Home / Socio-political / کیا کانگریس خود احتسابی کی قوت سے محروم ہے؟

کیا کانگریس خود احتسابی کی قوت سے محروم ہے؟

عابد انور

کانگریس آج خود احتسابی کی قوت سے محروم ہے ۔ہمیشہ اس فکر میں رہتی ہے کہ اس کے کردہ گناہوں کا بوجھ کوئی اور اٹھائے اسی لئے وہ بحران کو دعوت دیتی رہتی ہے۔ کانگریس کو اپنے طویل ترین دور اقتدار میں شاید ہی اتنی مشکلات کا کبھی سامنا کرناپڑاہو، جس سے آج کل وہ دوچار ہے۔ پریشانیاں اس وقت پیش آئیں تھیں جب جے پی تحریک نے اسے اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور اس کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو حوالات میں بند کردیا تھا،مایوسی کا شکار اس وقت بھی ہوئی تھی جب وی پی سنگھ کی منڈل اوربدعنوانی کے خلاف بوفورس تحریک نے آسمان سے زمین پر لاکر اسے پٹخ دیا تھا، نہایت ہی دشوار گزار مرحلہ اس وقت بھی طے کرنا پڑا تھا جب مسٹر لال کرشن اڈوانی نے درخشاں ہندوستان کے زعم میں کانگریس کی ٹوٹ پھوٹ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کا وجود ختم ہوجائے گا اور کانگریس تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گی ۔ اس وقت جتنے بھی عوامل تھے سب بیرونی تھے اور اس میں کانگریس کی غلطی کم اور بیرونی دسیسہ کاریاں زیادہ تھیں لیکن اس وقت کانگریس بحران کے جس دور سے گزر رہی ہے ، الزامات کی بوجھار ہورہی ہے، بدعنوانی کے بدنما داغ اورکمزور ترین حکومت چلانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں ، اس کی ساری ذمہ داری کانگریس کی بے عملی، آرام پسندی، ڈرائنگ روم پولٹکس، اندرونی سازش اور وزراء کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش کی ہے۔ کانگریس آج بھارتیہ جنتا پارٹی کو کمیونسٹ کے زوال کے بعد ٹوکری بھر بھرکر موضوع فراہم کرر ہی ہے۔ 2004 سے 2009 کا وقت تھا اور وہی بی جے پی تھی جو موضوع کے لئے ترس رہی تھی لیکن 2009 میں کمیونسٹ کی نشست کیا کم ہوئی بی جے پی کانگریس کی گردن پر سوار ہوگئی اور اس کے بعد مسلسل بی جے پی کا کانگریس پر حملہ جاری ہے اور کانگریس کی آرام طلبی کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس کا منہ توڑ جواب دینے والا نہیں ہے۔ کانگریس اگر ضمنی انتخابات میں ناکام رہی ہے یا 2014کے عام انتخابات میں اقتدار گنوا دے گی تو یہ اس کی نا اہلی ہوگی نہ بی جے پی کی اپنی کامیابی۔ کانگریس کے ایک ایک قدم سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومت کرتے کرتے تھک گئی ہے اور انہیں نہ تو یہاں کے عوام کی پرواہ ہے نہ اپنے رائے دہندگان کی کوئی فکر جو ہمیشہ سے اس کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ دنیا میں ایسی بہت ہی کم پارٹیاں ہوں گی جو نوشتہ دار کو نہ پڑھ سکیں اور اس پر لکھی عبارت کو نہ سمجھ سکیں۔ کانگریس آج اسی دور سے گزر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی حکومت نہیں ہے سب اپنی اپنی مرضی سے کام کررہے ہیں۔ خصوصاً رسدات اور عوامی تقسیم کا نظام مکمل ناکارہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر طرف انارکی پھیلی ہے۔ ملاوٹ، جمع خوری، کالابازاری عام ہے، حکومت بنیوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ کھربوں روپے خرچ کرکے ان کے مفادات کی نگہبانی کی جارہی ہے اور عام آدمی دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔

حصار کا ضمنی پارلیمانی انتخاب اور ریاست کے دوسرے ضمنی انتخابات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس کسی چیز کی پرواہ نہیں کر رہی ہے وہ نہ اپنے اتحادیوں کو خاطر میں لارہی ہے اور نہ ہی انتخابات میں نئے دوست بنانے کے حق میں نظر آرہی ہے۔ حصار کے انتخاب کو مرکزی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن یہ تو طے ہے کہ ا س سے کانگریس کی ساکھ گہرا دھکا لگا ہے۔ کانگریس 2009 میں بھی تیسرے نمبر پر تھی اور اس ضمنی الیکشن میں تیسرے نمبر پر رہی ہے لیکن اپوزیشن اور ٹیم انا کو تشہیر کا موقع مل گیا کہ عوام نے اس کی اپیل کے مطابق ووٹ دیا ہے اس لئے کانگریس ہاری ہے۔ ہریانہ جن ہت کانگریس کے کلدیپ بشنوئی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ انا ہزارے نے حصار کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ کانگریس کو اپنا ووٹ نہ دیں۔کانگریس نے انا کی اپیل کے اثر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی نے گزشتہ انتخابات کے دوران بھی کوئی خاص مقام حاصل نہیں کیا تھا ، اس لیے ان کی ہار کا کریڈٹ انا کو نہیں دیا جا سکتا۔ ہریانہ جن ہت کانگریس اور بی جے پی کے اتحاد کے مشترکہ امیدوار کلدیپ بشنوئی سابق وزیر اعلی بھجن لال کے بیٹے ہیں ، جن کی گزشتہ دنوں موت ہو گئی تھی۔ان کا خیال ہے کہ انا کی اپیل کا انتخابی نتائج سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ، “میرے والد اور خاندان نے حصار کے لئے بہت کچھ کیا ہے اور یہ نتیجہ اسی کا پھل ہے، میں انا کی حمایت کرتا ہوں لیکن انہیں ایک بات صاف کرنی چاہےئے کہ وہ لوگوں کو کس کے خلاف لے جانا چاہتے ہیں؟ کانگریس یا بدعنوانی کے خلاف؟“۔2009 کے عام انتخابات میں کانگریس نے ہریانہ کے دس لوک سبھا سیٹوں میں سے 9 نشستوں پر فتح حاصل کی تھی اس میں حصار شامل نہیں تھا۔حصار کو ہریانہ جن ہت کانگریس کے امیدوار ہریانہ کے سابق وزیر اعلی بھجن لال نے جیتاتھا اس پارلیمانی حلقہ میں 4.6 لاکھ جاٹ ووٹر ہیں ، 80,000 براہمن ، 36,000 بشنوئی برادری کے ، 65,000 پنجابی ووٹر ہیں جبکہ شیڈولکاسٹ درج فہرست ذات کے پانچ لاکھ سے زیادہ ووٹر ہیں۔

ٹیم انا کو اس خوش فہمی نہیں رہنا چاہئے کہ اس کی اپیل کے اثر کی وجہ سے کانگریس یہ سیٹ ہاری ہے۔ اگر ٹیم انا کا اثر ہوا ہوتا تو کانگریسی امیدوار کو تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹ نہیں ملتے اور اجے چوٹالہ کو تین لاکھ سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر نہیں ہوتے۔ ٹیم انانے ایک طرح سے ہریانہ جن ہت کانگریس اور بی جے پی کے مشترکہ امیدوار کلدیپ بشنوئی کے حق میں زبردست مہم چلائی اورساری طاقت جھونک دی لیکن پھر بھی کامیابی کا تناسب صرف چھ ہزار کے آس پاس ہی رہا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ گرچہ کانگریس اس نشست کو گنوا چکی ہے لیکن ٹیم انا کی ساکھ کو بھی زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ ہندوستان کے نوجوان طبقہ کو یہ بات بہت بری لگی ہے کہ ٹیم انا نے مخصوص پارٹی کے خلاف ووٹ دینے کی اپیل کیوں کی ۔ٹیم انا بیک فٹ پر آچکی ہے اور اب اس کی تحریک میں وہ دھار باقی رہے گی کیوں کہ ٹیم انا میں بھی پھوٹ پڑچکی ہے اور اس کے دو اہم رکن راجندر سنگھ اور راج گوپال ٹیم انا سے الگ ہوچکے ہیں۔ الگ ہونے کی وجہ انہوں نے سیاسی رجحان اور تاناشاہی کو قرار دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ ٹیم انا کے بعض ارکان میں خود اعتمادی اس قدر آچکی ہے کہ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ جو چاہیں گے اور ہندوستانی عوام سے جو اپیل کریں گے عوام اس پر لبیک کہیں گے۔ اس کے علاوہ ٹیم انا پر آر ایس ایس حامی ہونے کا لگنے والا الزام بھی سچ ثابت ہوگیا کہ کیوں کہ انہوں نے ایک طرح سے بی جے پی حامی امیدوار کی حمایت کی۔اس اپیل نے اس کی سیاسی آرزو ؤں کو بھی اجاگر کردیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے عوام کانگریس سے زبردست ناراض ہیں کیوں کہ عوام مہنگائی اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے حکومت سے نالاں ہیں۔ حکومت نے بنیوں اور کارپوریٹ سیکٹر کو ہندوستانی عوام کو لوٹنے کے لئے کھلم کھلا چھوٹ دے رکھی ہے۔ بنیادی چیزوں کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔ مقوی غذا تو دور کی بات معمولی اور گھٹیا غذا بھی عوام کو میسر نہیں ہے۔ پروٹین کا واحد ذریعہ دودھ چالیس روپے فی کلو اور دال ساٹھ سے سو روپے فی کلو کے حساب فروخت کی جارہی ہے جب کہ یہاں غذائی اجناس کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہندوستان میں اس وقت تقریباً 22.5 کروڑ ٹن غذائی اجناس کی پیدوار ہے اور سارے ہندوستانیوں کا پیٹ بھرنے کے بعد ڈھائی کروڑ ٹن اناج کی بچت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کی نصف آبادی کو پیٹ بھر کھانا میسر نہیں ہورہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے ملک کو غذائی قلت کا سامنا نہیں ہے بلکہ بدنظمی کا سامنا ہے۔ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے اور وہ عوام کو غذائی سہولت فراہم کرنا ہی نہیں چاہتی ۔ وہ صرف امیروں کی امارت میں اضافہ کرنا چاہتی ہے اور مہنگائی میں اضافہ کرکے ٹیکس کی مدمیں موصول ہونے والی رقم سے اپنے خزانہ کو بھرنا چاہتی ہے۔ تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ ہندوستان ترقی کر رہا ہے اور یہاں کروڑ پتیوں اور ارب پیتوں کی تعداد میں دن چونی رات چوگنی اضافہ ہورہا ہے۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق دولت کے معاملے میں ہندوستانی آگے نکل رہے ہیں۔ ہندوستانیوں کی اوسط جائیداد گزشتہ 10 سال میں تقریبا تین گنی ہو کر 5,500 ڈالر (تقریبا 2.70 لاکھ روپے) تک پہنچ گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ، ہندوستان میں 2000 میں فی کس جائیداد 2,000 ڈالر تھی جو فی الحال بڑھ کر 5,500 ڈالر ہو گئی ہے لیکن جائیداد کی تقسیم اب بھی بہت بے ترتیب ہے اور یہاں غربت بہت زیادہ ہے۔کریڈٹ سوئس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان میں جائیداد بڑھ رہی ہے اور متوسط طبقہ اور امیروں کی تعدادمیں اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ اضافہ ہر کسی کے حصہ میں نہیں ہوررہا ہے اور اب بھی بہت زیادہ غربت ہے۔رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 43 فیصد نوجوانوں کی جائیداد 1,000 ڈالر سے کم ہے ، جبکہ دنیا میں اوسط 27 فیصد لوگوں کی املاک 1,000 ڈالر سے نیچے ہے۔

اگر کچھ لوگوں کے دولت مند ہوجانے کو مرکز کی کانگریس حکومت ترقی سمجھ رہی ہے تو یہ ان کی زبردست بھول ہے جس کا خمیازہ اسے 2014 کے عام انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔ کانگریس کی تباہی کے لئے جہاں وزراء کی آپسی چپقلش ذمہ دار ہے وہیں کانگریس اعلی کمان بھی اس ذمہ داری منہ نہیں موڑسکتے۔ کانگریس کو ڈبونے کی پوری ذمہ داری اس وقت کے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے لے رکھی ہے۔ ان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش نے ان سے مثبت سوچ چھین لی ہے ۔ جہاں وہ مہنگائی روکنے میں ناکام رہے ہیں وہیں دوسری طرف لنگڑی لولی دلیلوں کے ذریعہ عوام کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے مہنگائی روکنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ انہوں نے دوسری وزارتوں کے غلط اقدام کو جو مہنگائی کے اضافے میں معاون ثابت ہورہے ہیں جائز ٹھہرا رہے ہیں۔ مہنگائی کے لئے اگر کسی نے کوئی قدم اٹھایا ہے تو وہ ریزرو بینک آف انڈیا ہے لیکن اس کا دائرہ کار محدود ہے ۔ وزیر اعظم بے بس دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان کے کابینی کے وزرائے اپنی اپنی ڈفلی بجار ہے ہیں۔ یو پی اے کے ایک اہم اتحادی اور مہنگائی لانے کے ایک بڑے ذمہ دار وزیر زراعت شرد پوار نے بھی حکومت کوکمزور کہنا شروع کردیا ہے۔ تیسرے محاذ کی تشکیل کی کوششوں کے ساتھ ہی شرد پوار کو وزارت عظمی کا عہدہ خواب میں نظر آنے لگا ہے اگر تیسرا محاذ 2014 میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو وہ اس کے دعویدار ہوسکتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اپنی ساری کمیوں کو کانگریس کے سر مڑھ دیاجائے ۔ گرچہ کانگریس نے اس شکست کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کئی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں اور صحافیوں کی ایک ٹیم بھی تشکیل دی تاکہ وہ عوام کی ناراضگی کا پتہ لگاسکیں اس کے لئے انہوں نے انگریزی کے ایک سینئر صحافی کو متعین کیا ہے۔لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کانگریس کیا عملی اقدام کرتی ہے۔ جب ایک عام حکومت کی غلط کاریوں کا ادراک کر رہا ہے تو حکومت کیوں نہیں کر رہی ہے۔

اگلے سال پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور 2014 میں پارلیمنٹ کے عام انتخابات بھی ۔ کانگریس کے لئے اب بھی ڈھائیس سال کا وقت ہے ۔ وہ خواب کی دنیا سے باہرنکلے اور عوام کی تکلیف اور ان کے دکھ درد کا احساس کرے اور مہنگائی پر لگائے تو عوام کی توجہ دوبارہ کانگریس کی مبذول ہوسکتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس ہندوستان میں ہے اور حکومت کا خزانہ بھرا ہوا ہے اگر حکومت پیٹرولیم اشیاء پر ٹیکس کم کردے تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم ہوجائے گی اور عوام کو بہت حد تک مہنگائی سے نجات ملے گی کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات اور مہنگائی کا چولی دامن کا واسطہ ہے ۔ اس کے ذریعہ کنٹرول کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ غذائی اجناس مناسب تقسیم ، جمع خوروں پر سخت کارروائی کرکے بھی مہنگائی پر لگام لگاسکتی ہے ۔ آج تک جمع خور بنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور وہ دونوں ہاتھ ہندوستانی عوام کو لوٹ رہے ہیں اور ان کا خون چوس رہے ہیں۔ اگر ہندوستان میں کالا دھن کسی کے پاس ہے تو ان میں سب سے بڑی تعداد بنیوں کی ہے کیوں کہ ان کا کاروبار صرف نقدی پرمبنی ہے جس کا بینک میں کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اور نہ سرکار کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے کہ ان کی کتنی آمدنی ہوئی اور کتنا منافع ہوا ۔ یہ لوگ آسانی سے ٹیکس چوری کرلیتے ہیں۔سرکاری ریکارڈ میں یہ لوگ امیربھی نہیں ہوتے اس لئے غریبی کے نام پر سرکاری مراعات سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

کانگریس اگر چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں رہے تو سب سے پہلے پارٹی میں موجود آر ایس ایس ذہنیت کے حامل افراد سے پارٹی کو صاف کرنا ہوگا اور ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی جو کانگریس میں رہ کر بی جے پی کا کا م کرتے ہیں۔ کانگریس اس وقت راہل گاندھی کو2014 کے لئے تیار کررہی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کاصرف دلتوں کے گھرکھانا کھانے کے علاوہ کوئی اور کارنامہ نظر نہیں آرہا ہے۔ راہل گاندھی نے نہ تو دلتوں کے مسائل حل کئے اور نہ ہی ان کے دکھوں کا مداوا کیا۔ سب سے اہم بات جو تمام ودروں میں نوٹ کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آج انہوں نے فی البدیہہ کسی رائے کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ردعمل کا ظاہر کیا۔ خواہ وہ فاربس کے بھجن پور کا دورہ کیا ہو یا بھرت پور کے گوپال گڑھ کا یا کہیں اور ،کہیں بھی انہوں نے کوئی بیان دیا نہ ہی میڈیا سے کوئی بات کی اور متاثرین دلاسہ دے کر چلے آئے ہم آپ کے لئے لڑیں گے لیکن وعدہ صرف قول تک محدود ہوکر رہ گئی فعل کا جامہ کبھی نہیں پہن سکا ۔ اس کے علاوہ سب سے اہم یہ بھی ہے کہ کانگریس کا نوجوان طبقہ جو راہل گاندھی کو اپنا ہیرو اور رہنما تسلیم کرتے ہیں توہ کافی مایوس ہیں ۔ ان کے مطابق وہ صرف ہاں ہوں کرکے رہ جاتے ہیں نہ تو کوئی فیصلہ لیتے ہیں اور نہ کسی مشورے پر عمل کرتے ہیں ۔ نوجوانوں میں مایوسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ تصور کرنے لگے ہیں کہ راہل گاندھی میں فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بہر حال یہ تو وقت بتادے گا کہ راہل گاندھی میں کتنی صلاحیت ہے یا کس قدر فیصلہ لینے کی قوت ہے لیکن سردست کانگریس اس وقت بدترین دور سے گزر رہی ہے۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *