Home / Socio-political / عوامی صدا برائے عوامی راہنما

عوامی صدا برائے عوامی راہنما

 

عوامی صدا برائے عوامی راہنما
                     عباس ملک

عوام جمہوریت کی پشت بانی کرتے ہوئے خود پشت کے بل گر ے ہیں۔ انہیں جمہوریت اور جمہوری فکر نے وہ فوائد نہیں دئیے جس کی وہ امید رکھتے تھے ۔عوام نے جمہوری راہنمائوں کی ہر غلطی کوتاہی اور نااہلی کو نظرانداز کر کے ان کے ہر جھوٹ پر یقین کرتے ہوئے انہیں جس پذیرائی سے نوازا بدلے میں عوام کو اس سے زیادہ ذلت اور رسوائی سے دوچار ہونا پڑا ۔عوام نے سیاسی قائدین کو جن محبتوں اور عقیدتوں سے نوازا دیکھنے میں یہی آیا کہ انہوں نے عوام کے اس عمل کے ردعمل میں انہیں اپنی میراث اور اس کو اپنا حق گردانا ۔ حالانکہ وہ اس منصب پر فائز ہونے سے پہلے عوام کو یہی یقین دلا رہے ہوتے ہیں کہ وہ اگر انہیں موقع دیں تو وہ ان کے خادم اور بھائی بن کر ان کی خدمت کریں گے۔اس منافقت بھرے اور دھوکہ سے بھرپور رویے نے جمہوریت کے حسن کو ماند کر رکھا ہے۔

 حقیقی عوامی راہنما کی تعریف پر کوئی سیاسی پورا اترتا نظر نہیں آتا۔ سب اقتدار واختیار کی تلاش اور حصول کیلئے سیاست کی وادی میں قدم رکھتے ہیں۔ چونکہ اس وادی کا دروازہ عوامی مقبولیت وقبولیت کی چابی کے بغیر کھولا ہی نہیں جا سکتا تو اس کیلئے انہیں عوام جیسی نجس مخلوق کو منہ لگا نا پڑتا ہے۔ ایسے میں دولت کے زور پر بھی عوام کو یہ یقین دلانے کے اسباب پیدا کر لیے جاتے ہیں جس سے عوام کو یہ گمان ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ وہ مسیحا ہے جس کی انہیں تلاش تھی۔ یہ ان کے زخموں کا تریاق جانتا اور ان کے دکھوں ومصائب سے نجات کے منتر سے اگاہ ہستی ہے۔جب بھی انہیں موقع دیا جاتا ہے یا یہ موقع خرید لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی بھیڑ کی کھال اتر کر ان کا اصل بھیڑیے کا روپ سامنے آ جاتا ہے۔ کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارا نہیں رہ جاتا۔ بعدازیں اس کمبل سے نجات حاصل کرنے کا مواقع شاذوناظر ہی ملتے ہیں ۔ یہ کمبل کئی کی جان لے کر ہی جان بخشی کرتا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت وجمہوری رویے نہ پنپنے کی بنیادی وجہ سیاسی راہنما آمریت کے ترجمان بن کر عوام کی راہنمائی آمرانہ رویوں کی طرف کرتے ہیں۔ سیاسی راہنمائوں کے لب ولہجہ اور ان کی چال ڈھال سے کہیں بھی ان کا عوام کے ساتھ تعلق جڑتا نظر نہیں آتا ۔ ان رویوں کی دیکھا دیکھی عوام میں بھی ایسی ہی فرعونیت کا فروغ پا رہا ہے۔ آمریت اور اجارہ داریوں کی وہ روایات قائم ہو چکی ہیں جن کو شاید  اب ختم کرنے کیلئے ہمیں کتنی قربانی دینی پڑے۔ انصاف مساوات عدل اب چراغ لے کر گھومنے سے بھی نہیں ملتا ۔ شرافت کو بزدلی اور کمزوری سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ سیاسی دھارے میں شرفاء کا داخلہ اسی طرح ہی ممنوع اور دشوار ہے جیسے کسی شریف آدمی کا لاہور قصائی گلی سے گذرنا مشکل ہے۔

عوام اپنے راہنمائوں کے طرز عمل سے ہی راہنمائی لیتی اور ان کی تقلید اور پیروی کرتی ہے۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ اگر ہمارے قائدین اپنے طرزعمل میں سادگی اور متانت لائیں تو معاشرے پر اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سادگی اور کفایت شعاری ہمارے معاشرے کی اب اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔اسراف اور دکھلاواہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھارہے ہیں۔ ہم اپنی اوقات سے زیادہ ان دونوں عناصر پر توجہ دینے کے سبب طرح طرح کی مشکلات کو جنم دے چکے ہیں۔ یہ صرف طبقہ اشرافیہ کے دکھلاوے کا ثمر ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں اس کے اثرات اس حد تک سرایت کر چکے ہیں کہ اب شادی اور ماتم پر بھی دکھلاوے کیلئے لوگ کچھ گروی رکھ کر اپنی عزت اور انا کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے آپ پر ظلم کرنے کی اس سے کریہہ مثال شاید ہی کسی معاشرے میں پائی جاتی ہو۔ یہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ہونے کے باوجود ثقافت کے نام پر ان کو ہمارے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے۔ اب نہ ان سے ہماری جان خلاصی ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کمبل ہماری جان لیے بغیر ہمیں چھوڑنے کو تیار ہے۔

معاشرے میں ککس بیک کی روایت کہاں سے سرایت کی ۔ہمارے ہاں فقیر مانگنے کی روایت کیوں پختہ ہو گئی ۔ حکمران کشکول لیے جب سارا سال دنیا کے سامنے گھومیں گے تو کیا قوم کو خوداری کا سبق حاصل ہوگا۔ راہنمائوں کے طرز عمل کو دیکھ کر کارکن بھی اسی نصاب کو اپنے لیے بہتر جان کر اس کو یاد کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ بہت تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے راہنمائوں نے مشرقی اور اسلامی روایات کی پاسداری ترویج اور ان پر عمل پیرا ہونے کی بجائے مغرب کی تہذیب اور غیر اسلامی روایات کی پاسداری کو اولیت اور اہمیت دی ہے۔ جمہوری قدروں کی بجائے آمریت کے طرزعمل کو زیادہ اولیت اور ترویج دی ہے۔ معاشرے میں ہر طرف راہنمائوں کے کردار کے حوالے سے ایسی خبریں اخبارات کے صفحات کی زینت بنی نظر آتی ہیں جس سے پڑھنے والے اس کو اپنے لیے سنگ میل جان کر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھکاری حکمرانوں کی رعایا بھکاری ہی ہوگی ۔وہ دوسروں کے مال کو ہتھیانے اور اس پرنظر رکھنے کے سوا کچھ نہیں سوچ سکتی۔ ان سے کبھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ امانت دیانت اور کردار کو اپنائیں۔ میاں صاحبان خود کو قائد اعظم ثانی اور خادم اعلیٰ کہلاتے ہیں لیکن کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ قائداعظم نے کن روایات کے آمین تھے۔ ان کا طریقہ کار کیا تھا اور آپ کا طریقہ کار کیا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان کو معاشی غلامی کے چنگل سے نکالنے کیلئے کچھ کیا جاسکے۔ کیا عوامی خزانے سے قائم کردہ ادارے بیچ کر عوامی خدمت کی جانب پیش قدمی ہو سکتی ہے یا مزید ادارے قائم کرنے سے عوام کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ پارلیمنٹ لاجز اور غریب پارلیمنٹرینز کے لیے ٹی اے ڈی اے اور انکی تنخواہ ومراعات کیلئے تو قانون ایک دن میں پاس ہو جاتا اور فنڈز بھی دستیاب ہیں ۔ لیکن کالا باغ ڈیم کیلئے فنڈز نہیں ہیں تھرکول پراجیکٹ کیلئے خزانہ خالی ہے۔ عوامی فلاح کے ہر فیصلے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ہے لیکن سیاستدانوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں اگر کوئی آڑے آ بھی رہا ہے تو اسے خاموشی سے یا کسی بھی طریقے سے راہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ کیا یہی جمہوریت اور یہی جمہوری اقدار ہے۔ راہنمائی کے نام پر راہزنی کا جو طریقہ اپنایا جا چکا ہے اس سے جمہوری راہ کو کوئی بھی فائدہ نہیں ۔ اونٹ کے منہ زیرہ کے مثل چند کمزور پراجیکٹس اپنے نام کی تختیوں سے مزین کر کے خادم اور ٹائیگر بنانے کے خواب کو حقیقت بتانے والے مداری عوام کے ساتھ تو دھوکا کر ہی رہے خود کو بھی دھوکا دے رہے ہیں ۔ پاکستان کو دولخت کرنے والے کو ہیرو جمہوریت کے مداریوں نے ثابت کیا۔ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے کا اقرار کرنے والوں کو پاکستان کے معاملات کا مختار جمہوریت کے پاسداروں نے بنایا ۔ تمام استحقاق و استثنا سیاستدانوں کیلئے ہے لیکن عوام کیلئے سوائے طفل تسلیوں کے کچھ نہیں۔ جھوٹ کو اتنا بول گیا کہ اب یقین ہونے لگا سچ یہی ہے۔سچ کو آج فرنٹ لائن اور فرنٹ سٹریم میں کوئی بھی جگہ دینے کو تیار نہیں۔ جتنا بڑا جھوٹا ہوگا اتنا ہی ترقی کرے گا۔ جمہوریت جھوٹ کی سیڑھی چڑھ کر کیسے اپنے وعدوں کی پاسداری اور عوام کی خدمت داری کا دعوی سچ کیسے ثابت کرے گی۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *