سبزعینک لگاکر دیکھنے سے سبزۂ گل نہیں اگتے،خوش حالی پکارنے سے خوشحالی نہیں آتی۔ ’’نظام بدل دیں گے‘‘ کانعرہ لگانے سے کب بدلا ہے نظام!’’روٹی‘کپڑا اورمکان دیں گے‘‘ اچھاہے یہ نعرہ، لیکن بے جان لفظ ہیں یہ سب ،جب تک فراہم نہیں ہوجاتے۔ انصاف ،انصاف کی گردان بے اثررہتی ہے ۔اربوں ڈالر کی قومی دولت لوٹ کرغیرملکی بینکوں میں محفوظ کردی جائے اوراس دولت کو بچانے کیلئے ملکی عدالتوں کوکئی سال الجھائے رکھا جائے اوربعدازاں مقررہ وقت گزرنے کے بعدایک ذومعنی خط لکھ کرخودکوپوتر قراردے دیا جائے ۔ملکی خزانے کوجو بھی بیدردی کے ساتھ شیر مادر سمجھ کرہڑپ کر لے اتناہی بڑاسرکاری عہدے اورمنصب کا حقدار ٹھہرے اور جب عدالتیں فیصلے تو دیں لیکن صاحبانِ اقتدارٹال مٹول اوراپنی بدنیتی سے اس پر عملدرآمد نہ کریں تو حقوق انسانی کتابوں میںد رج رہ جاتے ہیں چاہے آبِ زر سے لکھے ہوئے ہوں اورانسان خاک بسرہوں۔ خواب ، خواب رہتاہے جب تک تعبیرنہ پائے۔ خواہش ،تمناہی رہتی ہے جب تک آسودہ نہ ہوجائے۔ الفاظ کی بازی گری ،تقریروں کاسرکس اور اچھلتے کودتے مسخرے ،بس جی بہلانے کے لئے تواچھاہے لیکن جی کے بہلنے سے کب بدلاہے کچھ۔
چلتے پھرتے مسخروں کی اچھل کود کودیکھئے اورجی بہلائیے۔ اتنے سارے مائیک دیکھتے ہی غبارے کی طرح پھول کرکپاہوجاتے ہیں اورپھر دیکھتے اوردیکھتے چلے جائیے۔ جناب لوگوں کوروٹی چاہئے‘جلسے جلوس اوروعدے وعیدنہیں‘انصاف چاہئے ،روٹی کپڑامکان چاہئے ، بدل دیں گے ہم نظام، کٹ مریں گے ہم اپنے عوام پر،پہاڑچھید کر دودھ کی نہریں نکالیں گے ،اپنے خون سے سینچ دیں گے یہ گلشن۔ ہم بھی سردھنتے رہتے ہیں۔واہ،واہ…جیوے بھئی جیوے۔ کوئی سرپھراسوال کربیٹھے کہ جناب ایسے کیسے بدلے گا نظام ،کیا خالی خولی لفظوںسے پیٹ بھریں گے؟توپھر رعونت سے تنی گردن ذرا سی خم ہوتی ہے:’’جناب آپ دیکھتے جائیں‘‘ یہی تودیکھ رہے ہیں۔
عوام جودل میں سوچ رہے ہوں قیادت اسے بھانپ لیتی ہے اور اس کانہ صرف اظہارکرتی ہے بلکہ خودکواس کانمونہ بناکرپیش بھی کرتی ہے۔بالکل اسی طرح :
دیکھنا تقریر کی لذت کہ اس نے جو کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اوریہ جواقبال بابے نے میرِ کاررواں کے لئے شرائط بتائی ہیں:
نگہ بلند ،سخن دلنواز ،جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کاررواں کے لئے
کوئی آپ کوایسانظرآتاہے؟عوام کیاچاہتے ہیں اوروہ پکار پکار کر تھک گئے ہیں۔ چیخ چیخ کران کے گلے بیٹھ گئے ہیں‘لیکن کون سن رہاہے ،ان کے دل کی پکار!بس اپنی کہے چلے جاتے ہیں۔ انہیں سامنے کی چیزنظرنہیں آتی۔ہم ان سے بصیرت اور فراست کے طلبگارہیں۔اندھوں سے بلندنگاہی کے طلبگار…سخن دلنواز تو تب ہوجب آپ میں اخلاص کا دریا بہہ رہاہو۔ جاں پرسوز کو رہنے دیجئے ،یہ توبہت مقامِ بلند ہے ،بہت کٹھن ہے… سوز تودل کا جوہرہے ،ہاں دل ہی نہیں توجوہرکی تلاش کے کیامعنی!
یہ سوہنی دھرتی جہاں بچے گٹروں میں گرکرمرجاتے ہیں اور مزدور ایڑیاں رگڑرگڑ کر،جہاں خودکشیاں دکھوں کامداوا بن جائیں،خاک بسراپنے لختِ جگر کے گلے میں برائے فروخت کا بورڈ لٹکائے سڑک پرکھڑے ہوں،جہاں بیمار ہسپتالوں میں دم توڑرہے ہیں،جہاں زندہ لوگوں کومردہ خانے میں رکھ دیاجائے، جہاں جعلی ادویات کے بیوپاری انسانوں کوموت کے گھاٹ اتار رہے ہوں،نوجوان سڑک چھاپ رہے ہوں،جہاں مظلوم قید اور ظالم آزاد ہوں، جہاں دین کوبھی تجارت بنالیاگیاہو،جہاں پرظلم کی حکمرانی ہو اور وحشت رقص کناں، جہاں دانشوری اپنے محلات میں محوِآسائش وآرام ہو اورآنکھ کھلتے ہی انقلاب ،انقلاب پکارنے لگے۔ ایسے خوش فہمی کے موسم میں ہم جی رہے ہیں۔
ہمارے ہاتھوں میں انقلاب کے ساز ہیں اور ہم انہیں بجا رہے ہیں۔ہمارے ہاتھ تالیاں پیٹ پیٹ کرلہولہان ہوگئے ہیں۔ہمارے خواب روٹھ گئے ہیں۔اب ہمیں چاندبھی روٹی نظر آتا ہے۔ آٹا،آٹا،بجلی ،پانی ہمارا وظیفۂ جاں ہے۔ ایسے میں جب کوئی اپنی لاکھوں کی بم پروف گاڑی میں بیٹھ کرہاتھ ہلاکرانقلاب کانعرہ لگائے توہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔کوئی بے روزگارنوجوان وزیراعلیٰ کی گاڑی کے پیچھے جیوے جیوے کانعرہ لگاتے ہوئے دوڑرہاہوتوپولیس کے ہتھے چڑھ کرپٹتاہے اور سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتاہے۔کیایہی ہے انقلاب؟
اقتدارکے آخری دن بھی ملکی بینکوں اوردوسرے اداروں کوتعطیل کے باوجودکھلا رکھنے کا حکم محض اس لئے جاری کردیا کہ یقین کرلیاجائے کہ ملکی خزانے میں کچھ بچاتونہیں اور جمہوریت کاحسن تو دیکھئے کہ قومی اسمبلی کی خاتون اسپیکر نے اپنے اختیارات کے آخری دن اسمبلی کے تمام اراکین پرملکی خزانے سے نوازشات کی محض بار ش اس لئے کردی کہ اس کی آڑمیں ملکی خزانے سے کروڑوں روپے سالانہ تاحیات انعامات اورآسائشوںکی خودکو حقدار ٹھہراسکیں ۔
جن چہروں کوہم روزانہ ٹی وی اسکرین پرمائیک کے پیچھے سے ارشادفرماتے سنتے ہیں،ایسے چہرے کب انقلاب لائے ہیں!اداکار اچھے ہیں،ہرکردار میں ڈھل جاتے ہیں۔خوب مزے اڑاتے ہیں،ڈیل ڈیل کرکے پاک پوتربن جاتے ہیں اور اشراف کہلاتے ہیں۔یہی سلسلہ اب پھر جمہوریت کے نام پرچلنا شروع ہوگیاہے۔میڈیا چیخ چیخ کردہائی دے رہاہے کہ ’’خداکا شکر ہے کہ ہم نے بوٹوں سے نجات اورووٹوں کے طفیل جمہوریت کے پانچ سال پورے کرلئے ہیں،اب آئندہ بھی جمہوریت کوووٹ دیں‘‘۔یہ وہی جمہوریت ہے کہ جس میں چندماہ میں وزیراعظم نے اس غریب عوام کے ملکی خزانے کے اربوں روپے کے صوابدیدی فنڈ کواس طرح بے دریغ استعمال کیاگویااس کے بعداس جمہوری گنگامیں اشنان کاکبھی موقع نہیں ملے گا۔
سندھ کی حکومت نے جب کبھی بھی کسی بڑے واقعے پر ٹربیونل بنایا، اس کی سربراہی کی ذمہ داری جسٹس ریٹائرڈ قربان علوی کو سونپی گئی اور انہوں نے حکومت کو مشکلات سے بچانے میں اپنا کردار ادا کیااسی لئے سندھ میں غیرجانبداری کاخوب مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی تقرری عمل میں لائی گئی اوراسی طرح بلوچستان میں بھی ایسا ہی عمل دہرایاگیااوراب تو مرکزمیں بھی زرداری صاحب کاانتخاب ہی کامیابی کے ساتھ وزیراعظم کے عہدے پرتعینات ہوچکے ہیںتاکہ جمہوریت کی مزیدخدمت کاموقع مل سکے۔
ہم اورآپ سادہ ہیں۔سادہ ہیں یابے وقوف؟سادگی تواچھی خوبی ہے لیکن بے وقوفی ؟چلئے رہنے دیتے ہیں۔ذرا سوچئے تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی ،سراب کوپانی سمجھنے والوں نے کب فلاح پائی ہے؟ دھوکا ہی دھوکا ،فریب…سب کچھ بکاؤ…سب کچھ۔ دنیابھی دین داری بھی۔اگرآپ اسی میں خوش ہیں توپھر روتے کیوں ہیں؟ہنسیں،کھیلیں،موج اڑائیں۔اسے ہی زندگی کہتے ہیں تو موت کوکیاکہتے ہیں؟عزتِ نفس کیاہوتی ہے؟حقوقِ انسانی کیا ہوتے ہیں؟آزادی کیاہوتی ہے؟خودمختاری کی تعریف کیا ہے اور یہ جمہوریت کس بلاکانام ہے؟یہ توآپ مجھے بتائیے۔ میں دورجدیدکی نئی لغت سے ناآشنا ہوں۔
کچھ بھی تونہیں رہے گاجناب…بس نام رہے گامیرے رب کاجودلوں کے بھیدبھی جانتاہے۔
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر