Home / Articles / ۲۰۱۱کی ادبی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر

۲۰۱۱کی ادبی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر

نورین علی حق


سال ۲۰۱۱؍ گزر چکا ہے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے سال کا ہم محاسبہ کریں کہ اس سال ہم نے ادب و فن کیلئے کیا کیا ۔ یہ سال اردو ادب کیلئے خوش آئند ثابت ہوا اس سال کے اہم ناولوں میں ’ لے سانس بھی آہستہ، مشرف عالم ذوقی، پلیتہ ، پیغام آفاقی ، مانجھی، غضنفر کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں اول الذکر نے قارئین کو شاد کامیوں سے سر شار کیا اور سبق اردو ، ابجد نے اس پر خصوصی شمارے شائع کرنے کا اعلان کیا۔ نور الحسنین نے تحریر نو، نومبر ۲۰۱۱کے شمارے میں لے سانس بھی آہستہ پر اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یہ ناول پچاس سال آگے کا ناول ہے ۔یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذوقی نے اس گزرتے ہوئے سال کو بڑا عظیم تحفہ دیا ہے ۔ جسے برسوں فراموش نہیں کیا جاسکتا اس پر اور اس کے علاوہ دیگر دونوں ناولوں پر مضامین و مقالات کا سلسلہ جاری ہے اس کے علاوہ خالد جاوید کا ناول’ موت کی کتاب‘ بھی فراموش نہیں کی جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ خالد جاوید جدیدیت کے معروف فکشن رائٹر ہیں اور اس سے پہلے بھی اہم افسانے اور ناول وہ قارئین کے حوالے کر چکے ہیں ۔ موت کی کتاب پر سید محمد اشرف کا مضمون خاصے کی چیز ہے اور حق تو یہ ہے کہ سید محمد اشرف نے ہی اس کے مطالعہ کا حق ادا کیا ہے ورنہ ایسے بھی لوگ ہیں جن کی رائے ہے کہ ۲۰۱۱میں خالدنے جدیدیت سے ہٹ کر لکھا ہے اور مایوس کیا ہے ۔اس سال قابل ذکر افسانوی مجموعے میں طارق چھتاری، شوکت حیات، شائستہ فاخری، نجمہ محمود کے افسانوی مجموعے سامنے آئے اور انھوں نے افسانوی راہوں کو مزید ہموار کیا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خانقاہ ہوں سے متعلق افسانہ نگار نسبتاً اچھے افسانے تخلیق کر تے ہیں ۔ شائستہ فاخری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بھی ایک عظیم خانقاہ سے خاندانی طور پر مر بوط ہیں ان کے علاوہ ساجد رشید کا افسانوی مجموعہ’ ایک مر دہ سر کی حکایت ‘بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بے شمار نا قابل فراموش افسانے دیئے اور ان کے انتقال کے بعد ایک مر دہ سر کی حکایت کے نام سے ان کا آخری افسانوی مجموعہ شائع کر کے ان کے بہی خواہوں نے اردو طبقہ پر بڑا احسان کیا ہے۔ اس سال سید محمد اشرف، حسین الحق تخلیقی سطح پرخموش تماشائی بنے رہے، البتہ حسین الحق کے افسانوی مجموعہ ’نیو کی اینٹ ‘پر اس سال زیادہ تر مضامین و مقالات سامنے آئے ۔ نیو کی اینٹ ۲۰۱۰کے اخیر میں شائع ہوا تھا اس لیے اس کا زیادہ شہرہ ۲۰۱۱میں ہی رہا ۔ مشرف عالم ذوقی کا افسانوی مجموعہ’ ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ بھی اس سال آیا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ذوقی زودنویس ہیں لیکن غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ان کا یہ مجموعہ سات سالوں بعد منظر عام پر آیا ہے ۔

ا س سال نارنگ صاحب کی کاغذ آتش زدہ ، شہزاد انجم کی تنقید ی جہات، سرور الہدیٰ کی شہر یار ، کوثر مظہری کی کتاب جمیل مظہری پر آئی ان کتابوں کی خاصی شہرت رہی۔ اس کے علاوہ ادبی رسائل و جرائد میں گر ما گرم موضوعات پر تنقید ی مضامین شائع ہوتے رہے اور داد و تحسین بھی حاصل کر تے رہے ۔رسائل میں آج کل ، ایوان اردو، تحریر نو ، آمد ، سبق اردو، دہلیز ، نیا ورق ، ذہن جدید،اثبات ،اذکار ، فکر و تحقیق نے اچھے شمارے شائع کئے لیکن سب سے بڑی کامیابی اردو دنیا کو ملی کہ وہ ملٹی کلر میں بڑے سائز میں نکلنے لگا اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو کا وہ واحد ماہنامہ ہے جسے بین الاقوامی سطح کے رسائل و جرائد کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے بڑی خوشی کی بات یہ رہی کہ قومی کونسل کے ڈائرکٹر حمید اللہ بھٹ نے اس کی قیمت نہیں بڑھائی اور وہ رسالہ پرانی قیمت پر ہی اب بھی دستیاب ہے ۔ آج کل اور تحریر نو نے ادبی مباحثے کی راہیں ہموار کیں ،جہاں آج کل میں افسانہ کے حوالہ سے گرما گرم بحث چھڑی وہیں تحریر نو میں بھی بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس کے مباحثوں میں جو نام خاص طور پر سامنے آئے ان میں اسیم کاویانی، سید محمد اشرف، حسین الحق، نجمہ محمود، مشرف عالم ذوقی ، عین تابش نے اہم کر دار ادا کیا اس سال غالباً پہلی مر تبہ حسین الحق جیسے صوفی با صفا پر بھی طالبانی ذہنیت کے لوگوں نے کفر کا فتویٰ عائد کیا اس طرح اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ حسین الحق کا قد بھی اس سال بڑھا ہے اور وہ اب سر سید، اقبال جیسوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں ۔ بہار سے آمد کی رسم اجرا بڑی خوش آئند رہی اور اس نے آنے کے ساتھ ہی ایک نئی امید اردو طبقہ میں بیدار کی ۔ دیدہ ور بھی خوش اسلوبی کے ساتھ نکلتا رہا ۔ خاص طور پر آج کل کے مدیر ابرار رحمانی کے اداریے خوب خوب سراہے گئے ۔ فیض صدی کے موقع پر آج کل ، ایوان اردو نے خصوصی گوشے شائع کئے ۔ فکر و تحقیق نے انتہائی خوبصورت اور لائق مطالعہ نمبر فیض پر شائع کیا۔ آج کل نے مجاز پر بھی خصوصی گوشہ شائع کیا، جسے پسند کیا گیا گو کہ اس سا ل احمد علی فاطمی نے اتر پر دیش اردو اکادمی کے ذریعہ مجاز کے حوالہ سے کچھ نہ کرنے پر جم کراس کی کھینچائی کی ۔

ڈاکٹر محمد کاظم کی کتاب داستان گوئی،انیس اعظمی کی اردو تھیٹر اور آغا حشر شائع ہوئی ،نئی نسل کی ڈاکٹر زیبا زینت کی ’پر واز قلم‘ کا اجرا راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے کیا ۔ ان کے دیگر مضامین نے بھی قارئین کو خوش کیا ،اس سال بزم سہارا نے بھی اچھے شمارے شائع کئے، نئے لکھنے والوں کو جگہ دی اس کا سفر بھی اچھا رہا ۔ روایت کے مطابق پورے ہندوستان میں مشاعرے، سیمینارو سمپوزیم ہوتے رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ٹیگور ، جے این نے پروفیسر محمد حسن اور اردو اکادمی نے ادب کی ذیلی اصناف پر سیمینار کا انعقاد کر کے اپنے سفر کو خوب سے خوب تر کرنے کا اشارہ دیا۔فیض صدی کی مناسبت سے اس سال کے ڈرامہ فیسٹول کو اردو اکادمی نے فیض کے نام منسوب کیا ۔پروفیسر اختر الواسع کی اردو اکادمی کے وائس چیئر مین کی حیثیت سے تقرری پر جس طرح کی بے وقوفانہ بحث شروع ہوئی تھی وہ اس سال اپنی موت آپ مر گئی ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئر مین معروف شاعر وسیم بریلوی ہوئے ۔ کئی سالوں بعد راجستھان اردو اکادمی کی تشکیل نو ہوئی ۔ اردو اکادمی نے اردو ثقافت میلہ کا انعقاد کر کے لال قلعہ کے احاطے میں اردو والوں کو داخل کیا ، یہ میلہ پورے سال کا سب سے اہم پروگرام رہا ۔ اس میلہ نے یہ ثابت کر دیا کہ پروفیسر اختر الواسع اور انیس اعظمی کتنے با ہنر اور وسیع النظر ہیں ۔ اپنی بے علمی کے باوصف مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اتنے سارے اہم پرو گرامس ایک جگہ شاید پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ہوتے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا ۔ یاد آتا ہے کہ روایت کے مطابق اس بار بھی مشاعرہ جشن جمہوریہ اپنی پوری آن، بان، شان کے ساتھ منعقد ہوا تھا اور مدارس کے طلبہ نے اس میں جم کر حصہ بھی لیا تھا ۔ یادش بخیر اسی بار ایک ضعیف العمر نے ضعیف العمر ممتاز شاعر وسیم بریلوی کو اسی مشاعرے جشن جمہوریہ میں گیت پڑھنے کیلئے انہیں ان کی جوانی کی قسم دی تھی ۔ اسی سال معروف فکشن نگار حسین الحق دو مہینے کے ادبی سفر پر امریکا گئے اور وائس آف امریکا سے ان کے دو پروگرام بھی نشر کئے گئے اوردیگر اردو کے ادبی پروگراموں میں بھی ان کی شرکت رہی ۔ غالباً سفر نامہ بھی آخری مرحلے میں ہے ۔ اس بار گیان پیٹھ ایوارڈ شہر یار کو دیا گیا اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کیلئے خلیل مامون کے نام کا اعلان کیا گیا۔

شاعری کے حوالے سے صلاح الدین پر ویز کی کتاب بنام غالب، تابش مہدی کا مجموعہ ’غزل نامہ‘ بیک ردیف قابل ذکر ہیں۔ ادبی رسائل و جرائد میں اچھی شاعری ہوئی ۔ ساجد رشید ، صلاح الدین پر ویز، منشا یاد جیسے اہم ادبا ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔ شعوری طور پر میں نے یہاں چند ہی نام کا تذکرہ کیا ہے کہ ابھی سال کے آخری لمحات باقی ہیں اور مزید کی گنجائش باقی ہے ۔ یقینا نئے سال کی ابتداء اردو طبقہ کیلئے بھی نئے عزائم لے کر آئے گی اور ۲۰۱۲میں اس سے بہتر ادب لکھا جائے گا۔اردو والوں کو نئے سال کی ڈھیر ساری مبارک بادیاں

خواب آنکھوں میں سلامت ہے ابھی اجڑا ہے کیا

ہم  ابھی  تک  ہیں  سفر میں  ابھی    بدلا  ہے  کیا

alihaqnrn@yahoo.com

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *