Home / Socio-political / کوئی ہے جو اِن کو سمجھائے؟

کوئی ہے جو اِن کو سمجھائے؟

کوئی ہے جو اِن کو سمجھائے؟

سمیع اللہ ملک ، لندن

وہی عہدِ خوں رنگ کی لہو نوشی،وہی چار سو بکھرے ہوئے لاشے،وہی کٹے پھٹے انسانی اعضائ، وہی لہو میں رنگین تار کول کی سڑکیں،وہی درودیوار سے چپکے انسانی گوشت کے لوتھڑے، وہی آہیں،وہی چیخیں،وہی سسکیاں، وہی آنسو،وہی رسمی بیانات،وہ کیفر کردار تک پہنچانے کے فرسودہ اعلانات،وہی دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑ دینے کا عزم،وہی جگر خراش حربے،وہی نمک پاش ردعمل۔کوئی کہاں جائے؟کس کی زنجیرِ عدل ہلائے؟ کس سے جان کی امان کا تقاضا کرے؟کس کے سامنے ہاتھ جھوڑے کہ خدارا، اس ملک کی فکر کرو، خدارا ،اپنی ذات کے خول سے باہر نکلو،خدارا، اس خوبصورت اور وسائل سے مالامال پاکستان کو اپنی ہوس اقتدار کی بھٹی میں نہ جھونکو،خدارا ،اسے عالمی سازشوں کا اکھاڑہ نہ بناﺅ،خدارا امن،مفاہمت، خیر سگالی،ہم آہنگی اور قومی اتحاد کی کوئی ایسی مخلصانہ کوشش کرو کہ آگ اوربارود کا یہ جہنم ٹھنڈا ہو،خدارا ،امریکہ کو بتاﺅ کہ اس کے کروسیڈ کا دست و بازو بن جاناہمارے لئے مہلک ثابت ہو رہا ہے،خدارا، اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرو اور فتنہ گر عالمی طاقتوں کو بتاﺅ کہ بہت ہوچکی،اب تمہاری خاطر اپنے عوام کی زندگیوں سے نہیں کھیل سکتے۔

وہ اولیائے کرام جواس خطے میں اسلام ‘امن وآشتی کاپیغام لیکر آئے تھے‘جنہوں نے محبتوں کے دروس سے دلوں کی کایا پلٹ کررکھ دی تھی آج ان کے مزارات پربھی لوگوں کوامان نہیں مل رہی۔مساجد،امام بارگاہیں‘اسکول وکالج‘بچوں کے پارک اورہنستے بستے شہروں کی شاہراہوں پرمعصوم اوربے گناہ انسانیت کاشکار کیاجارہا ہے۔قیام پاکستان کے وقت بھی انگریزوں اور ہندوﺅں کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے بہت سے بے گناہ انسانو ں کی جانیں موت کی بھینٹ چڑھیں بہرحال اللہ کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کے دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہونے کے بعد یہ سوچا جارہا تھا کہ خدا کی وحدانیت پر یقین رکھنے والے کلمہ گو کم از کم اس سلطنت میں حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں گے اور ہوا بھی ایسے۔جنرل ایوب کے دور میں جب چینی کے ریٹ میں معمولی اضافے پر راولپنڈی کے ایک کالج کے دو طلبا کی ہلاکت ہوئی تو پورا پاکستان ہل گیا جس سے ایک مضبوط ڈکٹیٹر کی حکومت ڈانوا ڈول ہو کر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان اور پھر بلوچستان میں کچھ انسانی جانوں کے تلف ہونے کو قوم نے نہایت حقارت سے دیکھا۔ لیکن انسانوں کے سفاکانہ قتل کا جو سلسلہ حالیہ چندسالوں میں پاکستان میں شروع ہوا ہے اس کی پاکستان کی ۳۶ سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

 اس لحاظ سے یہ دور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دورہے جس نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے غریب لوگ جو آٹھ دس افراد کے کنبوں کے واحد کفیل ہیں،گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں اپاہج ہو چکے ہیں ان کے چولہے بجھ گئے ہیں اس ناکامی پر کسی وزیر، وزیرِ اعلیٰ، گورنر یا قومی لیڈر نے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ ہرسال تین سوارب روپے سے زائدکی کرپشن کاریکارڈقائم کرکے اب بھی عوام کی محبت کادرداپنے دل میں بسائے بیٹھے ہیں۔کیایہ ہلاک کنند گان کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی نہیں؟ انسانی لاشیں اور ان کا خون ابھی سڑکوں پر بکھرا پڑا ہوتا ہے اور اس پر قومی سوگ منانا تو در کنار ٹی وی چینلوں پر ناچ گانا بند نہیں ہوتا اورآج تک قومی قیادت کسی کے جنازے میں نہیں پہنچ پائی اورجمہوریت کے نام پرخوشحال پاکستان کےلئے اپنے آپ کو قوم کا ناگزیر مسیحا کے طور پیش کر رہے ہیں۔ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیامیں خوشحالی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ۱۱۰ممالک کی خوشحالی کی فہرست میںپہلی مرتبہ پاکستان ۹۰۱ویںنمبرپرچلاگیا ہے‘صرف زمبابوے اس کے بعد ہے۔

تو پھر کون ہے جسے پاکستان کی خوشحالی سے چڑ ہے؟کون ہے جو اپنی مرضی کے غلام پاکستان کے ایوانِ اقتدارمیں تعینات کرتاہے؟کون ہے جوخلقِ خدا کو اپنے گھروں میں مقید اورپایہ زنجیر دیکھنے کا آرزو مند ہے؟کون پاکستان کی حقیقی عوامی قیادت سے خوفزدہ ہے اور گملوں میں لگی پنیری کو ہی زیب گلستاں دیکھنا چاہتا ہے؟کراچی کی تازہ واردات کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟اسی کراچی میں بے نظیر بھٹوکے والہانہ استقبال میں آنے والے ڈھائی سو سے زائدجیالوں کے پرخچے اڑادیئے گئے تھے اورآج تک ان کے قاتلوں کاکوئی سراغ نہیں مل سکا۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہرنامدارآصف علی زرداری نے ایک سرکاری ایجنسی کو ذمہ دار قرار دیا تھااوراس کے سربراہ کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا؟لیکن آج تووہ ملک کے سب سے بڑے منصب پربراجمان ہیں‘ملک کے تمام وسائل ان کے ایک ہی اشارہ ابرو کے منتظر ہیں لیکن اقتدارسنبھالتے ہی اپنے ملک کے تمام تحقیقاتی اداروں پربے یقینی کااظہارکرتے ہوئے نظیربھٹوکے قتل کی تحقیق اقوام متحد ہ کے سپردکردی اوراب اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ پربھی شکوک کااظہار کردیا گیاہے اوربے نظیربھٹوکے قتل کے مقدمے کوبھی داخل دفترکردیا گیا ہے۔آخر ملکی خزانے کی کثیررقم کوضائع کرنے کااختیارکس نے دیا ہے ؟اپنے آقاوں کے حکم پرپاکستان میں ہونے والی تمام دہشتگردی کوالقاعدہ کے کھاتے میں ڈال کرپاکستانی عوام سے حقیقی دشمنوں کے چہرے چھپانے کی کوشش آخر کب تک جاری رہے گی؟

کیا یہ ”القاعدہ“کی کاروائی ہے؟امریکہ یہی چاہے گاکہ یہ غارتگری بھی نام نہاد اسلامی شدت پسندوں اور القاعدہ یا طالبان عناصر پر تھوپ دی جائے۔اُس کےلئے یہ ایک سہانا خواب ہے کہ ہر خونیں واردات کا رخ،امریکہ کے دشمنوں کی طرف موڑ دیا جائے اور کسی ثبوت کے بغیر ان پر سنگ زنی شروع کردی جائے۔ایک حلقہ اس سفاکی کے ڈانڈے اُن کے ساتھ ملا رہا ہے جو کراچی کو پر امن دیکھنے کے روادار نہیں۔پاکستان دشمن کاروائیوں میں ملوث غیر ملکی ایجنسیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جارہا جو ہمارے آس پاس خاصی سر گرم ہو چکی ہیں اور جن کے لئے پاکستان کے کسی بھی حصے میں کارروائی کرنا مشکل نہیں رہا۔ہمیشہ کی طرح ہم کبھی نہ جان پائیں گے کہ قاتل کون ہے؟کہاں چھپا بیٹھا ہے؟ کس کی پناہ میں ہے؟

مجرم اور محرک سے قطع نظر کراچی کے تازہ خونی کھیل نے بہت سے سوالوں کو تازہ کردیا ہے۔بہت سے نئے سوالات اٹھا دئیے ہیں۔سب سے بڑا،اہم اور بنیادی سوال تو یہی ہے کہ کیا ہمیں آنکھیں بند کر کے امریکہ کی بھڑکائی ہوئی جنگِ دہشت گردی کا ہر اول دستہ بنے رہنا چاہئے؟شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس کا دو ٹوک،واضح اور فوری جواب سوچناہوگا۔نو سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ان نو سالوں میں ہم امریکی کروسیڈ کو اپنا بہت سا خون دے چکے ہیں۔ہمارے اتنے فوجی جوان جاں بحق ہو چکے ہیں جتنے امریکہ کے نہیں ہوئے۔جتنے ۵۶۹۱ءاور ۱۷۹۱ءکی جنگوں میں نہیں ہوئے۔قبائلی علاقے باقاعدہ میدان جنگ بنے ہوئے ہیںجہاں فضائیہ استعمال کی جارہی ہے۔حکومت،امریکہ کی اتحادی ہے اور امریکہ نفرتوں کی علامت۔سو پوری پاکستانی قوم اس بے راہ،بے سمت اور بے مقصد جنگ کے شدید خلاف ہے۔صدر مشرف کی جن ظالمانہ پالیسیوں نے انتہا پسندی اور عسکریت کو فروغ دیا تھاوہ اب بھی جاری وساری ہیں اوراب اس آگ کی لپٹیں صوبہ سرحد کے بندو بستی شہروں سے نکل کرسارے ملک میں آپہنچی ہیں۔سوات جیسا سیاحتی مقام اب بھی ایک جداگانہ منظر پیش کر رہا ہے۔کراچی سے اسلام آباد تک کوئی شہر، کوئی عمارت، کوئی تقریب بم دھماکوں سے محفوظ نہیں۔موجودہ حکمران بوجوہ امریکی جنگ دہشت گردی کو نہ صرف ایک مشن کے طور پر اپنا چکے ہیں بلکہ اس مشن کو اپنے اقتدار کے لئے لازم و ملزوم بھی سمجھنے لگے ہیں۔

ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ موجودہ حکومت نے قصرسفید کے فرعون کے ساتھ حالیہ اسٹریٹجک مذاکرات میں قصرِ اقتدار میں مزید رہنے کےلئے صدر مشرف ہی کی طرح امریکی کروسیڈ کی اطاعت اور امریکی اہداف کی تکمیل کا بیڑا اٹھا لیاہے۔موجودہ حکومت خود ہی اس سوال کا بہتر جواب دے سکتی ہیں کہ انہوں نے یہ راستہ اپنی کس کمزوری کے سبب چنا لیکن حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے پچھلے تین برس میںواشنگٹن کے متعدد دورے کئے اور وہاں کی جنگجو لیڈر شپ کو باور کرایا کہ وہ جمہوریت کے نام پرمشرف سے بھی دو ہاتھ آگے جا کر وہ کچھ کرسکتے ہیں جو کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں۔اسی تناظر میں بے نظیربھٹو نے ”این آراو“کی ڈیل سے پہلے اس بدنام زمانہ معاہدے کے خالقوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدارملتے ہی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے اوباشوں کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک رسائی مہیاکریں گی اور اسی پس منظر میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھاکہ ضرورت پڑی تو امریکہ کو قبائلی علاقوں میں براہ راست کاروائی کی اجازت بھی دے دیں گی۔یہ تووہ بیانات تھے جو پریس کو دئیے گئے تھے۔پسِ پردہ کی مفاہمتوں اور ضمانتوں سے کوئی واقف نہیں۔بلا شبہ بے نظیر بھٹو مقبول عوامی رہنما تھیں لیکن وہ پاکستان میں امریکی اہداف کی پاسبان، وار آن ٹیرر کی تازہ دم سپہ سالار اور صدر پرویز مشرف کے بازوئے شمشیر زن کے طور پر داخل ہوئیںتھیں۔یہ ایک طرح کی سیاسی کمک تھی جو امریکہ نے اپنی جنگ لڑنے والے جرنیل کو بھیجی تھی۔یہ ایک بڑا ہی خوفناک اور کسی حد تک اشتعال انگیز پیغام تھا جو افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کے خلاف سرگرم عناصر کو بھیجا گیاتھا۔قارئین!آپ نے پچھلے تین سالوں میں خودمشاہدہ فرمالیا کہ عدالتِ عالیہ کوخودآگے بڑھ کرڈاکٹرعبدالقدیرکوتحفظ فراہم کرناپڑا اورباقی کے تمام معاملات آپ کے سامنے ہیں‘یہی وجہ ہے کہ ہماری سپاہ کوہردوسرے دن شمالی وزیرستان میں کاروائی کاحکم صادرکیاجاتاہے اورہم ابھی تک یہ کہہ کران سے وقت حاصل کررہے ہیں کہ جب مناسب وقت ہوگاتوہم شمالی وزیرستان کوتاراج کریں گے۔

کیا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ واشنگٹن کے اس پیغام کی تعمیل میں تاخیرکاجواب ہیں؟یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اتنی بات طے ہے کہ پاکستان کو پائدار امن سے ہمکنار کرنے،تشدد اور شدت پسندی کا خاتمہ کرنے اور سیاسی استحکام کی خاطر جمہوری منزلوں کی طرف بڑھنے کےلئے پینٹاگون کے اتحادیوں کو قوی کرنے کے بجائے اُن معتدل اور میانہ رو سیاسی عناصر کو تقویت دینا ہوگی جو ملک اور قوم کو اس بھنور سے نکال سکیں۔حالیہ اسٹریٹجک مذاکرات کی شکل میں تازہ امریکی کمک،دراصل آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔یہ امن ،مفاہمت اور یکجہتی و ہم آہنگی کی نہیں، امریکہ کی خوشنودی خاطر کے لئے اپنے گھر کو آگ لگانے اور اپنے پیاروں کے لہو کو قصرسفید کے رخساروں کا غازہ بنانے کی بے حکمتی ہے۔جب تک یہ بے حکمتی ہی حکمت اولیٰ بنی رہے گی ،ملک جلتا رہے گا خون بہتا رہے گا۔ کوئی ہے جو ان کو سمجھائے؟

اک مستقل عذاب کو سر پر بٹھا لیا     اور کہہ ر ہے ہیں‘ درد سے دامن چھڑا لیا

اس سادگی پر داد طلب ہیں جناب شیخ     چوروں کو احترام سے گھر میں بلا لیا

ان کو کہاں حرم کا تحفظ عزیز تھا     ارض وطن کو بےچ کر خود کو بچا لیا

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *