Home / Socio-political / ۔،۔ لال مسجد کمیشن ۔،۔

۔،۔ لال مسجد کمیشن ۔،۔

۔،۔ لال مسجد کمیشن ۔،۔

طارق حسین بٹ(چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم)

 پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے لال مسجد اپریشن پر جسطرح کا طوفان کھڑا کیا تھا اس نے جنرل پرویز مشرف کی شخصیت کو نہ صرف مجروح کر کے رکھ دیا تھا بلکہ اسے ایک ایسے بے رحم اور سفاک حکمران کی حیثیت سے بھی پیش کیا تھا جس نے اپنے اقتدار کے دوام کی خا طر وطن کی معصوم بچیوں کا قتلِ عام کیا تھا۔یہ پروپیگنڈہ اتنا زہر آلود تھا کہ جنرل پرویز مشرف کیلئے اپنے دامن کو بچانا بڑا مشکل ہو گیا تھا۔اس نے بڑی صفائیاں پیش کیں ، بڑی یقین د ہا نیاں کروائیں اور بڑے ثبوت پیش کئے لیکن مخصوص مذہبی گروہ، مسلم لیگ (ن) اور شدت پسند حلقے ا س کی بات کا اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ میڈیا کی اپنی مجبوریاں ہیں۔اسے مرچ مسالحہ چائیے اور اس سے بڑا مرچ مسالحہ اور کیا ہو گا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے جامعہ حفضہ کی بچیوں کا قتلِ عام کیا ہے اور لال مسجد کے اندر بے گناہوں کا خون بہایا ہے ۔میڈیا نے اس مو ضو ع پر اپنے چیلنز پر ایسے ایسے مذاکروں کا اہتمام کیا کہ جھوٹ پر سچ کا گمان ہو نے لگا ۔ میاں برادران ا ور ان کے حوا ری اس طرح کے منفی پروپیگنڈے کو ہوا دینے میں پیش پیش پیش تھے کیونکہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو ایک آدم خو ر کے روپ میں پیش کرنا تھا ۔ میاں برادران کی بقا  اسی میں تھی کہ جنرل پرویز مشرف کی ذا ت کو متنازع بنیا جائے تا کہ اقتدار سے اس کی رخصتی آسان ہو جائے اور میڈیا نے اس تصور کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں میاں برادران کا پھر پور ساتھ دیا۔ نواب اکبر بگٹی قتل کیس اور لال مسجد اپریشن انہی مقاصد کے تحت اچھالے گئے تھے تاکہ عوام جنرل پرویز مشرف کی حکو مت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اقتدار ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) کی جھولی میں آ گرے ۔ ایسا بظا ہر ممکن تو نہ ہو سکا لیکن پھر بھی میاں برادران نے ہمت نہ ہاری اور پروپیگنڈے کا یہ ہنر مستقل آزماتے رہے جس سے جنرل پریز مشرف کی شخصیت  مجروح ہوتی رہی ۔ میاں برادران خریدو فروخت کے بڑے ماہر ہیں لہذا جنرل پرویز مشرف کے خلاف بہت سے صحا فیوں اور قلم کاروں کو خریدا گیا اور ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو ایک سفاک اور بے رحم شخص ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا نا ہے اور میڈیاکے چند اینکرز نے نمک حلالی کا پورا حق ادا کیا اور میاں برادران کے دئے گئے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اپنا پورا زور لگایا ۔میڈیا نے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر جنرل پرویز مشرف کی کردار کشی میں کو ئی دقیقہ فراموش نہ کیا۔یہ تو بھلا ہو لال مسجد کمیشن کا کہ جس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے۔سارے الزامات جو بد نیتی، بد دیانتی اور ذاتی مفادات پر منحصر تھے ان کا صفایا ہو گیا ہے او ر جنرل پرویز مشرف کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے عناصر کو منہ کی کھانی پڑی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کا لال مسجد اپریشن کے سنگین الزامات سے بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے ۔دشمنوں نے تو پوری کوشش کی تھی کہ جنرل پرویز مشرف ان الزامات کے اندر ہی دفن ہو جا ئیں لیکن سچائی کی قوت نے انہیں بچا لیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ مکر و فن میں ماہر وطن دشمن استحصالی گروہ پرویز مشرف کو پھانسنے کے لئے کون سا نیا وار کرتا ہے ۔

لال مسجد کمیشن کی رپورٹ کے مطابق لال مسجد اپریشن میں ۱۰۳ افراد ہلاک ہوئے جن میں کوئی بھی خا تون نہیں تھی ۔۹۲ افراد سویلین تھے جبکہ۱۱ سیکورٹی افراد تھے ۔ سولہ افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔۸ جولائی ۲۰۰۷؁ سے ۴ دسمبر  ۲۰۱۲؁ تک جاری رہنے والی اس انکوائری میں ہلاکتوں کے حو الے سے مختلف رپورٹیں جمع کروائی گئی تھیں جن کی روشنی میں کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ لال مسجد اپریشن میں ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی خا تون شامل نہیں تھی ۔اب اس کا کیا کیا جائے کہ لال مسجد اپریشن کو بنیاد بنا کر بہت سی سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنی دوکانداری چمکاتی رہیں اور لوگوں کو بیوقوف بناتی رہیں ۔مذہبی جماعتوں نے اس مو ضو ع پر جس طرح کے طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا تھا ا س کی روشنی میں ان کی ساکھ کو کافی نقسان پہنچے گا۔عوام پہلے ہی مذہبی جماعتوں کے دہرے معیار کی وجہ سے مذہبی جما عتو ںپر اعتماد نہیں کرتے لیکن لال مسجد کمیشن کی اس رپورٹ کے بعد ان کی رہی سہی عزت بھی خا ک میں مل جائیگی۔یہ منظر تو سب نے دیکھا تھا کہ اسلام آباد کی شاہرائوں پر ایک خاص مذہبی جماعت کی خواتین ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے امن و امان قائم کرنے کا کردار ادا کر رہی تھیں۔بہت سے پولیس والے ان کے ہاتھوں سے گرفتار بھی ہوئے تھے ،بہت سی ویڈیو دوکانوں کو جلایا بھی گیا تھا اور بہت سوں کو لوتا بھی گیاتھا۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہ سب کچھ مذہب کے نام پر روا رکھا گیا تھا۔ تھوڑے دنوں کے بعد اس کاروائی میں دھشت گردی کا عنصر بھی شامل ہو گیا اور اسلام آباد کے عین وسط میں چند دھشت گردوں نے قانون نافظ کرنے والے افراد کو یرغمال بنا لیا اور لال مسجد میں ڈیرے جما لئے۔یہ صورتِ حال کئی ماہ جاری رہی ۔ حکومت نے یرغمال بنائے گئے افراد کو چھڑوانے کی کوشش کی تو انھیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ لال مسجد میں اب اسلحہ بردار موجود تھے ۔حکومت نے مذاکرات سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔مسجد میں چھپے ہوئے دھشت گرد وں نے جو مطالبات پیش کئے انہیں کما نڈو پرویز مشرف نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔  مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مسجد کے اندر چھپے ہوئے ان دھشت گروں کی جانب سے فوج پر گولہ باری کی گئی جسے ٹیلیویژن پر لائیو (ڈائرکٹ) دکھایا بھی گیا تھا۔اس گولہ باری سے ایک بریگیڈ ئر اور کئی فوجی جوان شہید بھی ہو گئے ۔آخرِ کار حکومت کو اپریشن کرنا پڑا کیونکہ اس کے علاہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔اس اپریشن میں ہلاکتیں یقینی تھیں لیکن دھشت گردوں کی پشت پناہ چند مذہبی جماعتوں نے اس اپریشن کو جس طرح سفاکیت کا رنگ دیا وہ سمجھ سے بالا تر تھا۔مشرف دشمنی میں مسلم لیگ (ن) بھی انہی عناسر کی ہمنوا بن گئی اور اس نے ایسا شور و غو غہ بلند کیا کہ اصل ھقائق اس شور و غو غہ میں دب کر رہ گئے ۔۔

امن و امن کو قائم کرنا کسی بھی ریاست کی بنیا دی ذمہ داری ہوتی ہے اور اسے یہ ذمہ داری ہر حال میں پوری کرنی ہوتی ہے۔ریا ست کو اس بات سے کوئی غر ض نہیں ہو تی کہ اس کے بالمقابل کون کھڑا ہے۔اسے صرف اتنا علم ہوتا ہے کہ ریاست صرف اسی صورت میں قائم رہتی ہے جب اس کی رٹ قائم رہتی ہے۔ ریاست کی رٹ ختم ہوئی تو پھر ریاست بھی ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے  لہذا اس رٹ کی خا طر کبھی کبھی بڑے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور زہر کا پیالہ خود اپنے ہاتھوں سے پینا پڑتا ہے لیکن ریاست کے استحکام اور بقا کو ہر حا ل میں قائم رکھا جاتا ہے۔ لال مسجد اپریشن انہی مشکل فیصلوں میں ایک فیصلہ تھا۔ حکومت نے بہت ٹا ل مٹول سے کام لیا۔کئی روز تک اس مسئلے کو باہمی گفت و شنہد اور مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی ۔کوئی ایسا راستہ نکالنے کا عزم کیا جس سے شدت پسند عناصر عوام کو یرغمال بنانے سے باز آ جا ئیں لیکن مذہبی حلقے کسی بھی بات کو سننے کیلئے تیار نہیں تھے۔وہ ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔بد امنی اور انارکی ایک دفعہ منہ زور ہو جائے تو پھر جگہ جگہ اپنا مسکن بنا لیتی ہے اور عوام قانون شکن گروہوںکے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جس سے ریاست کا امن و امان غا رت ہو جاتا ہے اور شہریوں کی زندگیاں غیر محفو ظ ہو جاتی ہیں۔یہ وہی کیفیت ہے جو اس وقت ملک کے بہت سے شہروں میں اپنے خو نین پنجے گاڑھے ہوئی ہے۔کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں،روز لاشیں اٹھ رہی ہیں اور انسانی خو ن بڑی بے رحمی سے گلیوں میں بہایا جا رہا ہے ۔ عوام اس قتل و غا رت گر ی سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ امن کو ترس گئے ہیں لیکن امن ان سے روٹھ چکا ہے۔وہ امن و امان کیلئے بار بار فوجی اپریشن کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن حکومت کسی ایسے اپریشن کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔فوج بھی ان مطالبات پر کان نہیں دھر رہی کیو نکہ بعد میں ان کی پگڑی اچھالی جاتی ہے ۔ پاکستان کی ساری صورتِ حا ل ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح دھشت گرد بے خوف بنے ہوئے ہیں اور حکومت کی رٹ ان کے سامنے بالکل بے بس ہو چکی ہے ۔ حکومت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ کوئی بڑا اپریشن کر کے ملک میں امن و امان قائم کر سکے اور دھشت گروں کی سفا کانہ سرگرمیوں سے ملک کو محفوظ بنا کر اپنے شہریوں کو امن و امان کا تحفہ دے سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *