کسی کو عوام کی پریشانیوں سے کوئی مطلب نہیں ہے وہ تو بس اپنی جیت درج کرانے میں مصروف ہیں ۔اسی جنگ کی ابتدا میں امریکہ نے پاکستان کو انسداد دہشت گردی مہم میں شامل ہونے کی بات کہی ۔ اور پاکستان نے حامی بھر لی ۔ اس وقت سے آج تک پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے ۔ لیکن دہشت گردی مہم میں صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں اس مہم  کے سبب نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔اور آج امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اس  حوالے سے انتہائی نازک موڑ سے گزرہے ہیں۔لیکن مجودہ صورت حال پر بحث کرنے سے پہلے اس کے پس منظر پر بھی غور کر لینا چاہیے۔ جس وقت امریکہ نے پاکستان کو اتحادی بننے کی دعوت دی اس وقت پاکستان میں فوجی حکومت تھی اور ایسی فوجی حکومت جو کچھ ہی عرصے قبل  پاکستان پر قابض ہوئی تھی ، اس وقت آرمی چیف جنرل پرویز مشرف  کے ہاتھوں میں زمام حکومت تھی اور وہ خودکو مضبوط کرنا چاہتے تھے اس لیے ان کے لیے یہ موقع  ایک غنیمت موقع تھا ۔لہذا انھوں نے پاکستان کی سالمیت کو نظر انداز کر کے امریکہ کے حواریوں میں شامل ہوگئے ۔  کچھ دنوں  کے لیے اس وقت کے امریکی صدر نے ان کے کاندھے پر ہاتھ بھی رکھا اور سب سے بہادر انسان کا  لقب بھی دیا لیکن بعد میں ان کی نظروں سے بھی اتر  گئے اور پاکستان سے بھی در بدر ہوگئے ۔ اپنی در دبدری کے بعد انھوں نے وقفے وقفے سے کچھ راز کھولے اور اس مہم میں شامل ہونے کے حوالے سے یہ بات کہی کہ اس وقت مجھ پر اتنا دباو تھا کہ اگر میں امریکہ کی حامی نہ بھرتا تو امریکہ نے بیک وقت پاکستان اور افغانستان دونوں پر حملہ کردیا ہوتا۔ جنرل مشرف کی اس بات میں کتنی صداقت ہے ۔یہ تو وہ خود جانتے ہوں گے یا امریکہ جانتا ہے ۔  لیکن اتنی بات تو مسلم ہے کہ جس بزدلانہ طریقے سےامریکہ کی  ایک آواز پر لبیک کہا گیا ۔وہ کسی بھی طرح پاکستان کی سالمیت کے لیے مناسب نہیں تھا۔کیونکہ اسی کے بعد  پاکستان مشلکلوں میں گرفتار ہوا ہے۔

لیکن ان مشکلوں میں خود پاکستان کا بھی بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ایک جانب پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی جنگ میں صف اول کا کردار ادا کیا تو دوسری جانب پاکستان نے دہشت گردوں کا تعاون بھی کیا ۔ کیونکہ یہاں دہشت گردی کا مفہوم اور مطلب بدل گیا ۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض  کیا کہ وقت اور حالات اور مقصد کے اعتبار سے دہشت گردی کا مفہوم بدلا گیا ہے۔  پاکستان نے خود اپنے ملک میں اُن  دہشت گردوں کے خلاف  کاروائی شروع کی جو امریکہ مخالف سر گرمیوں میں ملوث تھے یا  ان کے منصوبے امریکہ کے خلاف تھے ۔ ایسے دہشت گردوں کے امریکہ چونکہ دہشت گرد کہہ رہا تھا اس لیے اس لیے پاکستان نے بھی انھیں دہشت گرد سمجھا ۔حالانکہ پاکستان میں ہی  کچھ سیاسی پارٹیاں اور ادارے ایسی جما عتوں کو دہشت گرد نہیں سمجھ رہے تھے ، اسی لیے کچھ لوگ ان کی معاونت  کر رہے تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پورے  طور پر اتنی کاروائیوں کے بعد بھی  پاکستان سے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکی ۔اسی طرح ہندستان مخالف طاقتیں پاکستان میں ہمیشہ سر گرم رہیں ۔ انھوں نے کشمیر کو بہانہ بنا کر دہشت گردی کو جہاد کا نام دیا اور اس طرح جہاد کے نام پر ایک بڑی طاقت جمع کر لی جس کو پاکستان میں کچھ حد تک عوامی سپورٹ بھی حاصل رہا اور ہے اسی کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی در پردہ ایسے دہشت گردوں کی پشت پناہی کی اور آئی ایس آئی اور آرمی کی جانب سے تو انھیں پوری  امداد مل ہی رہی تھی ، اس طرح پاکستان کی دوہری پالیسی کی وجہ سے پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ اور آج بھی پاکستان کی جانب سے کشمیر کے نام پر دہشت گردی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

اب اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے بھی الگ الگ گروپ اور مقصد ہیں ۔ کچھ گروپ اسامہ بن لادن کی حمایتی ہیں اور کچھ گروپ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ ایک گروپ ایسا بھی ہے جو پاکستان میں بدعات  کو ختم کرنے اور اسلامی قانون بحال کرنے کے لیے دہشت گردانہ کاروائیوں  کا سہار الے رہے ہیں ۔ ان کی وجہ سے پاکستان  کی کئی عظیم  خانقاہوں کو دہشت  کا نشانہ بنا گیا ۔ کچھ  دہشت گرد  گروپ حکومت سے ناراض ہیں اس لیے وہ حکومت کو کمزور کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ۔آئے دن ہونے والے بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں یہی عناصر سر گرم ہیں۔ان لوگوں کو بھی کہیں نہ کہیں سے سپورٹ حاصل ہے  ۔ اس لیے  پاکستان میں دہشت گردی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

پاکستان کی یہ تمام متضاد حکمت و عمل کی داستان ہمیشہ چھپی نہیں رہ دسکتی اسی لیے گاہے بگاہے امریکہ نے پاکستان کو آگاہ بھی کیا ۔ جنرل مشرف کے زمانے میں لال مسجد کا واقعہ اسی پس منظر میں سامنے آیا اور آصف زرداری کے وقت اسامہ بن لادن  کے ٹھکانے پر امریکی حملہ دراصل پاکستان کے اسی دہرے رویے کا غماز ہے ۔ اور ابھی جو کچھ افغانستان اور پاکستان میں ہو رہا ہے اور امریکہ کے پاس جو کچھ اطلاعات ہیں ( ہو سکتا ہے اس میں بہت سی اطلاعات خود ساختہ ہوں) اس کی بنیاد پر امریکہ نے کھلے لفظوں میں امریکہ کو دھمکی دی ہے ۔ امریکہ فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے کہا ہے کہ کابل پر حالیہ حملوں میں ملوث شدت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا آلہ کار ہے۔امریکی کمانڈر نے سینیٹ کے ارکان کو ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کابل میں نیٹو اور امریکی فوج کے اڈوں پر حملہ حقانی گروپ نے آئی ایس کی معاونت سے تیار کیا تھا۔ایڈمرل مولن نے سینٹروں کو بتایا کہ ’گیارہ ستمبر کو کابل میں امریکی ایمبیسی پر ٹرک بم حملہ حقانی گروپ نے آئی ایس آئی کی معاونت اور مشاورت سے کیا تھا‘۔انہوں نے مزید کہا کہ اٹھائیس جون کو انٹر کونٹینٹل ہوٹل کابل کے حملے میں حقانی نیٹ ورک کے لوگ ہی ملوث تھے اور اس بارے میں ان کے پاس مصدقہ خفیہ اطلاعات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ گروہ کئی دوسرے چھوٹے مگر کامیاب حملوں میں بھی ملوث پایا گیا ہے۔ادھر لیون پنیٹا نے کہا کہ پاکستان کے فوجی حکام کو واشگاف الفاظ میں بتایا دیا گیا ہے کہ سرحد پار ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔پنیٹا نے کہا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیویڈ پیٹریئس نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل شجاع پاشا سے اپنی حالیہ ملاقات میں یہ پیغام پہنچا دیا ہے۔پنیٹا نے کہا پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا ’ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ اس طرح کے شدت پسندوں کو سرحد پار کر کے ہماری فوجوں پر حملہ کرکے واپس پاکستان اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جائیں۔‘اس کے جواب میں پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ اگر امریکہ کی جانب سے پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کے الزامات لگانے کا سلسلہ جاری رہا تو وہ اپنے اس اتحادی سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آپریشنل سطح پر(امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں) شدید مشکلات

موجود ہیں‘۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہی نتیجہ بر آمد ہو رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون خطرے میں پڑ گیا ہے اس سے دہشت گردی کے خلاف دس سالہ جنگ کا نتیجہ بھی ناکامی میں نکل سکتا ہے۔اور اب تک کی کوششیں بے سود ہو سکتی ہیں ۔ اس کے لیے امریکہ کا جارحانہ رویہ بھی ذمہ دار ہے اور پاکستان کی دہری پالیسی بھی ذمہ دار ہے۔

*****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *