Home / Socio-political / کوسی کلاں کا فساد منظم سازش اور طے شدہ حکمت عملی کا نتیجہ تھا

کوسی کلاں کا فساد منظم سازش اور طے شدہ حکمت عملی کا نتیجہ تھا

کوسی کلاں کا فساد منظم سازش اور طے شدہ حکمت عملی کا نتیجہ تھا

تیشہ فکر عابد انور (کوسی کلاں کا دورہ کرنے کے بعد)

  آرایس ایس،اس کی ذیلی تنظیمیں اور اس کا سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی نفرت کی کھیتی کرنے میں بہت ماہر ہے اور اپنی ہر کامیابی کیلئے اسی کاسہارالیتی ہے۔ آزاد ہندوستان میں جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ان تنظیموں نے یہی طریقہ اپنایا ہے۔ پہلے فسادات میں جانی نقصان زیادہ ہوتاتھا لیکن اب جانی نقصان پرکم مالی نقصان پرزیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ اب ان فاشسٹ تنظیموں نے اپنے طریقہ کارمیں تبدیلی کرلی ہے کیوں کہ فسادات میں ہر جگہ ان کے رول ہونے کی وجہ سے ان کی بدنامی زیادہ ہوتی تھی۔ملک و بیرون ملک ان تنظیموں پر انگلیاں اٹھنے لگی تھیں اور سخت شرمندی کا بھی سامنا ہوتا تھا۔ آرایس ایس کا نیا نشانہ مسلمانوں کو اقتصادی اعتبارسے تباہ کرنا ہے اس کے لئے فساد سے بڑھ کر کوئی بہترین ذریعہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس دوران پولیس اور انتطامیہ پر آرایس ایس کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ہر جگہ فسادمیں یہی دیکھا گیا کہ پولیس نے فسادیوں کوآڑفراہم کیا اور ان کی تحفظ کی ہے۔ کوسی کلاں میں بھی یہی ہوا ہے۔ فسادی پولیس کے سامنے مسلمانوں کی دکانوں اورمکانوں کو آگ کے حوالے کرتے گئے لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے علاوہ کوسی کلاں میں فسادیوںنے سب سے زیادہ مالی اعتبارسے نقصان پہنچایا۔ یکم جون ۲۰۱۲ کو ہونے والا فساد درحقیقت ہوا نہیں تھا انجام دیا گیا تھااوراس کی تیاری پہلے کرلی گئی تھی۔آرایس ایس اور اس سے وابستہ افرادایسے موقع پرکوئی نہ کوئی شوشہ ضرور چھوڑتے ہیں یا کوئی ایسی ًحرکت ضرور کرتے ہیں جس پر مسلمان ردعمل کا اظہار کریں۔ اس دن بھی یہی ہواتھا۔مسلمانوں کو اقتصادی اعتبار سے تباہ کرنے کے عمل کا یہ فساد ایک حصہ تھا۔ اس میں بی جے پی سے وابستہ مقامی لیڈران، بیوپارمنڈل،تعلیمی ادارہ چلانے والے یہاں تک کے بی ایس پی سے وابستہ ایک سابق وزیر نے انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا۔

