Home / Articles / جے این یو کی لال دیواریں اور میرے شب و روز

جے این یو کی لال دیواریں اور میرے شب و روز

جے این یو  کے در ودیوار کو دیکھتے ہوئے 21 سال؛ ہو گئے ، جب میں  پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں تو اب بھی  وہی جیل جیسی لا ل دیواریں نظر آتی ہیں ، سوچتا ہوں دنیا کتنی بدل گئی ہے لیکن یہاں تو کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی ، ہاں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے وہ ان لال دیواروں کے پیچھے ایک   گلابی محل  بھی موجود ہے ،جسے جے این یو  والے ((Pink Palace   کہتے ہیں ۔آج تک   یہ راز نہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر ان دیواروں کو ایسا رنگ کیوں دیا گیا؟  شاید اگلے سال  الومنی میٹ کے موقعے سے نکلنے والے  میگزین میں کوئی جواب مل سکے۔

خیر بات لال دیواروں کی ہورہی تھی  مجھے اچھی طرح یاد ہے  جب پہلی دفعہ  جولائی 1887 میں یہاں آیا تو  مجھے کسی بھی طرح یہ کیمپس اچھا نہیں لگا۔ کیونکہ ہر طرف ایک ہی طرح کی عمارتیں تھیں  اور پہاڑیوں میں پھیلے ہوئے اس کیمپس میں کہیں قاعدےکا  پارک تک نہیں دکھا ۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کیمپس کی کون سی خاص بات ہے کہ یہیں  کے لوگ حکومت چلاتے ہیں اور یہیں دنیا کے سب سے ذہین  اسٹوڈینٹس رہتے ہیں ،  دنیا میں جے این یو کے نام سے ایک خوف اور دہشت ہے کوئی طالب علم ملے یا ٹیچر جلدی کوئی ان سے بات نہیں کرتا کیونکہ انھیں سب سے زیادہ قابل سمجھا جاتا ہے ۔  جس وقت میں آیا وہ دوپہر کو وقت تھا ، جھیلم لان میں اپنے ایک سینئر دوست ڈاکٹر ابو الیث  اور ڈاکٹر ابرار رحمانی کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ میں ان کے علاوہ کسی کو جانتا  نہیں تھا ، اس وقت ڈاؤن کیمپس میں کلاسیزہوتی تھیں ۔ ان کے انتظار میں دو گھنٹے اسی گنگا  ہوسٹل کے  سامنے  گزارا ، اس درمیان جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ میرے لیے تعجب خیز تھے ۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ وہی جگہ ہے  جہاں  دوستوں کے دن رات یہیں گزرنے والے ہیں۔خیر  اپنے سینئر سے ملنے کے بعد ایڈمیشن کے لیے دوڑ دھوپ شروع ہوئی لیکن مجھے ایڈمیشن نہیں مل سکا کیونکہ میرا رزلٹ لیٹ سے آیا۔ نا امید ہوکر پٹنہ چلا گیا ۔لیکن میں نے وہاں کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن نہیں لیا کیونکہ ان لال دیواروں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور یہ سوچ کر واپس گیا کہ اگلے سال پھر آنا ہے ۔ الله کا شکر ہے اگلے سال ایڈمیشن مل گیا ۔ یہاں آکر سب سے بڑی پریشانی یہ ہوئی کہ آپس میں کسی سے بات چیت کرتے ڈر لگتا تھا کیونکہ سب لوگ انگریزی میں باتیں کرتے تھے ، انگریزی میں گپ لڑاتے تھے ، انگریزی میں محبت کرتے تھے ، انگریزی میں جھگڑا کرتے تھے اور اسی زبان میں بھاشن دے کر الیکشن بھی لڑتے تھے ، اب جب میں نے اپنے آپ کودیکھا تو کسی کام کا نہیں پایا ۔ میں ارود بیک گراؤنڈ سے آیا تھا اس لیے نہ تو کسی سے محبت کر سکتا تھا اور نہ کسی سے لڑائی ، بڑی مشکل میں جان تھی دل کو سمجھایا چلو اردو پڑھنے آئے ہیں ،کلاس میں تو اچھا کریں گے ۔لیکن یہاں تو مشکل اور بھی بڑھ گئی ۔ پروفیسر محمد حسن کی کلاس میں حاضری ہوئی انھوں نے مارکسزم پر کلاس شروع کی ۔ایک تو پہلی دفعہ مارکسزم سے سابقہ پڑا کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اوپر سے حسن صاحب اردو سے زیادہ انگریزی بول رہے تھے اور جو کتابیں پڑھنے کو کہا وہ بھی انگریزی کی تھیں ۔حسن صاحب کی کلاس کے بعد رات میں جو سپنا دیکھ کر تیس مار خان بن رہے تھے وہ سپنا منٹوں میں چور چور ہاگیا ، دل میں آیا یہ کہاں چلے آئے کہ ارود بھی انگریزی میں پڑھنی پڑے گی۔ لیکن  مرتا کیا نہیں کرتا  دوستوں سے کٹر مٹر انگریزی سیکھنی اور بولنی شروع کی ۔آہستہ  آہستہ لوگوں سے دوستی ہوتی گئی اور سب سے زیادہ دوستی کرنے والے، لال سلام والوں سے  دعا سلام ہونے لگی ۔ یہ لوگ بھی دوستی کا خوب گُر جانتے تھے ہم جیسے لوگوں سے ارود میں میٹھی میٹھی باتیں کر کے دوست بنا لیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ  یہ دوستی کا  راستہ سیاست تک جاتا تھا ۔ جی ہاں ابھی ایک سال بھی نہیں گزرے تھے کہ ہم  نیتا ؤں کے دوست بن گئے اور جس مارکسزم کو ٹھیک سے سمجھا بھی نہیں تھا اس کا نعرہ لگانے لگے۔ اب کیا تھا  دوستی خوب بڑھی  ،مطلب سیاست میں خوب مزا آنے لگا ۔ لیکن شکر ہے کہ ہم سب نے شکیل خان کو آگے کر دیا اور کاونسلر سے پریسیڈنٹ تک بنا دیا ۔ بس یہ کہیے کہ ان کے چلتے   پردے کے پیچھے ہم دوستوں کی سیاست بھی چلتی رہی ۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت ہمارے  سینٹر کاخوب چرچا رہا ۔ پہلے شکیل خان پھر پرنے کرشن اور بتی لال ،پریسیڈنٹ بنے ۔ ایسے سنیٹر میں اب ہماری بھی خوب چلنے لگی اس لیے  ہم لوگوں نے  سب سے پہلا کا م یہ کیا کہ اپنے ٹیچرس کو  اردو بولنے پر مجبور کیا اس طرح ہم خوب انگریزی پڑھنے سے بچ گئے ۔اور باقی وقت جے این یو میں طرح طرح  کے پروگرام کرنے میں جٹے رہے ۔

ایک کام جو ہم نے کیا وہ اب  بھی لگتا ہے واقعی بہت اچھا کیا ۔ اس وقت ہمارے سینئر ڈاکٹر توحید خان جو ابھی آل انڈیا ریڈیو میں نیوز ایڈیٹر ہیں ،   ہم لوگوں کا خوب حوصلہ بڑھاتے تھے اور نئے نئے آیئڈیا دیتے تھے ان کے مشورے سے ہم  سی آئی ایل والوں نے 1989 میں   ‘‘ رفتار ’’ کے نام سے ایک  لٹریری  فارم  بنایا ۔ پہلی مٹینگ میں خود تو حید خان اور ڈاکٹر انور پاشا  جو  سی آئی ایل میں ایسو سی ایٹ  پورفیسر  ہیں ، موجود تھے ، ان دونوں نے  مجھے سیکریٹری اور شکیل خان کو صدر بنایا ۔ اس کے ذریعے ہم لوگ ہر اتوار کو کسی میس میں بیٹھے تھے اور کسی لٹریری ایشو پر بات کرتے تھے ۔ اس فارم کا سب سے زیادہ فائدہ ہم نے اٹھا یا کیونکہ میں دو بار سیکریٹری اور ایک بار صدر رہا۔ ہم نے اپنے اسکول میں بڑے بڑے پروگرام کیے اور دہلی کی بڑی ادبی شخصیتوں  کو بُلایا ۔ ہمارے استاذ پروفیسر نصیر احمد خان نے بھی ہماری خوب مدد کی اور رفتار کے ہر پروگرام کے لیے وقت دیتے تھے ۔ ان کی مدد سے اردو اور ہندی کی کئی بڑی ہستیاں جیسے پاکستان سے جمیل جالبی اور دہلی سے قرة العین حیدر جیسی اور  بھی بڑی بڑی شخصیتوں سے رو برو ملاقات ہوئی ۔ مجھے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دو تین برسوں میں ہی مجھے دہلی کی لٹریری سرکل میں لوگ جاننے لگے اور جے این یو میں تو  ایک پہچان  بن گئی ۔ میں اگر یہ کہوں کہ میری کامیابیوں کے لیے رفتار ادبی فارم نے ایک سیڑھی کا کام کیا تو غلط نہیں ہوگا ۔ لیکن میں ہی نہیں بلکہ جو جو لوگ بھی رفتار سے جڑے رہے وہ آج کسی اچھی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھا رہے ہیں ۔ اور میں انھیں لال دیواروں والے کیمپس میں موجود ہوں۔ سچی بات یہی ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے آنے والا خواجہ اکرام یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ جے این یو جیسی یونیورسٹی میں پڑھنے پڑھانے کو موقع ملے گا ۔میرے کلا س ساتھیوں ، سینئر دوستوں  ، ٹیچرس ، میرے گائیڈ نصیر احمد خان اور رفتار ادبی فارم کی یہ دین ہے بڑے بڑے لوگوں کے بیچ یہ چھوٹا شخص بھی جے این یو کی خدمت  کر رہا ہے۔

जे.एन.यु की लाल दीवारें और मेरे शब- व  – रोज़

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

3 comments

  1. خوشتر نورانی

    بہت ہی متاثر کن مضمون ہے،اس مضمون کے ذریعے جے این یو کو مزید قریب سے جاننے کا موقع ملا-میں جے این یو کے بارے میں جو کچھ بھی معلومات رکھتا ہوں یا تو خواجہ اکرام سے گہرے مراسم کی بنیاد پر یا پھر ان کے اس مضمون کی وجہ سے-اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!

  2. ڈاکٹر اشرف لون

    عمدہ تحریر سر۔۔معلوماتی۔۔۔اللہ سلامت رکھے۔۔۔آمین

Leave a Reply to خوشتر نورانی Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *