Home / Socio-political / کراچی کی ”لیلة القدر“

کراچی کی ”لیلة القدر“

سمیع اللہ ملک

عہدِ خوں رنگ کی خونخواری آخری حدوں کو چھونے لگی؟ لیکن کیا خونخوار کی کوئی آخری حد ہوا بھی کرتی ہے ؟ کیا کوئی ایسا لمحہ آیا کرتا ہے جب دستِ قاتل تھم جائے اور اس کے سینے میں بگولوں کی طرح گردش کرتی درندگی سیر ہو جائے؟ کیا اقتدار کی ہوس میں اندھے حکمرانوں پر کبھی وہ ساعت طلوع ہوا کرتی ہے جب ان کے سنگ و آہن جیسے دلوں میں رحم کی کوئی آبشار پھوٹ نکلے؟ این آراوکے تحت اقتدارقبول کرنے والوں، اپنے آپ کو عالمی طاقتوں کا باجگزار بنا لینے اور ان کی خوشنودی کیلئے خود اپنے لوگوں پر قہر ڈھانے والے فرمانرواؤں کو کب یہ احساس ہوگا کہ بہت ہو چکی، اب آگ، خون اور درندگی کا یہ کھیل بند ہو جانا چاہئے ؟ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی زندہ، متحرک، بیدار اور احساس معاشرے میں ہوتا تو چار سو ایک قیامت بپا ہو چکی ہوتی۔ غضب خدا کا، تین سیاسی جماعتیں جوحکومت میں اتحادی بھی ہیں اپنے اقتدارکوتقویت پہنچانے کیلئے کراچی کوتختہ مشق بناتے ہوئے غریبوں کی بستیوں کو بھسم کر رہے ہیں؟ ان کی اپنی بندوقیں،راکٹ لانچر اوردستی بم اپنے ہی عوام کے پرخچے اڑا رہی ہیں۔

کہرام مچا ہے، کسی کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں۔ کچھ علاقوں میں تومیڈیا وہاں جھانک نہیں سکتا،اس لئے کامل تصدیق محال ہے کہ کتنے غریب الوطن مارے گئے؟ کتنی عورتیں کتنے بچے اور کتنے عام لوگ اس قہر کی بھینٹ چڑھ گئے؟ کتنے غریب دیہاڑی دارمزدور اپنی جانیں گنوا بیٹھے؟ کتنے اغوا ہو گئے؟ کسی کو درست تعداد کا علم نہیں، کوئی ہزار بتا رہا ہے کوئی اڑھائی ہزار اور کوئی اس سے بھی زائد۔ سب کے سب پاکستانی تھے۔ سب کا رشتہ اس مٹی سے تھا۔ سب محمد عربی ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے تھے۔ وہ بھی جن کی وردیاں لہو میں تر ہو گئیں، وہ بھی جو ا قتدارکی ہوس کے پجاریوں کی اندھی گولیوں کاشکارہوگئے اوروہ بھی جونامعلوم قراردیکریاتوکسی سردخانے میں اپنے وارثوں کے منتظرہیں اوروہ بھی جنہیں مخالف جماعت کارکن قرار دے کر بھون ڈالا گیا۔ اس بے رحمی کے ساتھ تو چرند و پرند کا شکار کھیلنے کی بھی آزای نہیں۔ تحفظ یافتہ ایک چکوریا ایک ہرن کو بھی شکار کیا جائے تو مقدمہ بنتا، باز پرس ہوتی، سزا بھگتنا پڑتی ہے لیکن کورنگی ،کٹی پہاڑی اورلیاری کو انسانی شکار گاہ بنالینے والوں کو کیا ہو گیا ہے ؟

اربوں ڈالر کی کرپشن میں ملوث، اپنی کابینہ اورمنظورنظر کیلئے ہنگامی بنیادوں پر بلٹ پروف گاڑیاں درآمد کرنے اور باہمی مفاد کیلئے مفاہمتی آرڈنینس جاری کرنے والوں کے دل میں ان افتاد گانِ خاک کیلئے رحم کی کوئی رمق نہیں؟ دو سال سے جتن ہو رہے ہیں کہ کس طرح آنے والے انتخابات میں بلاول زرداری کوبھٹوکاجانشین منتخب کرایاجائے، بڑے بڑے عالی مرتبت سرکاری اہلکار ہلکان ہو رہے ہیں کہ بلاول کے انتخابی عمل کو کیونکر ہموار بنایا جائے لیکن ایم کیوایم سارے کراچی اورحیدرآبادکواپنی عملداری میں مداخلت تصور کرتے ہوئے اس بات کیلئے قطعاً آمادہ نہیں بلکہ اب تواے این پی بھی اپنے استحقاق کیلئے اس خون کی ہولی میں برابرکی حصہ داربن گئی ہے۔

کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان علاقوں کے چاک گریباں کی بخیہ گری کرے؟ کسی کو احساس نہیں کہ آگ اور بارود کا یہ مکروہ کھیل کتنی خوفناک تاریخ رقم کر رہا ہے اور اس کے کتنے ہولناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؟ کسی کو پاس و لحاظ نہیں کہ یہ بندوقیں،دستی بم،گرینیڈاورراکٹ لانچرکاآزادانہ استعمال ان کے اپنے پیاروں کیلئے بھی تباہی لارہاہے۔ کیا اقتدار کے ایوانوں میں بستی ساری کی ساری مخلوق پتھر ہو گئی ہے؟کوئی ان سے یہ توپوچھے کہ انہیں کیوں مارا جا رہا ہے ؟ کیا وہ باغی ہیں؟ کیا انہوں نے غداری کا ارتکاب کیا ہے ؟ کیا وہ پاکستان سے الگ ہو جانے کی جدوجہد کرنے والے علیحدگی پسند ہیں؟ ہر گز نہیں اُن کا قصور یہ ہے کہ غیرت میں گندھارزق حلال کمانے کیلئے برسوں سے یہاں مقیم ہیں۔ یہاں کی صنعت وحرفت کے پہئے میں اپناخون شامل کرکے اس ملک کی ترقی میں اپناحصہ ڈال رہے ہیں اوراب فطرانے کے نام پربھتہ کی پرچیاں ارسال کی جارہی ہیں اورعدم ادائیگی کی بناء پراس پردستی بموں کی بارش کردی جاتی ہے۔

یادرہے کہ چندبرس پہلے کراچی میں لسانی فسادات پھیلانے کی اس وقت بھی کوشش کی گئی جب سوات اوروزیرستان آپریشن کے دوران ہجرت کرنے والے پختون برادری کراچی میں مقیم اپنے برسوں سے مقیم رشتہ داروں کے پاس پناہ گزیں ہوناشروع ہوئے تو ایم کیوایم کے سربراہ نے ان کودہشتگرد طالبان سے تشبیہ دیتے ہوئے منافرت اور خوف وہراس پھیلاناشروع کردیا حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ افرادقیام پاکستان سے پہلے یہاں روزگارکی تلاش میں یہاں آئے اورانتھک محنت مزدوری کے بعدانہوں نے اپنے کاروبارکووسعت دیتے ہوئے کراچی کواپنامستقل مسکن بنایااوراسی طرح بھارت سے لٹے پٹے (اردوبولنے والے)مہاجرین نے بھی شب وروزکی محنت سے کراچی کے ماتھے پرعروس البلاد کا ٹیکہ سجایالیکن آج انہی کے ووٹوں سے برسراقتدارآنے والے اپنے غیرملکی آقاوٴں کے خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ان کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔

دراصل یہ جانتے نہیں کہ پاکستان کی خاطراپنے جان ومال اورعصمتیں لٹانے والوں کی بھی کچھ روایات ہیں۔اس ملک کی طرف گستاخ نگاہوں سے گھورنے والوں کی آنکھیں نکال لینا ان کی تہذیب کا قرینہ ہے۔ اس دھرتی کونقصان پہنچانے والوں کو مارنا ان کے پُرکھوں کی تعلیمات کی روح ہے۔ وہ غلامانہ اسلوب حیات سے واقف ہی نہیں۔ ان کے کشادہ دلوں میں محبت کا سمندر موجزن ہے ۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے پر وہ اپنی جان بھی، قربان کر دیتے ہیں لیکن گردن جھکانا ان کی لغت سے خارج ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت پرپورایقین تھااورانہوں نے اپنے قائدکی اپیل پراپناتن من دھن قربان کرکے اس آزادملک کی بنیادرکھی لیکن مشیت ایزدی نے قائد کوجلداپنے پاس بلالیا۔محمدعلی جناح کی رحلت کے بعداس کی باگ ڈورایسے افرادکے ہاتھوں میں چلی گئی جوآج تک اس کی قسمت کے ساتھ کھلواڑکررہے ہیں۔اس سے بڑی بدنصیبی اورکیاہوگی کہ اقتدارکے پجاری کراچی میں لسانی فسادات کی آگ بھڑکاکراس کواپنی سیاسی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔

ہم نے تواپنے رب کریم سے یہ وعدہ کیاتھاکہ ہم اس کے نائب کی حیثیت سے اس مملکت میں اس کانظام نافذکرکے اللہ کے ان بندوں کوجوبندوں کے غلام ہوگئے ہیں،ان بندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں لائیں گے لیکن آج ہم غیرملکی آقاوٴں سے ڈیل کرکے این آراوکے تحت سارے ملک کوان کی غلامی میں دینے کے پروگرام پرعمل کررہے ہیں۔ ہمارے حکمران اوران کے اتحادی قصرِ سفید میں بیٹھے شہنشاہِ عالم پناہ کے فرمان کے سامنے اپنی وقعت کھو بیٹھے ہیں بلکہ ہفتہ عشرہ پہلے جہاں ایم کیوایم کے الطاف حسین اپنی پارٹی کے لوگوں کومہینہ بھر کاراشن خریدنے کی تلقین کررہے تھے وہاں بھارت کے من موہن سنگھ سے مہاجروں کودوبارہ بھارت میں قبول کرنے کی درخواست بھی کررہے تھے۔

چندسال پہلے بھارت میں الطاف حسین کی تقریرجس میں انہوں نے قیام پاکستان کوبہت بڑی غلطی قراردیکرپاکستانیوں کے کانوں میں جوپگھلا ہوا سیسہ انڈیلاتھاپاکستانی ابھی تک وہ بھولے نہیں ہیں۔یہ موصوف ہی تھے جنہوں نے نوجوان مہاجروں کوگھرکاسازوسامان بیچ کرکلاشنکوف اوردیگراسلحہ خریدنے کی ترغیب دی تھی۔آج بھی ”یوٹیوب“پرانہی کی جماعت کااجمل پہاڑی جونہ صرف کراچی میں سوسے زائدافرادکی ٹارگٹ کلنگ بلکہ اپنے بہت سے دوسرے ساتھیوں سمیت بھارت میں تربیت کااعتراف کرچکاہے ،ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ آج کراچی میں بڑھکتے آتشکدے کا محرک کیا ہے ؟ صرف اور صرف یہ کہ ہمارے حکمرانوں کو امریکیوں کے سامنے تاب گویائی نہیں۔ پاکستانی افواج نے امریکا کے کہنے پر نہ صرف وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے سے انکارکردیاہے بلکہ تمام امریکی پرائیویٹ کنٹریکٹرزکوپاکستان سے بیدخل کردیاہے اورامریکی سفارتکاروں کی پاکستان میں سرگرمیوں کوانتہائی محدودکردیاہے جس کی بناء پرامریکہ نے سب سے پہلے تمام طے شدہ امریکی امدادکومشروط کردیاہے اورپاکستان کاآٹھ سوملین ڈالرکاوہ بل بھی روک لیاہے جوپاکستانی افواج امریکیوں کے کہنے پرصرف کرچکے ہیں۔

کیا اپنے فیصلے خود کرنے اور ڈکٹیشن نہ لینے کے دعوے کرنے والے حکمران ایسے ہوا کرتے ہیں؟ کیا آزاد خود مختار قوموں کا یہ شیوہ ہوتا ہے ؟ کیا ہنستے بستے بازاروں اور لوگوں سے بھری بسوں پرگولیاں برساتے ہوئے بھی کسی کا دل نہیں کانپتا؟ بے حسی کا عالم یہ ہے کہ پورا پاکستان چپ ہے۔ معمول کے مطابق پُر تعیش افطاریاں ہو رہی ہیں، تقریریں فرمائی جا رہی ہیں، جشنِ فتح منائے جا رہے ہیں، سیاسی حریفوں کو شہ مات دی جا رہی ہے ، چالیں چلی جا رہی ہیں لیکن کسی کے سینے میں یہ خلش نہیں کہ وطن عزیز جل رہا ہے ۔ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور وابستگانِ دربار میں ہرکوئی اپنے مفادات کیلئے عوام کے سامنے مظلوم بن کرپیش ہورہاہے۔ کوئی نہیں جواخلاص کے ساتھ اس خونریزی پر دو آنسو ہی بہا دے۔ آج تک حکمران جماعت حیلے بہانے سے کام لیکر کبھی تین رکنی کمیٹی مقررکرکے اورکبھی طفل تسلیوں سے کام لیکر کسی بھی ٹھوس اقدامات سے گریزکررہی ہے۔

اب تک کراچی کے موضوع پر کوئی اجلاس نہیں بلایاگیااورنہ ہی کسی ایک رکن اسمبلی کو بھی توفیق ہوئی کہ صدائے احتجاج بلند کرتا،کوئی قرارداد پاس نہیں کی گئی، صدر کو متوجہ نہیں کیا گیاکہ لوگوں کو نہ مارو، اس کا کوئی پُر امن حل نکالنے کی کوشش کرو۔ پچھلے دومہینوں سے اقتدار کی برتری کیلئے جنگ جاری ہے۔۔ طالبان کی خون آلود قبائیں لہرا کر ووٹ لینے اور اسلام کے فلک شگاف نعرے بلند کرنے والے مولانافضل الرحمان کوبھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)حقیقی اپوزیشن کے دعویدار اپنے زائچے بنانے میں مصروف ہیں۔دس سال قبل جب امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا اور دو ماہ بعد رمضان المبارک کا مہینہ آگیاتو صدر پرویز مشرف نے بڑی لجاجت کے ساتھ جارج ڈبلیو بش سے اپیل کی تھی” یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے ،میں درخواست کروں گا کہ ایک ماہ کیلئے جنگ روک دی جائے ۔ “ بش نے یہ مطالبہ حقارت سے ٹھکرا دیا تھااور اب بھی رمضان کا مہینہ ہے اورسناہے کہ طاق راتوں میں لیلتہ القدر ہوتی ہے اوراس رات کو آسمانوں سے رحمتوں، برکتوں اور فضیلتوں کا نزول ہوتا ہے ۔یہ بھی سنا ہے کہ ان فسادزدہ علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا ختم ہو چکی ہیں۔ عید پر پردیسی دور دور سے اپنے گھروں کو آتے ہیں لیکن ان جنگ زدہ بستیوں کے لوگ اپنے بچوں کی انگلیاں تھامے گھر بار چھوڑ کر اجنبی سر زمینوں کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ کہاں کی لیلتہ القدر، کہاں کی عید، کہاں کا میل ملاپ؟

یا میر ے رب!!!!!!

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *