Home / Articles / تاشقند میں دو روزہ عالمی کانفرنس

تاشقند میں دو روزہ عالمی کانفرنس

ادب میں ایشیائی تہذیب وثقافت  کے عنوان سے تاشقند میں  دو روزہ عالمی کانفرنس

تاشقند اسٹیٹ یونیورسٹی آف اوریئنٹل سڈیزکے جنوبی ایشیائی زبانوں اور ادب کا مرکز۔سینٹر آف ساؤتھ ایشین لینگویج اینڈ لٹریچرکے زیر اہتمام ” ادب میں تہذیب و ثقافت کی عکاسی ” کے عنوان سے دو روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد 18-19 ستمبر 2025 کو تاشقند میں کیا گیا۔اس کانفرنس میں وسط ایشیائی ممالک اور برصغیر کے تہذیبی و ثقافتی ،علمی و ادبی اشتراک کےتاریخی تناظر اور مستقبل میں اس کے فروغ کے مزید امکانات پر غور کیا گیا۔اس کانفرنس کے انعقاد میں ڈاکٹر نیلوفرخود جائیوا، صدرشعبۂ جنوب ایشائی زبان و ادب ،پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور پروفیسر محیا عبد الرحمانوا کی خصوصی دلچسپی اور کاوشوں کا دخل رہا جو مستقبل میں ان علمی وادبی روابط کے ذریعے ایشیاء میں ایک بہتر تحقیقی ماحول پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔اس دو روزہ کانفرنس میں میزبان ملک کے سکالرز کے علاؤہ ہندوستان ، پاکستان اور ایران کے مندوبین نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔اس دروزی کانفرنس میں اردو ، ہندی، انگریزی اور ازبیکی زبان میں تقریباً چالیس مقالے پیش کیے گئے۔جن میں ازبیکی زبان کے دیگر زبانوں میں مشترک الفاظ اور تہذیبوں کے باہم لیں دین کے مختلف مراحل بھی زیر بحث ائےاور کلاسیکی و جدید ادبیات میں تہذیبی وثقافتی پہلوؤں کی عکاسی کو بھی پیش کیا گیا۔بدلتے ہوئے عصری تناظر میں ایسی علمی و ادبی مجالس اقوام عالم کے درمیان بہتر تعلقات کے فروغ اور زبان و ادب کی ترقی میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں آئی سی سی آر کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب ابھے کمار نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ وائس ریکٹر پروفیسر دربیک سیف اللہ ایف نے صدارت کی اور پروفیسر قدرت اللہ امامنوف اور پروفیسر شہرت مرضیاتوف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس سیمنار کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی۔افتتاحی اجلاس کے خصوصی خطاب میں پروفیسر خواجہ اکرام نے جنوبی ایشیائی زبانوں کے مرکز کی ستائش کی اور اس کانفرنس کو برصغیر اور ازبکستان کے مایبن تہذیبی و ثقافتی روابط کی تجدید نو سے تعبیر کیا ۔انہوں نے مستقبل میں بھی ایسے مشرک علمی وادبی تعاون پر زور دیا جس سے نئی نسل تک اس وراثت کو پہنچانے میں مزید آسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔انہوں نے اس کانفرنس کو اس حوالے سے کلیدی پیشرفت قرار دیا ۔پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے اپنے خطبے میں بھارتی ثقافت کے اعلیٰ اقدار پر روشنی ڈالتے ہوئے مشترکہ ایشیائی ثقافت کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ ثروت مند بتایا اوربھارتی ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے عالمی اخوت، ہم آہنگی اور ثقافتی تنوع کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ڈاکٹر ملکھان سنگھ نے اپنے خطاب میں “سروے بھونتو سکھن ” اور “وسودھیو کٹمبکم” کو بھارتی ثقافت کی بنیادی روح قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی ثقافت کی بنیاد انسانی فلاح، بقائے باہمی اور عالمی اخوت پر قائم ہے۔ انہوں نے تہذیبی ہم آہنگی، توازن اور مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل کا اہم ستون بتایا۔ڈاکٹر نصیب علی نے کشمیر کی ثقافت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی متنوع روایات، فنون اور ادب بھارتی ثقافت کا لازمی حصہ ہیں۔ انہوں نے کشمیر کو “زمین کی جنت” قرار دیتے ہوئے اس کے ثقافتی ورثے کی عالمی اہمیت پر زور دیا۔

پاکستان کے مندوبین میں پروفیسر جمیل اصغر، پروفیسر صدف نقوی، ڈاکٹر شگفتہ فردوس ، پروفیسر عمرانہ شیزادی اور ڈاکٹر فاطمہ جلال نے شرکت کی ڈاکثر افضال بٹ نے کانفرنس میں آن لائن اپنا مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر شگفتہ فردوس نے اردو ’’معاصر اُردو نظم میں تہذیب و ثقافت کی عکاسی‘‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تہذیبی و ثقافتی حوالے سے اردو شاعری کا تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو شعرانے نہ صرف اپنی زمیں سے اپنے رشتے کو استوار کیا بلکہ عصری شعور کی حامل وہ نظمیں لکھیں جو پاکستان کے ثقافتی رنگوں کو نمایاں کرتی ہیں اور عالمی تناظر میں تہذیبی و ثقافتی حوالے سے لکھی جانے والی نظمیں اتحاد و یکجہتی اور امن عالم پر زور دیتی ہیں ۔ ڈاکٹر جمیل اصغر نے ’’ جرنیلی سڑک ‘‘ کے حوالے بر صغیر کی تہذیب و ثقافت کو پیش کیا ، پروفیسر صدف نقوی نے اردو میں پنجابی تہذیب و ثقافت کے عنوان سے مقالہ پیش کیا ، پروفیسر عمرانہ نے عربی ادب میں تہذیب و ثقافت کی عکاسی اور ڈاکٹر جلال فاطمہ نے اردو افسانے میں برصغیر کی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ اس پروگرام میں شریک تمام اسکالرس اور شرکا نے ایشیائی ممالک کے مابین ثقافتی روابط کو مزید مستحکم کرنے کی وکالت کی۔اس پرگرام میں بڑی تعداد میں اساتذہ ،اسکالرس اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی ان میں قابل ذکر پرفیسر الفت محب، ڈاکٹر تمارا خودجاییوا،ڈاکٹر مخلصہ شاہرہ میدوا، ڈاکٹر مرتضی مکتوبہ خودجائیوا۔ڈاکٹر ماہیرا عمروا،ڈاکٹر امیدہ ذاکیروا، شاہجہان سعداللہ ایف ۔ڈاکٹر کمالہ رحمت جانوا،نادرہ سعید نظوروا نے شرکت کی۔تاشقند سٹیٹ یونیورسٹی آف اورینٹل سذیز میں منعقدہ اس کانفرنس میں عالمی امن و سلامتی اور تہذیبی تنوع کے تحفظ اور تعاون کی ایک عملی فضا قابل ستائش تھی ۔

About admin

Check Also

سائبر پنک لٹریچر ۔نیا ادبی رویہ

سائبر پنک لٹریچر: نیا ادبی رویہ ادب انسانی  ذہن کی تخلیق ہے جو معاشرتی   بیانیہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *