نصرت امین ، بانڈی پورا، سری نگر
ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح جموں کشمیر میں بھی اردو زبان وادب کے ساتھ ساتھ اردو صحافت کو فروغ ملا ۔ کشمیر میں اردو سراکاری زبان ہے اس لیے یہاں اردو کے فروغ کے امکانات زیادہ رہے ہیں ۔ یہاں کے لوگ اگرچہ علاقائی زبانوں میں بھی روزمرہ گفتگو کرتے ہیں ۔ لیکن ہر کشمیری کو اردو ضرور آتی ہے یہ ان کی مجبوری بھی ہے کہ وہ اردو جانیں کیونکہ یہاں دفا تر میں اردو زبان ہی میں کام کاج کیاجاتاہے ۔کشمیری اور ڈوگری کے ساتھ ساتھ لوگ اردو کو بھی اسی طرح سیکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں اردو ادب کو کافروغ ملا ۔ ادب کی تما م اصناف میں کشمیریوں کی خدمات موجود ہیں ۔
جہاں تک ارود کی صحافت کی بات ہے تو اس میدان میں بھی کشمیر نے نمایاں خدمات انجام دیئے ہیں۔ کشمیر میں اردو زبان وا دب کے عروج وارتقا کی تاریخ پر جب نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی سے بہت پہلے سے ہی یہاں اردو کو مقبولیت حاصل تھی ، عوام علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو میں ادب تخلیق کرتے تھے اور کشمیر سے نکلنے والےرسالوں میں ان کی تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں ۔( جموں آرکائیو میں آج بھی اس عہد کی دستاویزات موجود ہیں جن میں سرکاری اعلانات اور احکامات جاری ہواکرتے تھے ، اور پرانے اخبارات کی کچھ فائلیں بھی موجود ہیں ) ۔جموں کشمیر میں اردو کی توسیع کے تعلق سے ڈوگر حکمرانوں کا کردار قابل ستائش ہے ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ (۱۸۴۶۔ ۱۸۵۷) ار مہاراجہ رنبیر سنگھ ۱۸۵۷۔۱۸۸۵)کے زمانے میں فارسی ہی سرکاری زبان کے طور پر یہاں بھی استعمال ہوتی رہی ۔ لیکن وہ عوام کی زبان نہیں بن سکی ۔ عوام کے لیے دفاتر میں بھی جس زبان کو استعمال کیا گیا وہ اردو ہی تھی۔مہاراجہ رنبیر سنگھ کا دور حکومت اس سلسلے میں خصوصاً قابل ذکر ہے۔ اس بادشاہ نے نہ صرف ملک کے دوسرے علمی مراکز سے سنسکرت ، فارسی ،اردو۔ہندی اور انگریزی کے دانشور بلا کر متعدد کتابوں کے ترجمے اردو،ہندی ، ڈوگری اور پنجابی زبانوں میں کرائے بلکہ اردو ہندی میں مشترکہ طور پر شائع ہونے والا پہلا اخبار ‘‘ بدیا بلاس’’ ۱۸۶۷ میں جاری کیااسی بادشاہ کی کوششوں کی وجہ سے اردو زبان عوام میں مقبول ہوئی ۔مہارجہ رنبیر کے بعد جب عنان حکومت مہاراجہ پرتاب سنگھ نے سنبھالی تو اس نے تعلیمی اداروں میں اسے ذریعہ ٴ تعلیم کے طور پر متعارف کرایا ۔اور ۱۹۲۴ میں لالہ ملک راج صراف نے ریاست کا پہلا مکمل اردو اخبار ‘‘ رنبیر ’’ جاری کیا ۔ اس اخبار کے اجرا سے ایک بڑ افائدہ یہ ہوا کہ مقامی شاعروں اور ادیبوں کو نشر و اشاعت کا ایک وسیلہ ہاتھ آگیا ۔ اس لیے تمام ادیبوں نے اس اخبار کی حمایت کی اور اس کی ترقی کی کوششوں میں لگے رہے اور اس طرح ان کی تخلیقات اس میں شائع ہوئیں اور وہ عوام میں مقبول ہوئے ۔اس اخبار میں صرف ادبی تخلیقات ہی شائع نہیں ہوتے تھے بلکہ ملک کے سماجی اور معاشرتی حالات پر تبصرے بھی ہوتے تھے اور خبریں بھی شائع ہوا کرتی تھیں۔
مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ (۱۹۲۵۔۱۹۴۷)نے بھی اردو کی سر پرستی کی ۔ انھوں نے ادیبوں اور شاعروں کیی تخلیقات پر انعام و اکرام کا سلسلہ شروع کیا ، دوسری ‘‘رنبیر ’’کے اجرا سے عوام میں اردو کو مقبولیت حاصل ہوگئی تھی۔اس لیے رنبیر سے متاثر ہوکر بے شمار دوسرے اخبارات و رسائل جاری ہوئے ۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ رنبیر کے اجرا کے سبب ہی صحافت کو مقبولیت حاصل ہوئی اور دوسرے اور اس خطے میں اردو صحافت کو فروغ ملا ۔ملک راج نے ۱۹۳۴ میں رسالہ ‘‘رتن ’’ جاری کر کے اسے مزید تقویت دی۔رنبیر اور رتن کے بعد اردو صحافت کو فروغ دینےکا کام نرسنگھ داس نرگس نے ہفتہ وار اخبار ‘‘ چاند’’ ۱۹۳۷ اور ‘‘ پریم ’’ ۱۹۴۳ میں جاری کر کے کیا۔ اس کے علاوہ ڈوگر راج میں انگریزوں نے بھی اردو زبان میں دلچسپی دیکھائی یہ ان کی مجبوری بھی تھی ۔ ان کی سرپرستی میں اردو کے دو رسالے نکلے ۔ رسالہ ‘‘ خدمت ’’ اور ‘‘ آئینہ ’’ یہ رسالے اگرچہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے خبری مواد سے خالی تھے مگر ان سے اردو صحافت کو فروغ ضرور ملا ۔ ان رسالوں میں صحت کے علاوہ معاشرتی مضامین ہوتے تھے۔پروفیسر ظہورالدین نے اپنی کتاب Development of Urdu language and literature in Jammu region میں لکھا ہے کہ آزادی سے قبل جموں کشمیر سے تقریباً سو اخبارات و رسائل نکلتے تھے ۔
آزادی کے بعد بھی اردو صحافت ارتقا پذیررہی ۔ تقسیم ہند کے المیے سے پورے معاشرے کو نقصان ہوا ۔ صحافت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے لیکن یہ سفر جاری رہا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ آزادی کے بعد سب سے پہلے ہم جس اخبار کا نام لے سکتے ہیں وہ ‘‘ آفتاب’’ ہے جو ۱۹۵۶ میں شروع ہو ا او ر آج تک اسی تزک و احتشام سے جاری ہے اور ابھی کشمیر کا سب سے زیادہ مقبول اخبار ہے ۔ اس کے علاوہ کشمیر سے نکلنے والےاہم اخبارات کے نام اس طرح ہیں :
کشمیر عظمیٰ وادی کی آواز الصفا
ندائے عام روشنی سری نگر ٹائمس
کشمیر ریز تعمیل ارشاد چٹان
رہبر اور کئی ہفتہ وار ی ماہانہ رسائل بھی ہیں ۔