Home / Articles / چلو بھر پانی میں ڈوب مرو

چلو بھر پانی میں ڈوب مرو

بس یہی کہوں گی کہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرو 

ماریہ علی۔ڈنمارک

آج میں نے اپنے ‘‘عالمی اخبار ‘‘  کی سائٹ پر بہت ہی دلچسپ خبر پڑہی جس کو پڑھکر پاکستان کے رہنماوں کے لئیے ذہن میں فقط ایک ہی بات آئی کے انکو چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے ۔اپنی بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہاں اس خبر کا مختصر سا زکر کر دیتی ہوں ۔خبر کچھ یوں ہے کے ۔‘‘ مالدیپ کے صدر محمد ناشید اور ان کی کابینہ نے سنیچر کو زیرِ آب اجلاس منعقد کیا جس کا مقصد جزیروں پرمشتمل اس ملک کو موسم کی تبدیلی سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔موجودہ سروے کے مطابق عالمی حدت کی وجہ سے اگر سطح سمندر میں اضافہ ہوتا ہے تو مالدیپ صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے۔بعض سائنسدانوں نے پیشینگوئی کی ہے کہ سمندر کی سطح میں بلندی کی وجہ سے اس صدی کے آخر تک مالدیپ میں انسانوں کا رہنا نا ممکن ہو جائے گا۔صدر ناشید کے مشیر کے مطابق زیر آب کابینہ کے اجلاس کا مقصد سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کے حوالے سے دنیا کو پیغام پہنچانا تھا۔اور ساتھ ہی ساتھ مالی دشواریوں کی وجہ سے ملک کے صدر ماحولیات میں تبدیلی پر یورپ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں بھی شرکت نہیں کر سکیں گے۔انکے بقول کوپن ہیگن میں ہونے والی اس کانفرنس کے لیے اسی صورت میں جائیں گے جب کوئی ان کے سفری اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہو۔
کمال کی بات ہے وہ مالدیپ جو کے کُل تین لاکھ باشندوں کا ملک ہے جس کا انحصار ماہی گیری اور سیاحت پر ہے وہاں کے صدر میں اتنی عقل موجود ہے کے وہ دنیا کو اس طرح اپنا پیغام دے رہا ہے کے ہم کو اس صدی کے آخر تک بے گھر ہونے کا خطرہ لاحق ہے لہٰذا ہماری طرف توجہ دی جائے ۔اسی خبر میں یہ بھی لکھا ہے کے مالدیپ کے صدر نے اپنا محل چھوڑ کر عام سی رہائشگاہ میں رہائش اختیار کر لی ہے مالدیپ میں پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہر شخص کو اب دو ہزار روپے کی پینش دی جارہی ہے۔ اس کام کے لیے چار سو بتیس ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ پیسہ انہوں  نے صدارتی محل کو استعمال نہ کرکے بچایا ہے۔کمال کی کفایت شعاری ہے اس ملک کے صدر کی اور کمال کی دور اندیشی ہے اس پر انکو جتنی بھی داد دی جائے کم ہوگی اور ایک ہمارے پاکستان کے حکمراں اور رہنما حضرات ہیں جو کے پاکستان کو لوٹتے ہیں اور بیرون ممالک اپنی دولت جمع کرتے ہیں ۔ صدر وزیر اعظم اور دیگر وزرا کی عیاشیاں تو بہت دور کی باتیں ہیں اوپوزیشن میں بیٹھنے والے ایک معمولی سے رکن کی عیاشی دیکھ کے ان پر رشک آتا ہے کے سبحان اللہ یہ اوپوزیشن میں رہ کر ایسی عیاشیاں کر رہے ہیں اگر اقتدار میں ہوتے تو کیا ہوتا ؟ ان کو بھی چھوڑیں ایک ایم این اے یا ایم پی اے کے معمولی سے مشیر کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر آنکھوں کو یقین نہیں آتا کےکیا یہ ایک مشیر ہے؟ اوراس مشیر کے استعمال میں گورنمنٹ نمبر کی گاڑیاں ساتھ میں پولیس اہلکار اور پولیس کی موبائلز ایسا لگتا ہے جیسے کے حکومت کے تمام معاملات وہ اکیلا چلا رہا ہے اور تمام تر پاکستان کی ذمہ داری اور فنڈز اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔آج پاکستان کا یہ نہیں پتہ کے آنے والے کل اس ملک میں کب کہاں کیا قیامت برپا ہوگی مگر عیاشیاں اس عروج پر ہیں جیسے کے انکو تو نا کسی کا ڈر ہے نا آنے والے کل کی فکر ؟
آج پاکستان کی یہ حالت ہے کے یہاں یا تو غریب راشن کی قلت سے مر رہا ہے یا روزگار نا ہونے کی وجہ سے خود سوزی کر رہا ہے اور اگر اس سے بھی بچ جائے اور حوصلہ کر کے حالات کا مقابلہ کرے تو وہ بے چارہ ناگہانی آفت کا شکار کسی بم دھماکے یا پھر کسی ان دیکھی گولی کا شکار ہو جاتا ہے ۔جہاں کفایت شعاری عروج پر ہونی چاہئے وہاں بیرونی امداد پر ہر ایک لیڈر کی رال ٹپک رہی ہوتی ہے کے یہ امداد فلاں حکمراں کے زریعہ مل گئی تو ہمارے حصے کا کیا ہوگا ؟ ایک بہت ہی چھوٹا جزیرہ جو کے پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر کے برابر ہے وہاں پر کفایت شعاری کا یہ عالم ہے کے وہاں کا صدر یورپ کی ماحولیات پر منقد ہونے والی کانفرنس تک میں جانے کے لئیے صرف اس لئیے تیار نہیں کے جو پیسہ اس کانفرنس میں جانے پر خرچ ہوگا اگر وہی بچا لیا جائے تو اسکے چھوٹے سے جزیرے کا بھلا ہو جائے گا اور ایک ہمارا پاکستان ہے جہاں کے صدر کو بیرونی ممالک کے بے مقصد دوروں پر اربوں ڈالرز خرچ کرتے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی ۔ وہ مالدیپ جو کے صرف سیاحت اور ماہی گیری پر چل رہا ہے وہاں کا صدر اپنے ملک کی ترقی کے لئیے اور آنے والے خطرات کو مدنظر رکھ کر بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا ہے اور ایک ہمارے پاکستان کے صدر ہیں جو کے پاکستان کو ہر طرح سے تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر چکے ہیں اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بیرونی امداد کے منتظر ہیں اور انکے وزیر مشیر اس امداد پر دانٹ نکالے کھڑے ہیں کے کب یہ امداد آئے اور کب ہم اس پر اپنے دانت گاڑیں ۔
آج پاکستان میں پاکستان کی سلامتی اور حفاظت کی ضامن سمجھی جانے والی پاکستان آرمی کا ہیڈ کوارٹر تک محفوظ نہیں مگر پاکستان کے رہنما اور عسکری قیادت میں یہ جھگڑا چل رہا ہے کے امریکہ کی امداد میں حکومت کو غیر مشروط اور ہم کو شرائط کے ساتھ امداد کیوں دی جا رہی ہے۔آج پاکستان میں رہنے والا بچہ بچہ اور پاکستان سے تعلق رکھنے والا ہر فرد یہ بات بہت اچھی طرح محسوس کر رہا ہے کے پاکستان کا مستقبل بے حد خطرے میں ہے  اور اسکا آنے والا کل خدا نا کرے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں مگر پاکستان کی عسکری قیادت ہو یا کے سیاسی قیادت سب سب کے سب بیرونی امداد کے نشے میں اسقدر پاگل ہیں کے اسکے آنے سے پہلے خرچ کرنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں ۔چاہے وہ سوات آپریشن کی مد میں ہو یا پھر وزیراستان میں شروع کیا جانے والا آپریشن سب میں یہی بات معضوع بحس ہے کے اس امداد پر ذیادہ حق ہمارا ہے تمہارا نہیں ۔اگر ان سے نظر ہٹائیں اور پاکستان کے سابق حکمراں اور موجودہ اپوزیشن رہنماوں کی باتوں پر جائیں تو جو کل کے چور تھے وہ خود کو آج کعبہ کے پیش امام ظاہر کرنے پر تلے دکھائی دیتے ہیں۔
 
جس طرف دیکھو ذاتی مفادات کی جنگ عروج پر ہے کہیں بھی ملکی مفادات کی جنگ نظر نہیں آ رہی ۔آج ان رہنماوں کی نا اہلی کی وجہ سے وہ عوام جو کے پاکستان ذندہ باد کے نعرے لگاتی نہیں تھکتی تھی آج وہی عوام پاکستان سے ذندہ بھاگ کے نعرے لگانے پر مجبور ہو گئی ہے ۔مجھے یہ سوچ کر بہت ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان بے ضمیر دولت کے پچاری رہنماوں  کی وجہ سے پاکستان بھی کہیں عراق اور افغانستان جیسی ریاست کی صورت نا اختیار کر لے ۔پروردگار اس پاکستان کی صدا حفاظت کرے الٰہی آمین

 

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *