Home / Socio-political / دلوں پر نقش قرآن جلائے نہیں جاسکتے

دلوں پر نقش قرآن جلائے نہیں جاسکتے

          دلوں پر نقش قرآن جلائے نہیں جاسکتے

          نورین علی حق٭

          گزشتہ چند سالوں سے بالخصوص سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ کے تحت ایسے واقعات رونما کئے جا رہے ہیں جن کے ردعمل میں مسلمان سڑکوںپر نظر آنے لگتے ہیں ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے احتجاج و مظاہرہ میں عوام کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے ۔احساس کمتری اور شکست خوردگی میں ایسے نعرے لگائے جاتے ہیںجس کے نتیجہ میں مرتکبین کے کانوں پر جوئیں تک نہیں رینگتی اور وہ اپنا کام یکے بعد دیگرے انجام دیتے چلے جاتے ہیں۔اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اس طرح کے کئی واقعات شمار کرائے جاسکتے ہیں جن سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور دل کے آبگینوںکا ٹوٹ کر منتشر ہونا بھی فطری امر ہے۔ چوںکہ خود پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا کہ تم اپنے ماں باپ سے زیادہ محبت مجھ سے کرو ،اور قرآن پاک وہ منزل من اللہ کتاب ہے جو آپ ﷺپر نازل کی گئی ۔ اب کوئی رسول اعظم ﷺ یا قرآن پاک کے خلاف آواز بلند کرے گا تو مسلمانوںکو تکلیف پہنچنا ان کا دینی و ایمانی اور شرعی تقاضہ ہے ۔ چناںچہ اس حقیقت سے کماحقہ اسلام مخالفین بھی واقف ہیںجس کے نتیجہ میں کبھی وہ کارٹون سازی ،کبھی جوتوںپر اللہ لکھنے ،کبھی حجاب و نقاب پر پابندی عائد کرنے ،کبھی مسلمانوںکی داڑھیوں کو طالبانی قرار دینے ، کبھی قرآن سوزی کے اعلان کا ارتکا ب کرتے رہتے ہیں تاکہ مسلمان سکون واطمینان کا سانس نہ لے سکیں اور ایک زخم کے بھرنے سے پہلے وہ دوسرا زخم دینے کی سوچ لیتے ہیں۔

          حالاںکہ حیرت انگیز طور پر مسلسل جگر پر زخم لینے کے باوجود ہم اصل مداوا کی تلاش میں ناکام رہے ہیں۔کارٹون کی جب اشاعت ہوئی اس وقت بھی پوری دنیا کے مسلمان بشمول ہندوستانی مسلمانوں نے احتجاج و مظاہرہ کا سہارا لیا تھا،میمورنڈم دیا تھا ،تجارتی و سفارتی تعلقات کے انقطاع کا مطالبہ کیا تھا ،ڈنمارک کی حکومت اور کارٹونسٹ کے پتلے نذر آتش کئے تھے بس اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔پھر داڑھی ٹوپی ،حجاب و نقاب کے خلاف اٹھنے والی آوازوںکے خلاف بھی ہم نے مظاہرے کےے،عراق و افغانستان پر حملے کے خلاف بھی اور حملوں کے بعد بش کی ہندوستان آمد کے وقت بھی ۔اور اب بھی اس کا سہارا لے رہے ہیں۔جب کہ قرآن سوزی کے اعلان کے بعد بھی پادری ٹیری جونس اپنے اعلان پر اصرار کر رہا ہے ۔اسے اپنے اعلان پر ذرا بھی ندامت نہیں اور ہم ہیں کہ زبر دستی اس اعلان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں ،جب کہ اس اعلان سے قبل کے تلخ تجربات یہ ہیں کہ تمام تر احتجاجات کے باوجود افغانستان پر حملے کیے گیے ،عراقی صدر صدام حسین کو معزول کر کے عین عیدالاضحی کی صبح سولی پر چڑھا دیا گیا ،فرانس میں حجاب پر پابندی کو بھی کوئی میمورنڈم اور مظاہرہ روک نہ سکا ،جرمنی کی بھری عدالت میں حجاب پوش کو قتل کیا گیا۔ ہم ہر زخم کے لگنے کے بعد چیختے رہتے ہیں اور ہمیں کوئی پوچھتا نہیں۔ہماری آواز پر کوئی کان تک نہیں دھرتا،دوسراماننے کو تیار نہیں اور ہم منوانے پر اصرار کر رہے ہیں، وہی قتل بھی کرتے ہیں اور الٹا ثواب بھی حاصل کر لیتے ہیں تمام تر مظالم کے وہی ٹھیکہ دار ہیں ۔مسلمانوںکے خلاف عوامی رائے کی بحالی ،انہیں دہشت گرد ثابت کرنا بھی انہیں کا کام ہے، عملی دہشت گردی کا ثبوت فراہم کر نا بھی ۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ترکی امدادی قافلہ پر کس نے حملہ کیا ۔جوتوں پر اللہ کس نے لکھا یا لکھوایا ۔قرآن برن ڈے منانے کا اعلان کس نے کیا ۔

          حالاںکہ یہودی لابیز اور عیسائی مشنریز کا یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں قرن اول سے ہی اسلام کی مخالفت ان کا نصب العین رہا ہے۔”یر یدون ان یطفوانوراللہ بافواھھم“ میں بظاہر ”ولوکرہ الکافرون“ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے روشن و منور چراغ کو اپنے منہ سے کفار بجھانا چاہتے تھے یہ بھی بجا لیکن یہود ونصاری کی چیرہ دستیوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔اسلام و مسلمین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے یہ بھی کچھ کم خواہاں نہیں رہے ہیں ۔رسول اکرم ﷺسے کیے گئے عہد توڑنا،مسلمانوں کی تذلیل کرنا ،قرآن کو جادو بتانا ،فریب دینا دور نبوی میں بھی ان کا طریقہ کا ر تھا اور اب بھی ہے۔

           مسلمانوں کے خلاف کفار و مشرکین پیش پیش تھے ان کے خلاف انہوںنے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی یہاں تک کہ ہجرت کی رات ننگی تلواروں کے ساتھ کا شانہ نبوی کے اطراف میں پھیلے ہوئے تھے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ تمام تر مخا لفتوں ،مظالم،جبرو تشدد ،ظلم و ستم کو سہتے ہوئے بھی مسلمانوں نے کبھی احتجاج و مظاہرہ کا سہارا نہیں لیا ہمیشہ عزیمت سے کام لیتے رہے یا دعوت سے ایوان باطل کی تعداد میں کمی کرتے رہے چوں کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے اور ان کا اس بات پر بھی سوفی صد یقین و ایمان تھاکہ”ختم اللہ علی قلو بھم وعلی سمعمھم وعلی ابصارھم غشاوة“کے حقیقی مصداق جو اپنی مدد نہیں کر سکتے وہ ہمارا تعاون کیا کریں گے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مردے کبھی قبروں کی کھدائی نہیں دیتے

           پھر وہ کس کے سامنے احتجاج و مظاہرہ کرتے آج ٹھیک اسی طرح کے حالات موجودہ مسلمانوں کے سامنے اپنے بال و پر پھیلائے کھڑے ہیں ،مکی دور میں ہم سانس لے رہے ہیں ۔آج بھی دنیا کا سب سے بڑا ظالم سب سے بڑا سردار کہلا تا ہے ،آج بھی مال و زر ،حسن و شباب ،دولت کی ریل پیل سے مسلمانوں کا سودا کرنے کی کوشش کی جا تی ہے اور خدا نخواستہ سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین جےسے نا عاقبت اندیش فروخت ہوجاتے ہیں تو انھیں مکمل تحفظ،جان کی امان ،رہائش کی اعلی سہو لیات ،شراب وکباب کی آزادی فراہم کی جاتی ہے تاکہ بوقت ضرورت انھیں کام میں لایا جا سکے اور ان کے خلاف جب مسلمانوں کی جانب سے آواز بلند کی جاتی ہے تو میڈیا کے ذریعہ ذہن سازی کی جا تی ہے کہ آزادی اظہار کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو نی چاہیے ۔فی زمانہ ہمارے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ بغیر سوچے سمجھے نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ پس منظر میں اعلی ذہنی صلاحیتیں صرف کی جا رہی ہیں ،پالیسی ساز مسلسل ہمارے خلاف پالیسیاں وضع کرنے میں لگے ہیں ۔اپنے تشخصات سے دامن کش ہونے پر ہمیں نت نئے طریقے سے مجبور کیا جا رہا ہے، مسلم نوجوانوں کے اذہان پر شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ایسے پر فتن حالات میں بھڑک کر چنددفاتراور پتلوں کو آگ سے ہما را بھڑکا دیناناکافی ہے۔ ہمیں بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ہمیں بھی پالیسی ساز بننا پڑے گا اس لئے نہیں کہ ہم بھی غیروں کی طرح ان کے دین و ایمان پر حملے کریں بلکہ اس لئے کہ ہم ان کے فتنوں سے اپنے نشیمن کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوسکیں ۔ہمارا نوجوان طبقہ قولی وعملی دونوں سطحوں پر تشکیک کا شکار نہ ہو۔وہ ہمارے اعمال سے درس لے اور یہ کہے کہ یہی در حقیقت اسلام و مسلمین کا رد عمل ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔صلح حدیبیہ سے اکتساب فیض کرتے ہوئے کوئی ایسا عمل یامعاہدہ جس میں بظاہر مسلمانوں کا خسارہ دکھائی دیتا ہو لیکن فی الواقع وہ مسلمانوں کے حق میں ہو تو ہم اسے ضرور اختےار کریں ۔ہمیں دوسروں کے سامنے اپنے حقوق کی باز یابی کے لےے کاسئہ گدائی لے کر جانے کی قطعاکوئی ضرورت نہیں ہے ہماری کامیابی کی ضمانت قرآن پاک اور سنت رسول ﷺمیں مضمر ہے۔قرآن سوزی کے اعلان سے قرآن جل نہیں جائے گا اور اگر دشمنان اسلام اپنے دل کا بخار کم کرنے کے لئے قرآن کے چند نسخے جلا بھی دیتے ہیں جب بھی قرآن پاک کی صداقت پر انگشت نمائی نہیں کی جا سکتی ۔آج اقوام عالم کے پاس قرآن پاک کے علاوہ کوئی دوسری ایسی کتاب نہیں ہے جس پر ساڑھے چودہ سو سال کا طویل عرصہ گزر گیا ہو اور وہ معانی و الفاظ ،اعراب واشکال کے ا عتبار سے سو فی صد محفوظ ہو ۔یہ شان صرف قرآن پاک کی ہے کہ وہ نزول کے بعد سے اب تک پوری طرح محفوظ ہے چوں کہ اس کے نازل کرنے والے نے فرما دیا ہے۔”انانحن نزلناالذکروانالہ لحافظون“آج جس طرح قرآن پاک کے الفاظ و معانی کاغذ کے صفحات پر درج ہیں اسی طرح قرطاس دل پر بھی نقش ہیں۔قرآن پاک کے جتنے حفاظ ہیںدوسری کسی کتاب کے حفاظ نہیں ہیں ۔اگر قرآن پاک کے حفاظ کے بالمقابل کسی دیگر کتاب کے حفاظ کا سروے کرایا جائے تو حفاظ قرآن کے مقابلہ میںان کی تعداد ایک فی صد بھی نہ ہو گی ۔پر لطف بات تو یہ بھی ہے کہ قرآن پاک کے الفاظ ومعانی کو حفظ کرنے والے صرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ یہودو نصاری بھی ہیں ۔یہ الگ بات ہے مسلم مثبت فکر کے پیش نظر قرآن کو حفظ کرتے ہیں اور مستشرقین منفی افکار کے پیش نظر ۔البتہ حفظ معانی و الفاظ قرآن کے معاملہ میں دونوں شریک ہیں ،کسی کا مقصد پیغام قرآن کی مثبت ترسیل ہے اور کسی کا مقصد قرآن کے پیغامات والفاظ اورمقاصد کی تحریف و تحذیف ہے۔بہر حال فرعون کا گھر موسیٰ کے وجود سے خالی نہیں ہے، قرآن پاک کا یہی سب سے بڑا معجزہ ہے۔

           رہی بات ردعمل کی کہ مسلمان احتجاج و مظاہرہ نہ کریں تو کیا کریں ؟اس کا ایک طریقہ امریکہ کی معروف تنظیم کئیر کونسل آن امریکن ریلیشنزنے نکالا اور اس وقت اس کے زیر اہتمام قرآن کے ایک لاکھ نسخے کی تقسیم کی مہم زورو شور سے جاری ہے یہ عمل بظاہر خوش گوار معلوم ہوتا ہے لیکن اس عمل میں خدشات بھی کافی ہیں اس مہم کے اعلان کے بعدسے ہی تمام مسلم طبقات مطمئن ہو گئے کہ ایک اچھا کام ہو رہا ہے ۔لہذا اس کے بعد اس سے بہتر رد عمل کی راہ نہیں نکل سکتی ۔یہ ایک واقعہ بھی ہے کہ اس مہم کے بعد احتجاج و مظاہرہ کا سلسلہ ذرا سرد بھی ہوا لیکن بہت ممکن ہے کہ انھیں ایک لاکھ نسخوں مین سے کئی نسخے ”برن قرآن ڈے “ کے حامیوں تک بھی پہنچ جائیں اور انھیں دلی تمنا پوری کرنے کے لئے قرآن پاک کے حصول کی ضرورت بھی نہ ہو۔دوسری بڑی بات یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں کبھی مبلغین اسلام نے مدعو اقوام کے ہاتھو ںمیں قرآن پاک کے نسخے دے کر خود خواب خر گوش میں مدہوش نہیں ہوئے۔قرآن پاک کا نزول تیئس سال کے عرصہ میں مکمل ہوا اور نزول وحی کی ابتدا اعلان نبوت کے بعد ہوئی جب کہ کتب تواریخ اس بات پرشاہد ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کی شخصیت اہل مکہ کے لئے عہد طفلی سے ہی مو ثر تھی لہذا سنت نبوی سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم پہلے اپنے آپ کو مو  ثر بنا ئیں بعد میں اقوام عالم کے ہاتھو ں میں احکا مات اسلام دیں ۔رسول اعظم  کی زندگی اسوہ اور نمونہ ہے وہ پاور ہاﺅس ہے ں سے روشنی سپلائی ہوتی ہے ،اہل بیت اطہار ،صحابہ کرام ،اولیا ءعظام ،ائمہ مجتہدین اس نور سے خود کو منور کرکے پہلے خود کو مو  ثر بناتے رہے ہیں بعد میں قومیں ان کی دست گر فتہ اورمتاثرہوئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پہلے قرآن پاک کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر خود کو مو ثر بنائیں،الفاظ و معانی و احکامات قرآنی کے محافظ بنیں پھر خود بہ خود ہماری مخالفتیں سرد پڑ جائیںگی۔  

          بہر کیف میرے خیال میں اس اعلان کا اس سے بہتر رد عمل اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ پوری دنیا کے مسلمان غیروں کے کسی عمل کا جواب نہ دے کر رمضان المبارک کے متبرک مہینہ کو بالاتفاق تلاوت قرآن پاک کا مہینہ Recite holy Quran monthقرار دےتے اور سفر و حضر کسی بھی حالت میں خود کو تلاوت قرآن میں مشغول رکھتے، قرآن میں پڑوسیوں ،مسافروں ،مدعواقوام کے حق میں جن آیتوں کا نزول ہوا ہے بالخصوص ان پر عمل کرتے پھر دنیا کا منظرنامہ یکسرمختلف ہو تا حالاںکہ ایسا نہیں ہو سکا ۔

          مخالفین کی حرزہ سرائیوں کوعملاناکام بنانے کے لےے پوری دنیا کے مسلمان عدم تشدد کا رویہ اختیار کرتے ہوئے خالص قرآنی حفاظت کے لئے اپنے ایک ایک بچہ کو حافظ قرآن بنانے کا اعلان کریں اور مدارس و مکاتب کے ذمہ داران اپنے نظام تعلیم کو درست کرلیں تو انشاءاللہ آئندہ تین سال کی قلیل مدت میں لاکھوں کی تعداد میں حفاظ قرآن تیار ہو جائیں گے اور مدارس میں موجود غریب و نادار طلبہ قرآن کے سلیقہ زندگی میں بھی واضح تبدیلیاں رونما ہو ںگی پھر کوئی چرچ اور پاسٹر اس طرح کے اعلان کی ہمت نہیں کر سکے گا چوں کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ مسلمان اپنے مخالفین کے منفی رویوں کو اپنے حق میں مثبت بنانے کی ڈگر پر چل رہے ہیں اور قرآنی تعلیمات بھی ہر گھر تک پہنچےں گی اس سے شہرو دیار فیض یاب ہو ںگے۔چند ہفتوں میں مدارس کھلنے والے ہیں ۔علماےے کرام دینی تعلیمی بیداری مہم چلائیں،وفودکی شکل میں علماواساتذہ مدارس گھرگھرپہنچ کراس بارزیورعلم سے آراستہ کرنے کے لےے ان کے بچوں کامطالبہ کریں ،درپیش حالات ومسائل اور چیلنجیزسے انہیں واقف کرائیں، ان کے بچوں کو قوم وملت کی امانت اورسرمایہ سمجھ کر نورقرآن سے ان کے قلوب کومنورکریں تاکہ دینی تعلیم غرباءکے لئے مختص نہ ہوہر مسلمان کم از کم اپنے ایک بچہ کو حافظ قرآن بنانے کی سعی کرے یہی سب سے بہتر اور مو ثر رد عمل ثابت ہو گا ۔

٭۹۱۔اے،نیوکالونی ماڈل بستی نئی دہلی۔۵

9210284453,alihaqnrn@yahoo.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *