Home / Articles / عبد الرؤف بندھن : ہند ۔موریشس دوستی اور فخر کی علامت

عبد الرؤف بندھن : ہند ۔موریشس دوستی اور فخر کی علامت

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

b8

عبد الرؤف بندھن : ہند ۔موریشس  دوستی اور فخر  کی علامت

          موریشس کو جنت نشاں ملک کہا جاتاہے لیکن اس کے آباد ہونے سے آزاد ہونے تک کی کہانی بہت کر ب انگیز ہے ۔تاریخی روایات کی رو سے جب یہ ملک برطانوی تسلط میں تھا تو اس کی باز آباد کاری کے لیے ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ دیگر کالونیز سے غلاموں کو یہاں لایا جائے ، اس غرض سے انھوں نے ہندستا ن کے غریب مزدروں کو ایک سبز باغ دکھایا اور مکر وفریب سےبڑی تعداد میں بہار اور یوپی کے مزدروں کو موریشس لانے میں کامیاب ہوئے ۔انھوں نے ان معصوم مزدوروں کو بتایا کہ ہم تمہیں کچھ دنوں کے لیے ایک ایسے ملک میں نوکری دینے جارہے ہیں جو بہت ثروت مند ملک ہے ۔اس ملک کے جس پتھر کو تم اٹھاؤگے وہاں سے سونا برآمد ہوگا اس میں سے خاطر خواہ حصہ تمہارے لیے مختص ہوگا ۔ چنانچہ بڑی تعداد میں لوگ تیار ہوگئے ۔ اس طرح برطانوی فریب میں یہ موریشس پہنچ گئے ۔یہاں وہ سب کچھ نہیں تھا جس کا سبز باغ انھیں دکھایا گیا تھا۔یہاں وہ بندھوا مزدور بنائے گئے ، سخت اذیت میں انہیں رکھا گیا ، دن رات ان سے موریشس کی سرزمین کو ترقی دینے اور کاشتکاری کاکام ان سے لیا گیا ۔یہ چند جملوں میں لکھی گئی داستان صدیوں کی درد بھری کہانی ہے ۔ ہندستان سے جانے والے یہ افراد جو دراصل موریشس کی تعمیر ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ہیں ۔ ہندستان سے جاتے وقت واپسی کا ایک سنہر اخواب لے کر گئے تھے لیکن حالات کے جبر نے انھیں واپسی کی اجازت نہیں دی توانھوں نے  اپنی دنیا کی خود تعمیر کی۔ موریشس میں انھیں ہر پتھر کے نیچے سونا تو نہیں ملا لیکن موریشس کے کونے میں ان کی جانفشانیوں اور قربانیوں کے نشانات موجود ہیں ۔اس دردو کرب کی داستان کو کسی بھی تاریخ میں پڑھ سکتے ہیں لیکن یہاں کی ایک ایسی بھی تاریخ ہے جو ہندستان سے جانے والے جیالوں نے اپنے خون جگر سے لکھی ہے ۔    عبد الرؤف بندھن کے اسلاف کا تعلق ہندستان کی سرزمین سے ہے ۔ ان کے اباؤاواجداد یوپی کےضلع گونڈا کے ایک قصبے سے وہاں گئے اور پھر وہی ان کا مسکن بن گیا ۔ اسی خاندان میں ایک عبد الرؤف نے موریشس میں آنکھیں کھولیں ۔ عبد الرؤف  نے بچپن سے غربت میں زندگی گزاری ، ان کے والدین بنیادی طور پر سونار کے پیشے سے وابستہ تھے ۔ موریشس میں اس وقت زندگی گزارنی مشکل تھی تو کوئی زیورات کہاں سے خرید سکتا تھا لہذا انھو ں نے بھی مزدوری  سے ہی گزران کیا، بعد میں اس پیشے کو بھی اپنایا ۔ عبد الرؤف کے والدین نے انھیں اس خاندانی پیشے سے جوڑنا چاہا مگر وہ تعلیم کی طرف بہت راغب تھے اور قدرت نے ایک ذہن رسا دیا تھا اور کچھ ایسی مدد بھی ملی کہ وہ اسکول تک پہنچ سکے ۔ انھیں دنوں موریشس میں آزادی  کی تحریک زوروں پر تھی ۔ یہ چونکہ شروع سے عوامی خدمت سسے جڑے  ہوئے تھے اور اس سمت میں کافی نمایاں خدمات انجام دی تھی ۔ اس تحریک کے ساتھ بھی وابستہ ہوگئے ۔ موریشس میں ایک ایسی بھی جماعت تھے جو آزادی کی مخالف تھی اس وقت ملک کے لیے حالات بہت دیگر گو ں تھے لہذا سیاست نے موریشس کو بھی تعصب ، نفرت اور فرقہ وارانہ فسادات میں جھونک دیا ۔ ان سب حالات میں عبد الرؤف سر شیوساگر رام غلام کے ساتھ وابستہ ہوکر وطن کے لیے بہت نمایاں روال ادا کیا اور عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھا ۔ایک الیکشن میں شکست بھی ہوئی لیکن جب کامیابی ملی تو بہت نمایاں کامیابی نے ان کی شہرت کو بلندی تک پہنچایا۔موریشس کی آزادی کے حق  میں جو حکومت بنی تھے وہ اس کے حصہ دار تھے ۔ا ن کی خدمات کے عوض انھیں کئی اعلیٰ منصب بھی ملے میں سفیر موریشس برائے  فرانس اور آخر میں موریشس کے نائب صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ فرانس میں رہتے ہوئے انھوں نے جس طرح کے منفرد کام کیے وہ آج بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ مورشن  عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانا ،ان میں بھائی چارگی  کا جذبہ بیدر اکرنا جو وقت کی بڑی ضرورت تھی۔نائب صدر جمہوریہ کے طور پر انھوں نے کئی دفعہ قائم مقام صد رکی بھی  ذمہ داری نبھائی اور اپنے خلوص اور وطنیت کے جذبے سے بھر پور زندگی کے سبب انھیں موریشس  میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ ہند ی الاصل ہیں اس لیے ہندستان میں بھی ان کی بہت پذیرائی ہوئی۔اندار گاندھی انھیں بہت عزیز رکھتی تھیں ۔ ہندستان اور موریشس کے درمیان تہذیبی اور ثقافتی  رشتوں کی بحالی میں بھی ان کا بڑا کام ہے ۔علم دوستی ان کی خاص صفت ہے انھوں نے موریشس میں کتاب پڑھنے کی عادت  کو بڑھانے کے لیے کئی عملی اقدامات کیے اور نوجوانوں کا تفریحی مشاغل سے جوڑنے کے کئی انوکھے تجربے کیے اسی لیے انھیں موریشس کے علاوہ کئی  ممالک سے بڑے اعزازات ملے ان میں ہندستان سے پرواسی بھارتیہ ایوارڈ  بھی ہے ۔ اس ایوارڈ  پر انھیں بہت فخر ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ اعزا ز مجھے اپنے آبائی وطن کی مٹی سے جوڑتا ہے ۔موریشس میں اردو ڈارمہ فیسٹیول جو آج بھی ہر سال منعقد ہوتا ہے انھیں کی  کوششوں کا نتیجہ ہے ۔

ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کی جانب سے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں ماریشس کے سابق صدر جمہوریہ جناب عبدالرؤف بندھن کی سوانح اور شخصیت پر مشتمل کتاب ’’تقدیر‘‘ کی تقریب رونمائی عمل میں آئی۔ یہ کتاب فرنچ اور انگریزی کے بعد اب اردو زبان میں منتقل کی گئی ہے اس اہم کام کا سہرا جناب عنایت حسین عیدن اور ان کی اہلیہ محترمہ ریحانہ صاحبہ کے سر جاتا ہے، جنھوں نے اردو میں ترجمہ کیا اور پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے ترتیب و تزئین کے مراحل سے گزار کر بندھن صاحب کو اردو کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔نیز انھوں نے تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ بہت ہی خوشی کا موقع ہے اہل اردو کے لیے اور ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے لیے کہ موریشس کے سابق نائب صدر جمہوریہ کی زندگی پر مبنی کتاب اردو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
عبدالرؤف بندھن صاحب ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ انھوں نے بیوروکریٹ، ڈپلومیٹ، منسٹر اور نائب صدرجمہوریہ کی حیثیت سے ملک و ملت کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔ انھوں نے پوری زندگی انسانوں کی خدمت کی اور موریشس میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں بہت ہی نمایاں رول ادا کیا۔عزت مآب جناب عبدالرؤف بندھن صاحب ان کی اہلیہ اسما بندھن ، عنایت حسین عید ن، ریحانہ عیدن اس کتاب کی تقریب رسم اجرا میں شرکت کے لیے موریشس سے تشریف لائے ۔ انھوں نے اپنے تجربات و خیالات کا اظہار اردو زبان بھی میں بڑے ہی جذباتی انداز میں کیااور ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور سفیراردو پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور دیگر ذمہ داران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعائیں دیں۔
اس خوب صورت موقع پر سابق سفیر ہند برائے موریشس جناب انوپ کمار مدگل صاحب سابق صدر جمہوریہ عزت مآب جناب عبدالرؤف بندھن صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ اسما بندھن جناب عنایت حسین عیدن اور ان کی اہلیہ محترمہ ریحانہ صاحبہ اور جناب مشرف عالم ذوقی صاحب گروپ ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا اور پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی ، صدر شعبہ اردو خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی اور فارسی یونیورسٹی، لکھنو نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
جناب انوپ کمار مدگل صاحب سابق سفیر ہند برائے موریشس نے اپنے خطاب میں کہا کہ موریشس کے قیام نے کثرت میں وحدت اور جمہوریت کا بہترین سبق دیا اور ذہن و فکر کو مکمل کردیا اور وہاں کی تہذیب و ثقافت نے بے حد متاثر کیا۔نیز موریشس کی جمہوریت کی ایک الگ پہچان ہے۔پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی نے ’ تقدیر ‘ پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں جدو جہد کی بھرپور غذا موجود ہے جس سے ہم سب یکساں طور پر مستفید ہورہے ہیں۔ تقدیر صرف بندھن صاحب کی آب بیتی نہیں ہے بلکہ جگ بیتی ہے۔ بندھن صاحب گرچہ موریشس میں اپنی انفرادی شناخت قائم کرتے ہوئے بہت اہم اور بامعنی خدمات انجام دی ہیں لیکن ان کا دل ہمیشہ ہندوستان کے لیے دھڑکتا رہتا ہے جو ہم سب کے لیے خوش آئیند بات ہے۔ پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ جمہوری رہنماؤں کو عوام سے جتنا قریب ہونا چاہیے تھا اس کی صحیح تصویر موریشس میں دیکھنے کو ملتی ہے اور جناب عبدالرؤف بندھن صاحب موریشس کے جمہوری نظام کے معمار ہیں۔موریشس اور ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی مماثلت کے باعث اس کو چھوٹا ہندوستان بھی کہا جاتا ہے۔یہاں کی آب و ہوا میں ہندوستان کا رس شامل ہے۔ مشہور فکشن نگار اور راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر جناب مشرف عالم ذوقی صاحب نے کہا کہ موریشس نہ صرف منی ہندوستان ہے بلکہ وہ مکمل بھوجپوری ہے۔ نیز ہند وموریشس کے قدیم ترین رشتے کو یاد کیاکہ موریشس کے خوب صورت جزیرہ کو ہندوستان کے مزدوروں نے اپنے خون و پسینہ سے آباد کیا۔واضح رہے کہ اس پروگرام میں پروفیسر سید اختر حسین ، صدر انسٹی انٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز، پروفیسر انور پاشا، سابق چیئر پرسن ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہرلال نہرویونیورسٹی ، ڈاکٹر توحید خان، ڈاکٹر سمیع الرحمن، ڈاکٹر خالد مبشر ڈاکٹر عبدالحی، ڈاکٹر شاہد ڈاکٹر سجاداختر ڈائریکٹر براؤن بک پبلی کیشنزکے علاوہ کثیر تعداد میں دہلی کی جامعات سے ریسرچ اسکالروں نے شرکت کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شفیع ایوب نے انجام دیے۔

b5 b2 b3 b4 b IMG_2277 IMG_2201 IMG_2150

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *