ویسٹ ورجینیا ، امریکہ میں منعقدہ ایک کانفرنس(۷ تا ۱۰ اپریل ۲۰۱۱) میں ہندستان سے ہم، ڈاکٹر رضوان اورڈاکٹر اشتیاق تین لوگ شریک ہوئے ، امریکہ کے مختلف اسٹیس کے علاوہ کئی ممالک کے دانشور وں نے بھی شرکت کی ۔ اس کانفرنس کا بنیادی موضوع ’’مشرق و مغرب میں اخلاقیات ، روحانیت اور دانشوری کی روایت‘‘ تھا۔ مختلف احباب نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا اپنے مقالے میں احاطہ کیا۔کسی نے سائنس کی موجودہ ترقی کے دور میں اخلاقیات کے گم ہوتے مسائل پر بات کی تو کسی نے روحانیت کے حوالے سے مشرق و مغرب کی روایتوں کا جائزہ لیتے ہوئے انسان شناسی اور انسانی دوستی کا حوالہ پیش کیا۔تین دن کے اس کانفرنس میں مجموعی طور پر انسانی اقدار کی تلاش وجستجو اور عہد حاضرکے ثقافتی اور تہذیبی انتشار اور اس کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے مسائل پر گفتگو ہوئی ۔اس کانفرنس کی تفصیل سے قبل اگر امریکی زندگی کے چند پہلوؤں پر غور کر لیاجائے تو اس کے اغراض و مقاصد کوآسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
آج کی دنیا ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیات کے اعتبار سے بام عروج پر ہے تو دوسری جانب لوگ ان ترقیات کے پس منظر میں گُم ہوتے ہوئے انسان اور انسانیت کی جانب بھی تشویش بھرے انداز میں دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ در اصل سائنسی ترقیات ہماری زندگی میں انقلاب انگیز تبدیلیاں لے کر آئی ہیں۔ان تبدیلیوں کا سیدھا اثر ہماری شب و روزکی زندگی پر مرتب ہوئی ۔ زندگی اتنی آسان ہوگئی کہ ہم نے ان ٹکنالوجی کو اپنی زندگی کا لازمہ بنا لیا اورگرد وپیش کو بھی اسی عینک سے دیکھنے لگے۔ یہ بات اگرچہ ہم ہندستانیوں کی زندگی پر مکمل طور پر صادق نہیں آتی لیکن امریکی زندگی کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ مشینی دور میں خود بھی مشین بن گئے ہیں اور ان کی زندگی کا انحصار بھی انھیں مشینوں پر ہے۔اس سفر میں امریکہ کے تین شہروں ویسٹ ورجینیا، واشنگٹن اور نیو یارک کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ ان تینوں شہرو ں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تینوں شہروں کی زندگی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھی۔ ویسٹ ورجینیا ، جہاں کانفرنس ہوئی یہ علاقہ واشنگٹن سے کافی دور ہے ۔ تقریباٍ ً دس گھنٹے کی ڈرائیو ہے ۔ امریکہ میں دوری کا پیمانہ یہ ہےکہ کتنے گھنٹے کی ڈرائیو ہے ۔وہاں کی سڑکیں کشادہ اور ٹریفک کی الجھنوں سے دور ہیں ۔گاڑیاں ۷۰ میل کی رفتار سے چلتی ہیں۔ لیکن ہمارے لیے حیرت یہ تھی کہ سوائے ہوائی جہاز کے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تھی ۔ لہٰذا ہم نے بھی ہوائی جہاز سے ویسٹ ورجینا جانے کے لیے کلارکس برگ تک کا سفر کیا۔اس روٹ پر چلنے والی زیادہ تر ہوائی جہاز چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ ۳۴ لوگوں کے لیے سیٹیں ہوتی ہیں ۔اسی طرح کے جہاز پر سوار ہوکر ہم نئے تجربات سے گزرے۔ کلارکس برگ ایک چھوٹا ائیر پورٹ ہے۔ وہاں سے ورجینیا تک جانے کے لیے کوئی پبلک سواری نہیں تھی ۔ ہمارے لیے ایک گاڑی بھیجی گئی تھی جس سے ہم ڈیوس اینڈ الکنس کالج پہنچے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اگر ہمارے لیے گاڑی نہیں بھیجی گئی ہوتی تو ہمارا پہنچنا ناممکن تھا۔معلوم یہ ہوا کہ دوسرے شہروں سے آنے والے لوگ ائیر پورٹ پر اتر کر کرائے کی کار لے کر جاتے ہیں ۔ یہاں ہر جگہ آسانی سے پچاس ڈالر یومیہ کے حساب سے کار مل جاتی ہے ۔ لیکن ہمارے لیے مشکل یہ تھی کہ ہمارے پاس انٹرنیشنل لائسنس بھی نہیں تھا اور نہ رائٹ ہینڈ ڈرائیونگ کا تجربہ نہ ہی اس پہاڑی سلسلے کے راستے سے واقفیت تھی ۔ اس انداز کو دیکھ کر سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہاں کے تمام لوگوں کے پاس خود کی گاڑیاں ہوتی ہیں اسی لیے کسی پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت نہیں ۔ لیکن مشینی دور کا یہ انداز بھی بڑ ا اٹ پٹا لگا کہ ہم جیسے لوگ اگر یوں ہی بے یارو مددگار پہنچ جائیں تو کیا ہو؟ یہ شہر اپنی قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ روایتی اقدار کے لیے جانا جاتا ہے ۔ لوگ بڑے نرم مزاج اور تحمل کے حامل ہیں ۔ تین دن کے قیام میں آس پاس جانے کا اتفاق ہوا مگر ایک حیرت مجھے اور ڈاکٹر رضوان کو ہمیشہ رہی کہ کسی گاڑی کے ہارن کی آواز نہیں سنی ۔ لوگ انتہائی صبر وسکون سے گاڑی چلاتے ہیں اگرآپ کسی زیبرا کراسنگ پر کھڑے ہیں تو لوگ گاڑیاں روک دیتے ہیں ۔یہی حال نیو یارک اور واشنگٹن میں دیکھا۔لیکن نیو یارک اور واشنگٹن کی زندگی اس سے مختلف ان معنوں میں تھی کہ یہ زیادہ ترقی یافتہ شہر ہیں ، یہاں دنیا کی ساری سہولتیں موجود ہیں لیکن یہ تمام سہولتیں مشینوں پر منحصر ہیں ۔ تقریباً تمام چیزیں خود کار ہیں ۔ میٹرو ، یا اسکائی ٹرین یا بس کسی بھی جگہ کام کرنے والے لوگوں کی جگہ مشینیں موجود ہیں ۔ائیر پورٹ کے ٹرمینل پر چلنے والی میٹرو اور اسکائی ٹرینیں بغیر ڈرائیور کے ہیں جو الیکٹرونک کمانڈ سے چلتی ہیں۔ گھر اور ہوٹل کے اندرکی تمام آشائشیں بھی مشینی ہی ہیں ۔اگریہاں ایک دن کے لیے بجلی چلی جائے تو شاید یہاں کی زندگی ہی رک جائے ۔ اسی انداز زندگی نے لوگوں کو مشینی بنا دیا ہے اور سوچنے سمجھنے کا انداز بھی مشینی ہوگیا ہے ۔ لوگوں کو انسان سے زیادہ مشین پر ہی بھروسہ بھی ہے اور یہی ان کا سہارا بھی ہے ۔اسی لیے دنیا کے تمام برقی اور معدنی ذرائع کا استعمال کرنے کے اعتبار سے امریکہ اور یوروپ کے کئی ممالک پہلے نمبر پہ ہیں جوایک اعتبار سے دنیا کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی بھی ہے ۔
اسی مشینی زندگی نے لوگوں کو انسان کی طاقت و قوت کو سمجھنے کی کوشش بھی چھوڑ دی ہے ۔ ان کے اس رویے نے انسانی زندگی میں ایک ایسا خلا پیدا کیا ہے کہ اب کچھ لوگ پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھنے لگے ہیں۔یہ سیمنار بھی اسی فکری سلسلے کی ایک کڑی تھا۔اس سیمنار میں جس طرح کے مقالے پڑھے گئے اس سے حیرت ہوئی کہ زیادہ تر لوگوں نے بر صغیر ایشیا اور بالخصوص ہندستانی فکر و فلسفے کو اپنا موضوع بنایا ۔ خاص طور پر صوفیا ئے کرام کی زندگی ان کے اصولوں اور ہندستانی موسیقی کے علاوہ گوتم بودھ اور ہندو میتھالوجی پر گفتگو کی ۔ اندازہ یہ ہوا کہ لوگ اب تہذیبی زندگی تلاش میں مشرق کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے امریکی اساتذہ کے علاوہ وہ ہندستانی اساتذہ بھی شامل تھے جن کا تعلق ہندستان سے تھا، اگرچہ اب وہ امریکی شہری ہیں ۔ان سے ذاتی گفتگو کے دوران یہ احساس ہوا کہ لوگ اس مشینی زندگی سے پریشان سے ہورہےہیں اور بہتر زندگی کی تلاش میں صدیوں پرانی تہذیب کے حامل ممالک کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کا مطالعہ بڑے انہماک سے کر رہے ہیں ۔لیکن افسو س یہ ہواکہ کہ ان کے پاس ریفرنس کے لیے جو کتابیں ترجمے کی شکل میں موجود ہیں وہ ناقص اور نامکمل ہیں ۔مجھے اس ضرورت کا شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے ملک کی تہذیب و تمدن پر بہتر اور مستند کتابوں کا ترجمہ اور اس کی اشاعت مغربی ممالک کی موجودہ ضرورت بنتی جارہی ہے اس لیے ہمارے ملک کے دانشور اگر اس جانب توجہ دیں تو ہماری تہذیب و ثقافت کو لوگ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔کیونکہ کئی مقالوں میں جو حوالے دیئے گئے تھے وہ یا تو غلط تھے یا ناقص اور یہ قصور ان کا نہیں تھا بلکہ کتابوں کی عدم دستابی کے سبب تھا۔بہر کیف وہاں جاکر تکنیکی ترقی کے اعتبار سے تو نہیں لیکن تہذیبی رنگارنگی کے اعتبار سے ہمیں اپنے ملک پر فخر کا احساس ہوا۔انھیں اقدار کی کمی کے سبب ان ممالک میں انسان گم ہوتے جارہے ہیں۔
Nice Traveloge in terms of the understanding of our potential culture which is obviously based on spritualism.
Imteyaz Waheed