Home / Articles / Jaswant Singh

Jaswant Singh

 

 

جسونت سنگھ پر عتاب  : پس پردہ کون؟

بی جے پی یا آر ایس ایس

 

یہ جمہوری ممالک بھی کیا کیا تماشے دیکھاتے ہیں۔اکثر سچائی بولنے پر  پابندی عائد کی جاتی ہے اور سچ کو جھوٹ بنانے کی ترکیبیں بتائی جاتی ہیں۔لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ سچ کی وکالت کی جاتی ہے ۔ ہندستان میں تسلیمہ نسرین کو پناہ دینے اور اس کی قابل مذمت کتاب کی وکالت کرنے والی یہ بی جے پی جسونت سنگھ کی کتاب پر پابندی لگا کر اور انھیں پارٹی سے نکال کر دراصل آج اپنا اصل چہرہ لے کر عوام کے سامنے آئی ہے ، تسلیمہ نسرین کی کتاب پر  آزادی رائے کی وکالت کرنی والی اس پارٹی کو آج  کیا ہوا کہ اسی نے آزادی رائے پر قدغن لگا دیا۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر پارٹی اور عوام دونوں کوا لجھنوں کا سامنا ہے ۔سچائی ہمیشہ تلخ ہوتی ہے اور یہ بھی ایک کڑوی سچائی ہے ۔ آج کے جمہوری ممالک سیاست کے اسیر ہوتے جارہے ہیں اور کہیں نہ کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست جمہوریت پر حاوی ہوتی جارہی ہے ، مجھے نہیں معلوم کہ سیاست اور جمہوریت کے مابین جو  ہلکی سی لکیر ہے اب اس میں بھی کوئی فرق رہے گا یا نہیں ۔ بات یہی ہے کہ ہندستان میں گذشتہ ایک دہائی سے مذہبی  شدت پسند حکومت پر حاوی رہے اور بی جے پی نام کی سیاسی پارٹی بنیادی طور شدت پسند ہند وتنظیم‘‘ آر ایس ایس ’’کے حکم پر چلتی ہے ،چنانچہ ان کی حکو مت کے آتے ہی ملک میں ہندو انتہا پسندوں کو شہہ ملی اور انھوں نے ہندستان جیسے سیکولر ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سمت میں کوششیں تیز کردیں ، لیکن اسی درمیان پڑوسی ملک نیپال میں ہند وراج کا خاتمہ ہوگیا جو ان کے لیے بڑا دھچکا تھا کیونکہ دنیا میں یہی واحد ہندو ملک تھا۔ لیکن ان کے گرو ان کو  شہہ دیتے رہے اور پرگیہ ٹھاکر جیسی دہشت پسند سامنے آئی  جو مذہب کا لبادہ اوڑھے انسانیت کا خون کرنے لگی۔ اتفاق سے اس الیکشن میں انھیں کراری ہار کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔وہ بوکھلا گئے ، عام انتخابات میں بھی وہ بھوکھلاہٹ کے شکار تھے اسی لیے ورن گاندھی جیسے نوسیکھیئے نیتاوں نے بھی کھلے عام مسلمانوں کے ہاتھ کاٹ لینے کی بات کی ۔ اس وقت تو انھیں بڑا پسند آیا اور یہ سوچ کر خوش ہونے لگے کہ گاندھی فیملی سے ایسا شخص ملا ہے جو ہمارے زہر آمیز لب ولہجے میں بول سکتا ہے اس لیے شروع میں اسے ہوا بھی دینے کی کوشش کی لیکن  جلد ہی گو مگو کی کیفیت میں آگئے کہ کہیں یہ الیکشن میں الٹا اثر نہ کرے ۔ کچھ بڑے اور درمیانے نیتاوں  کو اس کا بھی ڈر تھا کہ ورون گاندھی کہیں ہیرو نہ بن جائے اور ہم سب پیچھے رہ جائیں  گے۔ بات یہ ہے کہ  یہاں ہندستان میں ایسی ہی اوچھی سیاست کرنے والے راتوں رات نیتا بن گئے ہیں ، خواہ وہ  مایا وتی کی بات کریں جو گاندھی جی کو گالیاں دے دے کر آج  وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھی ہیں ، خواہ وہ   اوما بھارتی ہو ں یا خود رتھ پر سوار ہو کر پورے ملک میں نفرت کی آگ بھڑکانے  والے لال کرشن  اڈوانی یہ سب کے سب اوچھی سیاست اور نفرت بھری تقریروں کے سہارے آگے کی صف میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔یہی حال مودی کا ہے وہ تو ان سب سے کئی قدم آگے نکل گئے ۔ پوری ریاست میں ان کی حکومت کے سائے تلے  مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، اُس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے یہ کہا کہ پوری دنیا کے سامنے ملک کا سر شرم سے جھک گیا ۔ پتہ نہیں یہ بات وہ دل سے کہہ رہے تھے یا دل میں کچھ اور اور زبان پر کچھ اور تھا۔اگر وہ یہ مانتے تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکا کہ مہینوں تک ریاست میں خون خرابہ ہوتا رہا اورملک  کے لیے شرمساری کی بات کرنے والے وزیر اعظم ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کر سکے ، کاروائی تو دور کی بات ہے  گجرات میں  مسلمانوں کو تحفظ بھی فراہم نہیں کرسکے ۔ لیکن یہ اس ملک کی بد قسمتی دیکھئے کہ اسی  نریندر مودی کو اسی پارٹی نے اسٹار کمپینر بنا کر پیش کیا اور اس کے بعد ان کا  قداچانک آسمان  کی بلندی تک پہنچ گیا۔ یہ تو اس پارٹی کا نصب العین ہے ۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ آج سے کوئی دس برس قبل تک آر ایس ایس جو کھلے عام بات تک نہیں کرتی تھی ، آج وہی ہندو تنظیم ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم بن گئی اور  بی جے پی اُس کی سیاسی پارٹی ۔ بہت دنوں تک لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش ہوتی رہی اور آج بھی یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بی جے پی  کا  آر ایس ایس سےکوئی الحاق نہیں ہے ۔ مگر دورخہ پن دیکھئے کہ موہن بھاگوت کے اشارے پر وس] ]>

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

2 comments

  1. assalamu alaikum sir,
    aap ka ye article padha bahut achha laga. khas kar ke aap ne jo kai tarah ke mojoow ko relate kya hai wo kafi achha hai. aap ne BJP ka asli chehra benaqab kar dya hai.

  2. bohut sacha aur acha artical hay

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *