Home / Socio-political / ۔،۔ جواب دہی کا تصور۔،۔

۔،۔ جواب دہی کا تصور۔،۔

۔،۔ جواب دہی کا تصور۔،۔

طارق حسین بٹ( چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عدلیہ نے ۴ اپریل ۱۹۷۹؁ کو ذولفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا اور ایک بے گناہ کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا کر انصاف کا بڑی بے رحمی سے خون کیا تھا؟ عدلیہ کے چہرے پر لگا ہوا یہ دھبہ آج بھی عدلیہ کی رسوائی کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ یہ انصاف کے بنیادی اصولوں کو تہس نہس کرنے کا موجب بنا ہوا ہے۔کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا بلکہ انسان مختلف انداز میں ماضی کی غلطیوں کو دہراتا رہتا ہے اور اپنے لئے مصائب کھڑے کرتا رہتا ہے۔ جس کی واضح مثال موجودہ عدلیہ کی جنرل پرویز مشرف کے خلاف آر ٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی ھٹ دھرمی ہے ۔آج کی عدلیہ ما ضی سے سبق سیکھنے کی بجائے سابقہ عدلیہ کے قدم پر چلتے ہوئے ایک اور غلطی کا ارتکاب کرنے جا رہی ہے اور ملک کو ایک ایسی کھائی میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی جس سے اسے بڑی مشکلوں سے نکالا گیا ہے۔ لنگڑی لولی جمہوریت اگر تھوڑ ی بہت چلنے لگی ہے تو اسے غیر لچک دارانہ رویوں سے مقتل کی جانب مت دھکیلئے کیونکہ یہ ایک دفعہ اگرپٹری سے اتر گئی تو پھر اسے بڑی مشکلوں سے پٹری پر ڈ الا جائیگا اور پھر کسی بے نظیر کے خون سے پھر مقتل کو سجایا جائیگا تا کہ جمہوری کا پودا توانا ہو سکے لیکن جمہوریت کی خاطر قربان ہونے والی بے نظیر اب کہاں سے آئیگی؟سیاست دانوں کے رویوں اور ان کی کرپشن کی داستانوں نے پہلے ہی جمہوریت کو سخت نقصان پہنچایا ہے لہذا کسی بھی ان دیکھے شب خون کے خلاف عوام کی مزاحمت انتہائی کمزور ہو گی کیونکہ جمہوریت نے عوامی مسائل کے حل میں عوام کی دل جوئی نہیں کی اور انھیں کوئی ریلیف نہیں دیا بلکہ حکمران طبقے کی ہمہ وقت اپنی جیبیں بھرنے کی فکر نے جمہوری روح کو بڑی بے دردی سے ذبح کیا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کرسی پر بر اجمان کسی بھی شخص کو یہ یاد نہیں رہتا کہ یہ کرسی بالکل عارضی ہے اور بڑی ہی محدود مدت کیلئے ہے لہذا اس کے عطا کردہ اختیارکے مطابق فیصلے کئے جائیں اور کرسی کے تقدس کو ہر حال میں بحال رکھا جائے لیکن ایسا ہو تا نہیں بلکہ اپنی کرسی کے زعم میں مبتلا شخص ایسے فیصلے کرتا جاتاہے جسے وہ اپنی انانیت میں صحیح تصور کرتا ہے لیکن جو بنیادی طور پر صحیح نہیں ہوتے ۔جنرل ضیا الحق کی عدلیہ نے بھی یہی سوچا تھا کہ ذولفقار علی بھٹو ایک فرد کا نام ہے اور جیسے ہی اس فرد کا کام تمام کر دیا جائیگا سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا لیکن عدلیہ ذولفقار علی بھٹو کی ذات سے عوام کی جڑی ہوئی محبت کو دیکھنے سے قاصر تھی اور ان کی اسی کوتاہ نگاہی نے وہ گل کھلائے کہ ملک کی سالمیت اور یکجہتی دائو پر لگ گئی اور ملک میں ایسی تفریق نے جنم لیا جسے کوئی بھی ختم نہ کر سکا ۔عدلیہ جنرل ضیا الحق کی دکھائی گئی راہ پر چل پڑی اور بھول گئی کہ عدلیہ کی مسند سے انھیں ایک دن رخصت ہو جانا ہے اور پھر ان کے فیصلوں کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے ۔ اپنے فیصلے کے کئی سال بعد عدلیہ کا یہ تسلیم کرنا کہ بھٹو قتل کیس میں ہم پر دبائو تھا اور ہم اس دبائو کو سہہ نہیں سکے عدالتی قتل کا بین ثبوت ہے۔

ہم آئین کے آرٹیکل چھ کی بابت تو بہت بحث کرتے ہیں اور آئین کی پامالی پر بڑا شور مچاتے ہیں لیکن ایک منتخب وزیرِ اعظم کو بے گنا ہ سرِ ادر کھینچنے والوں کے خلاف کوئی مقدمہ دائر کرنے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بابت سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔آئین انصاف کے تقاضوں کو وبر و ئے کار لانے کا حکم دیتا ہے اور اگر عدلیہ کی مسند پر بیٹھے ہوئی معزز ججز اس حکم کی خلاف ورزی کریں تو کیا انھیں کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے ؟ذولفقار علی بھتو کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور اس قتل کے کرداروں کو بے نقاب کیا جا نا انتہائی ضروری ہے ۔ججز کو نظر بند کرنا کیا ایک منتخب وزیرِ اعظم کو قتل کرنے سے بڑا فعل نہیں ہے؟ذولفقار علی بھٹو کا قتل ایک انتہائی سفاکانہ فعل ہے اور اس قتل میں ملوث سارے کرداروں کے خلاف بھی مقدمہ دائر ہونا چائیے۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون میں ترمیم کرنی ہوگی اور اپنی مرضی اور پسند کا انصاف دینے کا سلسلہ رک جانا چائیے کیونکہ اس رویے نے پاکستان کی یکجہتی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ دائر کرنے کی باتیں بہت ہو رہی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے سزا بھی سنا دی جائے لیکن کیا یہ مسائل کا حل ہے؟ کیا اس سے طالع آزمائوں کا راستہ روک لیا جائیگا؟کیا اس سے جمہوریت کو توانائی حاصل ہو جائیگی ؟کیا اس سے جمہوریت پر عوام کا اعتماد بحال ہو جائیگا؟ کیا اس سے جمہوری نظام کو مضبوطی مل جائیگی؟کیا اس سے عوام مطمئن ہو جائیں گئے اور کیا اس سے وہ سارے دیرینہ مسائل جسے پاکستانی قوم پچھلے کئی سالوں سے بھگت رہی ہے حل ہو جائیں گئے؟عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ہمارے حکمران ذاتی سکور کرنے کی بجائے اصل مسائل  کے حل پر اپنی توانائیں صرف کریں کیونکہ مسائل کا حل ہی جمہوریت کی مضبوطی کی بنیاد بنے گا۔اگر مسائل حل ہو ں گئے تو جمہوری نظام کی فیو ض و برکات ہی جمہوریت کو مضبوط کرنے کا باعث بن جا ئیںگئے اور اگر مسائل حل نہ کئے جا سکے تو پھر عوام ایسی جمہوریت سے بے زار بھی ہو جائیں گئے اور اس کے دفاع سے غافل بھی ہوجائیں گئے کیونکہ انھوں نے جس مقصد کیلئے جمہوری نظام کو قائم کرنے کیلئے جدو جہد کی ہو تی ہے وہ اپنے ثمرات دینے سے قاصر ہوجاتی ہے۔

 ذولفقار علی بھٹو کے قتل کے بعد بھی اگر عدلیہ کا دل نہیں بھرا تو وہ ایک اور لاش دینے کا بندو بست کر لے اور دیکھ لے کہ اسطرح کے سفاکانہ افعال کے قومی یکجہتی پر کیا اثرات مرتب ہو نگئے ؟ذولفقار علی بھٹو عوامی قائد تھا اور عوام اسے بے پناہ چاہتے تھے اور اسی عوامی طاقت سے پی پی پی نے تین مرتبہ اقتدار کا مزہ چکھا ہے ۔جنرل پرویز مشرف عوامی طاقت کا نہیں بلکہ فوجی قوت کا نمائندہ ہے اور فوج اسکی پشت پر کھڑی ہے ۔ کچھ لوگوں کو اگر یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ فوج آرٹیکل چھ پر عمل داری میں جنرل پرویز مشرف کو تنہا چھوڑ دیگی تو وہ غلطی پر ہیں ۔فوج اپنے سابق سپہ سالار کی یوں تضحیک برداشت نہیں کریگی۔اگر فوج اپنی بیرکوں سے باہر نہیں نکل رہی تو یہ کسی کی جمہوری طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ فوج کی جمہوری نظام سے کمٹمنٹ کی بدولت ہے۔فوج کا راستہ نہ کسی نے کل روکا تھا اور نہ کوئی آئیندہ روک پائیگا کیونکہ فوج پاکستان میں طاقت کا سب سے بڑا مرکز ہے اور اسکی معا ونت کرنے والے جاگیردار اور وڈیرے اس کے ساتھ ایک ایسے غیر مطبوعہ معاہدے میں بندھے ہوئے ہیں جس سے انھیں فوج کی ہر حال میں حمائت کرنی ہوتی ہے۔موجودہ ممبرانِ اسمبلی کا چٹا چٹھا کھول لیں ۷۰فیصد سے زیادہ مبرانِ اسمبلی فوجی معاونت کے مجرم نکلیں گئے۔یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹؁ کے فوجی شب خون کی بجائے ۳ نومبر کے ایمرجنسی کے نفاذ پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانا چاہتے ہیں تا کہ ان کی صفوں میں چھپے ہوئے طوطا چشم ممبرانِ اسمبلی محفوظ ہو جائیں اور ان پر کوئی حرف نہ آئے۔پاکستانی عوام لاشیں اٹھانے کی بجائے دھشت گردی،انرجی کرائسس،لوڈ شیڈنگ۔ ،قرضوں کے بوجھ،،مہنگائی کی لعنت اور کرپشن میں ملوث افراد کا محاسبہ چاہتے ہیں اور انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔آئین کے ساتھ کھلواڑ ایک سنگین جرم ہے لیکن پاکستانی خزانے کو بے دریغ لوٹنا اس سے بھی بڑا جرم ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کو سزا دینے سے چند افراد کی انا کی تسکین تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے کرپشن کے اس کلچر کو جس نے پاکستانی معیشت اور خزانے کا بیڑا غر ق کیا ہے اسکی حالت نہیں سنبھل سکتی لہذا عوام کی یہ خواہش ہے کہ ملک میں ایسے قوانین بنائے جائیں جن سے ملکی خزانہ محفوظ ہو جائے ۔ کچھ لوگوں کو مسائل میں رہنے کا شوق ہوتا ہے اور ہر ایک سے جھگڑا کرنا، انھیں نیچے گرانا اور اپنی انانیت کو تسکین دینے کا جنون ہوتا ہے۔ان کی اس حرکت سے جمہوری قدروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ملکی استحکام بھی متاثر ہوتا ہے۔یہ سچ ہے کہ میاں برادران پنجاب اور وفاق میں حکمران ہیں جس کی شہ پر وہ اپنے مخالفین کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔انھوں نے یہ روش ۱۹۹۷؁ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی اپنائی تھی اور اسے ملک بدری پر مجبور کیا تھا۔اب آئین کے نام پر وہی حرکت جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی دہرانا چاہتے ہیں۔غداری کاموجودہ مقدمہ ذاتی انتقام کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔(جاری ہے)

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *