ابھی کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے کہ ہندستان کی کوششوں سے مذاکرات کا عمل از سر نو شروع ہوا۔ مگر یہ سب کو معلوم ہے کہ مذاکرات کے آغاز سے پہلے ہی پاکستان کے کئی حلقوں سے اس کی زوردا مخالفت شروع ہوگئی ۔کبھی اسے ہندستان کی شکست سے تعبیر کیا گیا تو کبھی اسے بے معنی بتانے کی کوشش کی گئی لیکن ان تمام مخالفتوں کے باوجود مذاکرات کے لیے آئے پاکستانی مہمانوں کا ہندستان نے استقبال کیا او ر اس عمل کو مستقبل میں جاری رکھنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے لائحہ ¿ عمل مرتب کرنے پر زور دیا اور اب یہ امید کی جارہی ہے کہ مستقبل قریب میں اگر دونوں ممالک بالخصوص پاکستان نے سنجیدگی دیکھائی تو ضرور کو ئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہوگا۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کی کوششوں کے دروان اس کو سبوتاژ کرنے کی پاکستانی مہم کیا رنگ لائے گی اس پر نظر رکھنی ضروری ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ صرف حکومتوں کے درمیان مذاکرات سے بات نہیں بنتی ہے جب تک کہ عوامی سطح پر اس کے لیے فضا ہموار نہ کی جائے ۔ اس سلسلے میں اگر ہندستانی پریس کا اندازہ لگائیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے پریس نے ان حالات پر تنقید وتجزیہ تو کیا ہے مگر کسی نے ان مذاکرات کی مخالفت نہیں کی ہے ، مگر اس کے برعکس پاکستانی میڈیا کا حال یہ ہے کہ اب بھی وہ ہندستان کے خلوص پر سوال اٹھا رہے ہیں اوربار بار اپنی پیٹھ ٹھوکتے ہوئے اسے ہندستان کی ناکامی پر محمول کر رہے ہیں۔ نہ معلوم انھیں پاکستان کی شکست سے کیا مل جائے گا؟اور یہ خیال خام ان کی کس انا کی تسکین کا سبب بنے گی؟ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے ۔ پاکستانی میڈیا کا ایک گروپ اور کچھ کالم نگار اس پسپائی کے سبب ہندستان کی جانب اپنی قلم کا رخ موڑ رہے ہیں کہ امریکہ نے حکومت پاکستان کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے اورجس طرح سے چاہ رہا ہے وہ موجودہ حکومت سے کام لے رہا ہے۔لیکن کوئی بھی سیاست داں اور صحافی کھل کرامریکہ کے خلاف بات نہیں کر سکتا اس لیے اپنا غصہ ہندستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر کر رہا ہے۔شبیرصاحب نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ:”بھارت اپنی بالا دستی علاقے میں قائم کرنیکی ہر ممکن جدوجہد میں مصروف نظر آتا ہے۔اس مقصد کے لئے وہ ہر قیمت چکانے کیلئے تیار ہے۔مگر امگر اپنے عزائم کی تکمیل میں وہ پاکستان کو سب سے بڑی رکاوٹ گر دانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کو کسی موقعے پر نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتا ہے۔ اس حوالے سے کئی جنگیں وہ پاکستان پر مسلط کر چکا ہے۔ حد تو یہ ہے اس نے پا کستان کو دولخت کرنے سے بھی گریز نہ کیایہ کوئی معمولی دہشت گردی نہ تھی بلکہ انٹر نیشنل دہشت گردی تھی۔ جس کو دنیا کے ٹھیکیدراوں نے آج تک دہشت گرد اسٹیٹ نہیں کہا۔یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست ہے۔جو ناصرف اپنے لوگوں کے ساتھ دہشت گردی کر رہی ہے بلکہ نہتے کشمیریوں کا بھی لہو بہانے مین پیچھے نہیں ہے۔ پاکستان کے اٹوٹ حصے کو اس نے چالبازیوں سے گذشتہ 63 برسوں سے جہنم بنایا ہواہے۔ کشمیر کے حریت پسندوںکو اس نے ساری دنیا میں دہشت گرد مشہور کیا ہوا ہے۔حالانکہ یہ خود ہی کشمیریوں سے اقوام متحدہ میں یہ وعدہ کر کے بیٹھا ہے کہ وہ کشمیریوں کو حقِ خود اختیاری ہر حال میں دیدیگا۔تو دنیا بتائے کہ حریت کی جنگ لڑنے والے کس طرح دہشت گرد ہیں؟“ شبیر صاحب کو شاید دہشت گردی کے اعداد و شمار کا اندازہ نہیں ورنہ اگر وہ صرف اپنے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے اعداد و شمار جان لیں تو ان کی رائے بدل جائے گی کہ دہشت گرد کون سا ملک ہے۔ لیکن جب باتیں آنکھ بند کر کے کہنی ہو تو ایسی ہی باتیں سامنے آتی ہیں۔ شبیر صاحب اپنے اسی کالم میں آگے لکھتے ہیں کہ :”سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف خاموشی سے ہر محاذ پرجارحانہ حکمت عملی پر کار بند ہے پاکستان میں بد امنی اور انتشارپیدا کرنے کے لئے بھارتی ایجنسیاں جگہ جگہ بم دھماکے کرا رہی ہیں۔گذشتہ قریباً چھ ماہ کے دوران پاکستان میں جس قسم کے خود کش اور پلانٹیڈ حملے ہو تے رہے ہیں،ان تمام سفاکا نہ کاروائیوں میں پاکستان کو معاشی سیاسی سماجی نقصان کا عنصر نمایاں ہے۔ ان تمام جانی و مالی نقصانات کے پیچھے بھارت ہے جو دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانا چاہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آزادی کے متوالوں کو ساری دنیا کے سامنے دہشتگرد کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جس کی معاونت آج امریکہ بھی کر رہا ہے۔عوامی مراکز، مسجدوں کھیلوں کے میدانوں
بازارو ں ، ایجنسیوں کے دفاتر، مساجدفوج و پولس کے مراکز اور فوجی کاروانوں پر حملے جس میں بے گناہ بچے خواتین فوجی جوان اور پولس کے سپاہیوں کو شہید کیا جاتا رہا ہے۔ جس میں بھارت کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔اب یہ ناقابلِ یقین خبریں بھی آرہی ہیں کہ افغان طالبان اس کھیل میںبھارت کی مدد کر رہے ہیں۔ حالانکہ بہت مرتبہ طالبان کی طرف سے ان حملوں کی شدت کے ساتھ تر دیدیں آتی رہی ہیںمگر ہماری پا لیسیوں کی وجہ ہمارے ہمدرد بھی اب شائد دشمنوں کی صفوں کا رخ کر رہے ہیں۔ملا ضعیف جیسے لوگ بھی آج بھارت کی حمیت میں بول اٹھے ہیں۔جو ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیوں کی نا کا میوںکا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘ اب تک پاکستان میں جو بھی دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں سے کسی ایک کے حوالے سے ایسا ثبوت نہیں ملا ہے جس سے یہ یقین کے ساتھ کہا جائے کہ کہیں بھی ہندستان ان قابل نفریں واقعات میں ملوث ہو۔لیکن بلا وجہ بار بار اس طرح کی باتیں کرنی دراصل رائے عامہ کو متاثرکرنے کی دانستہ کوشش ہی ہے تاکہ پاکستان کی عوام میں ہندستان کے خلاف نفرت پیدا ہوسکے۔ اس لیے وقت کا یہ تقاضہ ہے کہ پاکستان خود اس طرح کی بیان بازیوں سے اپنے صحافیوں کو روکے کیونکہ اس پاکستان کی شبیہ ہی متاثر ہورہی ہے۔
رہی بات مذاکرات کی تو یہ ہندستان کی مجبوری نہیں ہے یہ تو ہندستان کی فراخدلی اور خطے میں امن کے قیام کی کوشش ہے۔ ورنہ ایسا کیا ہے کہ ہندستان پاکستان کے دباو ¿ میں آجائے یا امریکہ اس سلسلے میں پاکستان پر کوئی دباو ¿ڈالے۔لیکن اس بر عکس پاکستان کے صحافیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکہ جو کام پاکستان سے لینا چاہتا ہے اسے کسی بھی طرح لے لیتا ہے ۔ ابھی کل ہی امریکہ اپنی ایک اورحکمت عملی کی پیش رفت کرتے ہوئے نئے ہدف کا آغاز کر چکا ہے۔ابھی۴۲ تاریخ کو ہونےوالے مذاکرات بھی اسی سیاسی گرفت کا ایک حصہ ہیں ۔جس کی خبریں پاکستانی اخباروں میں اس طرح شائع ہوئی ہیں:”
امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ محض فوٹو سیشن نہیں، سنجیدہ اور بامعنی ہوں گے۔ پاکستان امریکہ اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات بھی جلد ہوں گے۔پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سٹریٹجک مذاکرات میں پاک امریکہ تعلقات کے فروغ پر بات ہوگی۔ مذاکرات کا اگلا دور پاکستان میں ہوگا۔ پاک امریکہ تعلقات آگے بڑھانے کیلئے ورکنگ گروپس قائم کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کا استحکام دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ اور افغانستان کے درمیان بھی مذاکرات جلد ہوں گے۔مذاکرات کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان طویل مدت حکمت عملی طے کی جائے گی۔ رچرڈ ہالبروک نے مذاکرات کیلئے جانے والے وفد میں جنرل کیانی کی شمولیت کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہاکہ امریکہ پاکستان کیساتھ سٹریٹجک مذاکرات کرتا رہا ہے اور مذاکراتی وفد حکومت پاکستان نے تشکیل دیا ہے جس کے ممبران کا انتخاب حکومت پاکستان نے کیا۔ دریں اثناءوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے باہمی مشاورت سے ملک میں مفاہمتی عمل کا آغاز کیا اور اس میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تھری ڈی حکمت عملی متعارف کرائی تاہم دہشتگردوں کی طرف سے مثبت جواب نہ ملنے پر فوجی کارروائیوں کا فیصلہ کیا گیا، جسے حکومت نے مکمل اونر شپ دی اور اس میں کامیابی حاصل کی، جس پر امریکہ سمیت دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں سوچ میں تبدیلی آئی کہ پاکستان کے عوام اور حکومت فوج کے ساتھ ہیں اور پاکستانی فوج دہشتگردی سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، جس کا مقصد اپنے نظریے کو طالبائزیشن سے بچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں اور وہ اس لعنت کے خاتمے کیلئے آپ کی مدد کرنے کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ نے فوجی حکمت عملی کا دوبارہ جائزہ لیا ہے اور کئی نئی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ایک نئی سوچ جنم لے رہی ہے، جس میں فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ سویلین کی مدد حاصل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 24 تاریخ کو امریکہ پاکستان سٹریٹجک ڈائیلاگ میں دہشتگردی سمیت تمام اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جس میں پاکستان اپنے موقف کی کھل کر ترجمانی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عالمی برادری کو باور کرایا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور ہمیں اس مسئلے کے حل کیلئے اجتماعی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان ایک
دوسرے کے حلیف ممالک ہیں اور آئندہ بھی حلیف رہیں گے۔“ اس خبر میں پنہاں امریکی خواہش اور اس کے عزم کے حوالے سے ابھی پاکستانی صحافی کوئی بات نہیں کر رہے ہیں ۔جبکہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اس حوالے امریکہ پاکستان اورافغانستان میں کو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ کرے گا اور مذاکرات میں جمہوری طریقے سے اپنی مزید بالادستی کے قیام کی بھر پور کوشش کرے گا ۔ لیکن اس حکمت عملی کو سمجھنے کے بجائے پاکستانی میڈیا کی رائیگاں کوششیں ہندستان پر الزام تراشی کی ہے جو کسی بھی طرح سے فائدہ مند نہیں ہے۔