                فسادات کی تحقیقات کرنے والی ٹیم اس تفتیشی ٹیم میں اسٹوڈینٹس فار ریزسٹنس (ایس ایف آر) مرتنجے کمار (ایس ایف آر) ارون (ایس ایف آر)دپانکر (سماجی کارکن) منف (جے این یو)عابدا نور (کالم نگار) طارق انور (جنر ل سکریٹری بہار سہیوگ سماج)افضل (صحافی)شامل تھے، نے برسرموقع ،گھر گھرجاکر اور متاثرہ افراد سے ملکرفسادات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس ایک لاکھ آبادی والے قصبہ میں مسلمانوںکی آبادی ۲۰ ہزار ہے۔ تعلیمی اور اقتصادی اعتبارسے کمزور مسلمانوں کو یہاںسے نکالنے کے منصوبے کے تحت یہ فساد کیا گیا تھا۔ اس ٹیم کو کوسی کلاں کے متاثرین نے بتایا کہ معاملہ یہاں سے شروع ہوا کہ سرائے شاہی مسجد کے گیٹ پر رکھے شربت کے ٹب میں دیبو مہرولیا جس کی پرچون کی دکان مسجد کے سامنے ہے پیشاب کرکے ہاتھ دھولیا تھا۔ جس پر کچھ کہا سنی ہوگئی اورشیخ خالدعلی نامی شخص نے اسے تھپڑمار دیا۔( شیخ خالد علی یہاں بارسوخ انسان ہیں اور زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیشے سے انجنےئر ہیں اس فساد میں ان کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے اوراب آرایس ایس والوںنے ان پر آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہونے کاالزام بھی لگانا شروع کردیا ہے) بات آئی گئی سمجھ کرمسلمان مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے چلے گئے۔ سرائے شاہی مسجد کے آس پاس اکثریتی آبادی ہے ۔دیبومہرولیا نامی شخص نے کوسی کلاں میں واقع بجرنگ دل اکھاڑہ کے ارکان کو بلالیا۔ نماز ختم ہونے کے بجرنگ دل اکھاڑہ کے ارکان نے مسجد پر پتھراؤ شروع کردیا۔۱۰:۲  پر پولیس کو اطلاع دی گئی جب کہ پولیس چوکی اور تھانہ کی دوری سو میٹر ہے لیکن پولیس تین بجے بعد آئی اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ اس کے علاوہ ریپیڈ ایکشن فورس کو فسادیوں نے گمراہ کرکے دوسری جگہ بھیج دیا ۔ اس کے بعد بھگوت روہیلا جو کوسی کلاں میونپسلپٹی کے چیرمین کیلئے بی جے پی کی طرف سے انتخاب لڑ رہا تھا، بنٹی بیج والے اور کشن پنڈت نے افواہ پھیلانی شروع کردی کہ مسلمانوں نے ہندو لڑکوں کو جلادیا یا ہندو لڑکی کی عصمت لوٹ لی گئی۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے یہ افواہ بھی پھیلائی کہ مسلمانوں نے ہندو لڑکی کو اٹھاکر لے گئے ہیں اور برہنہ پریڈ کرارہے ہیں۔ پھر کیا تھا قرب و جوار کے ۸۴ گاؤں کے فسادیوں نے کوسی کلاںپردھاوا بول دیا۔ پیٹرول پمپ سے تیل بھروایا اور ٹریکٹر میں رکھے ڈرم میں بھر کر مسلمانوں کے گھروں اورمکانوںکو آگ حوالے کرنے لگے۔ کوسی کلاں بیوپارمنڈل کا معاون صدر ہری بچھوریا نے اس فسادکی آگ بھڑکانے میں اہم رول ادیا کیاتھا۔

                متاثرین نے ٹیم کو یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو چن چن کر پہلے لوٹا گیا اور پھر انہیں آگ کے حوالے کردیا گیا۔ اس فساد میں مسلمانوں کے دیڑھ سو سے زائد مکان اور دکانوں کو لوٹ کر جلادیا گیا یہ دوکان اور مکان بغیر مرمت اورتعمیر نو کے کسی قابل نہیں ہیں۔متاثرین نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے چھت سے چھلانگ لگاکر کس طرح اپنی جانیں بچائیں ورنہ مرنے والوں کی تعداد سو سے زائد ہوسکتی تھی۔ ٹیم نے تمام جلے ہوئے مکانات اور دکانوں کو دیکھا ۔ فسادیوں نے مسجد، مدرسہ اور یہاں تک ہسپتال کو بھی نہیں بخشا اور سب کو آگ کے حوالے کرتے گئے۔ فسادیوں نے حسب سابق اسی طریقہ کو اپنایا کہ مسلمانوں کو اقتصادی طور پر زیادہ سے زیادہ مفلوج کردیا جائے۔ متاثرین نے یہ بھی بتایا کہ فسادیوں نے مسلمانوں کی جلی ہوئی دکانوں اور مکانوں کا ملبہ ہندو ؤں کی دوکانوں اور مکانوں کے سامنے رکھ کر یہ دکھانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں نے ہندو کی دوکانوں اور مکانوں جلادیا ہے۔ ٹیم نے پایا کہ مسلم علاقے میں جو ہندو کی دکان یا مکان ہے وہ سب محفوظ ہیں اور ہندو کے علاقے میں جو مسلمانوں کی دکان یا مکان ہیں وہ سب جلی ہوئی حالت میں ہیں۔ ٹیم کو متاثرین نے بتایا کہ اس فساد کی جڑ میں نہ صرف مایاوتی حکومت  میں سابق وزیر زراعت لکشمی نارائن چودھری کا مکمل ہاتھ ہے بلکہ وہ ان کا بھتیجہ دیو بذات خود اس میں شریک تھے  جس کی وجہ ان پر دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لکشمی نارائن نے مسلمانوں کی قبرستان جو نیشنل ہائی وے نمبر 2 پر واقع ہے 27 ایکڑ پر قبضہ کر لیا ہے جس مسلمانوں نے ان کے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے اور اس کے علاوہ اس علاقے کے مسلمانوں نے حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران لکشمی نارائن کو ووٹ نہیں دیا تھا جس کا بدلہ انہوں نے مسلمانوں سے لیا ہے۔ٹیم کو متاثرین نے یہ بھی بتایاکہ بیر بہادر نے’ ون مین آرمی’ کا کام کرتے ہوئے کم از کم ۵۰، ۶۰ دکانوں میںآگ لگایا۔ تین بجے سے رات کے دس بجے تک فسادی کوسی کلاں کے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرتے رہے اورانتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔

                کوسی کلاں میونسپلٹی ۲۵ وارڈوں پرمشتمل ہے۔ جس میں وارڈ نمبر ۸، ۱۷، ۲۲، ۶ اور ۴ میںمسلمانوںکی آبادی اچھی خاصی ہے۔ جو وارڈسب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں وارڈنمبر ۱۵، ۱۶، ۲۵، ۶، ۸ اور چارہیں۔ سرائے شاہی جہاں سے فساد شروع ہوا تھا وہ وارڈ نمبر ۱۵ میں ہے۔ اس سے قبل بھی معمولی فساد ہوچکا ہے ۔ ۱۹۸۲ میں بھی فساد ہوا تھا جس میں ۱۸ دن تک دکانیںبند رہی تھیں۔ اس کے بعد ۲۰۰۱ میںفساد ہواتھا۔کوسی کلاں کے باشندوں نے الزام لگایا کہ اس میں لکشمی نارائن چودھری نے ہی گولی چلائی تھی۔ اس فساد میں تین مسلمانوں سمیت چار افراد ہلاک اور36 افراد زخمی  ہوئے ہیں جو کہ تقریباً تمام مسلمان ہیں۔ ہلاک ہونے والا ایک غیر مسلم ہے وہ بھی دھوکے میں مارا گیا کیوں کہ وہ لنگی کرتا پہنا ہوا تھااور مسلمانوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ا اور مسلمانوں کے ساتھ ٹھیلہ لگاتا تھا۔دو نوجوان جڑواں بھائی کو آگ میں جلاکر مارا گیا اور جلانے سے پہلے ان کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر کاٹے گئے تھے ۔ تیسرا ہلاک ہونے والا صلاح الدین کو فسادی گھر سے کچھینچ کر لے گئے ، گولی ماری اور پھر آگ میںجلا کر مار ڈالا۔فساد کے بعد مسلمانوں کو اقتصادی ناکہ بندی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا اور تقریباً 22 دن دکانیں بند رہیں۔ مسلمانوں کو ہندو کوئی سامان نہیں بیچتے تھے جب کہ وہ ہندوؤں کو سامان فروخت کر رہے تھے۔دوسرے اضلاع کے مسلمانوں یا تنظیموں نے ان لوگوں کو ضروریات کی چیزیں پہنچائیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو یہاں ہر شعبے میں امتیاز کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو یہاں اسکول ششو مندر اور ششوودیا مندر یہاں تک مسلمانوں کی زمین پر قائم مہاویر دگمبر جین اسکول میں بھی داخلے نہیں ملتے۔ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ یہاں کے حالات اس وقت تک اچھے جب تک یہاں ششومندر نہیں تھا۔ جب سے ششو مندر کھلا ہے آئے دن کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتاہے۔ متاثرین مسلمانوں نے یہ بھی بتایاکہ ششو مندر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کیا جاتاہے ا ور اس اسکول میںہتھیاروں کا ذخیرہ بھی ہوتا ہے۔ ایک طالب نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایاکہ’’ ششو مندر کے پرنسپل منا شرمانے کہاکہ ہم اسکول میں مسلمانوں کو داخلہ نہیں دے سکتے کیوں کہ اس کے بعد دو آئیںگے، پھرتین آئیں گے اور اس کے بعداور آئیںگے اورپھروہ ہماری سرگرمیاں جان جائیں گے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اسکولوںمیں مسلم لڑکیوںکو داخلہ دینے میں انہیں کوئیَ قباحت نظرنہیں آتی اور وہ آرام مسلم لڑکیوں کا داخلہ کرلیتے ہیں۔ اس سے ان کا ایک اہم مقصد پورا ہوتا ہے۔

                مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر امتیاز کا سامنا ہے ۔ مسلمانوں سے ہاؤس ٹیکس کے معاملے میں امتیازی برتا جاتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مسلمانوں سے ہاؤس ٹیکس 410 روپے لئے جاتے ہیں جبکہ ہندوؤں سے 210 روپے۔مسلمان یہاں زیادہ تر مویشی کے خریدوفروخت، ٹائر کا کام،لوہا کا کام اورپرچون کاکام کرتے ہیںاورزیادہ تعداد مزدوروںکی ہے۔ یہ قصبہ متھرا روڈ پرواقع ہے قومی شاہراہ نمبر دو کے کنارے آباد ہے۔ ہائی وے پرجتنی بھی مسلمانوں کی دکانیں تھیں وہ سب جلادی گئی ہیں۔ جلانے سے پہلے اس سے سامان کو لوٹاگیا۔ اس فسادمیں میڈیا کا گھناؤنا چہرہ بھی سامنے آیا۔ میڈیا نے مسلمانوں کے نقصان اور مسلمانوںکے جلے ہوئے دکانوں اور مکانوں کو ہندوؤں کا مکان بتاکر مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلانے کی کوشش کی ۔ہندی ویب سائٹ پر کوسی کلاںسے متعلق خبریں اور مضامین دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ ہندی کے تمام بڑے اخبارات نے ہندوؤں میں اشتعال پھیلانے کیلئے یکطرفہ خبریں شائع کیں۔ کوسی کلاں کے باشندوںنے ان ہندی اخبارات کو فون، فیکس، ای میل کے ذریعہ حقیقت سے آشکارا کرنے کی کوشش کی لیکن کسی اخبار نے اس پرکوئی توجہ دی اور ان کا نظریہ مسلم دشمن ہی رہا۔ ایک ہندو کے اعتراف سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ کوسی کلاں میں قرب و جوار کے گاؤں والے آئے تھے اور انہوں نے کہا کہ’’ اگر ۸۰ گاؤںوالے نہیں آتے تو مسلمان ہمیں مار ڈالتے ‘‘۔ اس سے تویہ صاف ہوگیا کہ ۸۰گاؤں والوں نے فساداورلوٹ مار میںحصہ لیاتھا۔ اگر مسلمانوں بڑے پیمانے پر مارنے آئے تھے تو کوئی ہندو زخمی کیوں نہیں ہوا صرف مسلمانوںکا ہی مالی اورجانی نقصان کیوں ہوا۔ دنیش مالویہ کے گودام میںآگ لگانے کی بات کہی گئی ہے تو ابتداء دودن تک دینش مالویہ نے یہ کہا کہ ان کے گودام میں مسلمانوںنے آگ نہیںلگائی بلکہ ہندوؤںنے لگائی ہے۔ کیوں کہ گودام میں آگ پیچھے سے لگائی گئی تھی اور اورپچھے ہندوؤں کی آبادی ہے جہاںمسلمان جانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔لیکن دباؤ ڈال کر ان سے مسلمانوں کے خلاف بیانات دلوائے جارہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ فساد میں ہونے والے نقصان کومتوازن دکھانے کیلئے گودام سے پہلے سارا سامان نکالا گیا اور پھر اس میںکچرا اور کباڑبھر کر آگ لگادی گئی۔

                جس طرح سارے فسادات کے دوران انتظامیہ اور پولیس ہندو فسادیوں کو کھلی چھوٹ دیتی ہے اسی طرح کوسی کلاں میں ہوا۔ مقامی لوگوں نے کہاکہ ایس ایس پی تھانے میں موجود تھے لیکن انہوں نے حالات کو سنبھالنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بس اسٹیند کے پاس مسلمانوںکے گھروں کو ہندو فسادیوں نے گھر لیا تھا وہ منت و سماجت کرتے رہے لیکن کسی رحم نہیں آیا۔ کچھ لوگوں نے آئی جی سے رابطہ قائم کیا اور کہا مسلمان پھنسے ہوئے ہیں ان کو وہاںسے نکالا جائے ۔ آئی جی نے پی اے سی کی ٹکری بھیجی اور پی اے سی موقع پرآئی بھی لیکن یہ کہکر چلی گئی کہ تم لوگ جلنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہو ۔ اس کے بعد آئی جی نے خود آکر ان لوگوںکو ہاں سے بحافظت باہر نکال محفوظ مقام پرپہنچایا۔ خوس و ہراس کا یہ عالم ہے کہ اب تک بیشترمتاثرین اپنے گھروںکو واپس نہیں آسکے ہیں جبکہ فساد کو ڈیرھ ماہ سے زائد ہوچکے ہیں۔ ٹیم نے تمام زخمیوں اور متاثرین سے ملاقات کرنے کی کوشش کی لیکن بیشتر متاثرین خوف کی وجہ سے اب تک کوسی کلاں واپس نہیں آسکے ہیں۔ مکانات جلنے کی وجہ سے اس قدر تباہ ہوچکے ازسرنو تعمیر کے بعد ہی وہ رہائش کے قابل ہوسکیں گے۔ بیشتر متاثرین نے بتایاکہ گھروںمیں شادی وبیاہ کاسامان اورلڑکیوں کی شادی کے زیورات رکھے تھے جسے فسادی لوٹ کر لے گئے۔

                سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے کم وقت میں بڑی تعداد میں اور ہتھیاروںسے لیس ہوکر آناً فاناً لوگ کیسے جمع ہوگئے؟ آس پاس کے ۸۴ گاؤںکوکیسے خبر ہوگئی؟ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فسادپہلے سے طے تھااورشربت کا واقعہ محض ایک بہانہ تھا اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو کسی اور بات کو لیکر فسادہوتا۔ اس کے علاوہ ہوڈل (ہریانہ) سے آنے والی ٹرین کوسی کلاں میں فساد کی جگہ پرکیوں رکی تھی؟۔متاثرین نے بتایاکہ بڑی تعداد میں اکثریتی فرقہ کے لوگ اس سے اترے تھے جب کہ جہاںفساد ہورہا تھا وہاں کوئی اسٹیشن یا ہالٹ نہیں تھا۔اس کے علاوہ مسلم علاقے میں موبائل نیٹ ورک جام کردیا گیا تھا تاکہ وہ مدد کے لئے کسی سے رابطہ قائم نہ کرسکیں۔  اس معاملے میں۷۶ مسلمانوں کو نامزد کیاگیا ہے اور سیکڑوں بے نامی ہیں۔ چھلیہ نامی ڈرائیور پر دفعہ ۳۰۲ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جب کہ ان کے اہل خانہ کا کہناہے کہ وہ ہسپتال کے کام سے اس دن ہوڈل گیاتھا۔ متاثرین نے یہ بھی بتایا کہ سابق وزیر لکشمی نارائن چودھری میٹنگ کرکے یہ سازش کر رہے ہیں دو چار لنگڑے لولے جاٹوںکو مار کرمسلمانوںکے علاقہ میںپھینک دو تاکہ معاملہ برابر ہوسکے اور مسلمانوں کو سمجھوتہ پرمجبور کرسکیں۔ مسلمانوں پردباؤڈالاجارہا ہے کہ وہ اپنے مقدمات واپس لے لیں۔ اس کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کو ہندؤں تاجر کے یہاں کام نہیں مل رہا ہے وہیں مسلم تاجر کو ہندو تاجر کوئی آرڈرنہیں دے رہے ہیں۔ آر ایس ایس سے وابستہ افراد کے پاس ملک کا بیشتراثاثہ ہے اور جوتھوڑی بہت زمین وجائداد مسلمانوںکے پاس ہے وہ انتظامیہ کی مدد سے مسلمانوں سے چھین لینا چاہتے ہیں۔زمین کامعاملہ جہاں بھرت پور کے گوپال گڑھ میں تھا وہ یہاں بھی ہے ۔بیش قیمتی قبرستان کی زمین پر قبضہ کرلیا ۔انتظامیہ اور میڈیا مکمل خاموش رہا۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *