سمیع اللہ ملک ، لندن
صدیوں پر محیط انسانی تاریخ میں عہدکی پاسداری کرناہمیشہ سے صاحبِ عزت واحترام قومی رہنماوں،قائدین یابرسرِاقتدارحکمران شخصیات کی قابل فخر شناخت رہی ہے۔عظیم جدوجہد اورکردارواعمال کی بھٹی میں تپ کر کندن ہونے والے رہنماو ں کاوعدہ ہی ان کی عظمت اورتفاخرہوتاہے اوران کانام قوموں کی تقدیربن جاتا ہے۔انسانی عظمت غلطیاں کرنے سے نہیں بلکہ غلطیوں پراصرارکرنے سے بربادہوتی ہے۔موجودہ غیریقینی کے دورمیںتعجب نہیں ہوناچاہئے کہ حرفِ انکار سے خوفزدہ افراد ،حکومت میں یامشاورتوں کی مسندوں پربراجمان اصل حکمران ،حکومت کے پشت پناہ ہی دراصل فکرمندہیں کہ اب اس مصیبت سے کیسے جان چھڑائی جائے جواب ہمیں اگلا نشانہ بناتے ہوئے ہمارے ہی آنگن کوخاکسترکرنے کےلئے بیتاب ہے۔
سرخروئی اورعزتِ نفس،بے آبروئی اوراحترامِ نفس سے عاری اناپرستی میں چندقدم کافاصلہ ہوتاہے۔اگردل میں اقتدارچھن جانے کاخوف،منصب سے زوال کاوسوسہ،اقتدارکی پستی کاوہم،احتساب کااندیشہ اور غیروں کی امدادسے محرومی کاخطرہ ہوتویہ معمولی سافاصلہ کبھی نہ عبورہونے والی عمیق وعریض خلیج ثابت ہوتاہے اوراگراندرکے عزم کی دنیاایمان کی شمع سے فروزاں،یقین کے نور سے تاباں،امیدکی قندیل سے روشن ومنوراورغیرت نفس کی دولت سے مالا مال ہوتوایک حقیرسی جست ہی اس موہوم خلیج کوعبورکرنے کےلئے کافی ہوتی ہے۔رہنمائی اورقیادت کادم بھرنے والوں کاسب سے بڑاامتحان یہی ہوتاہے کہ کسی فیصلہ کن موڑپرانہوں نے اپنی ذات کی نفی کرکے کسی بڑے مقصدکی پاسداری کی یاپھراپنے غیر مصدقہ اندیشوں اورحاشیہ نشینوں کی مشاورت سے جوان کے مکروہ ترین اعمال کی حسین ترین توجیہات کرسکتے ہیں،فریبِ نظرکی اس کھائی میںگرکرشائدزندہ تورہے لیکن عمربھراپنی متعفن لاش کواٹھائے ہوئے اقتدارکی نمائش لگاتے رہے ۔
صدرآصف علی زرداری ،وزیراعظم یوسف بے کارواںگیلانی ،ہماری سرحدوں کے نگہباںاوراس کورس میں شامل دفترِ خارجہ کے ترجمان فرماتے ہیںکہ اگراب امریکانے ایبٹ آبادجیساواقعہ دہرایاتوہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موجودہ کرداراداکرنے سے قاصرہوں گے،ہم امریکاکے غلام نہیںہیں بلکہ ایک آزادخودمختارملک ہیںوغیرہ وغیرہ۔ لیکن محترم حضرات!تفنن برطرف امریکانے برملااعلان کیاہے کہ وہ نہ توایبٹ آبادکے واقعے پرمعذرت کرے گااورنہ ہی آئندہ ایسے حملے کرنے سے گریزکرے گا۔ایک برطانوی اخبارنے انکشاف کیاہے کہ دس سال پہلے فاسق کمانڈوپرویزمشرف اوربش کے درمیان ایک معاہدہ ہواتھاجس میں یہ طے پایاتھاکہ امریکااپنے ٹارگٹ حاصل کرنے کےلئے ایسے ہی حملے کرے گاجس کے جواب میں پاکستان صرف واویلااورمذمت کرے گالیکن کوئی مزاحمت نہیں کرے گا۔
اب ہمارے صاحبانِ اقتدارقوم کوبتائیں گے کہ جن بلندبانگ دعووں کاانہوں نے ذکرکیاہے وہ لمحات کب آئیں گے اوروہ اپنے موجودہ کردارپرکب نظرثانی فرمائیں گے؟ویسے موجودہ کردارجس کی ادائیگی سے معذوری کااشارہ دیاجارہاہے اس کی تفصیل بھی بتادیجئے لیکن شائدآپ جانتے ہیں کہ ان کی تفصیل کاعلم توپرائمری اسکول کے بچوں تک کوہے جو آپ کوجمہوریت کے نام سے ایک آمرمطلق کے ذریعے ملفوف اذیت نامے سے ورثے میں ملی ہے اورجس کے پتے پراین آراوکی مہرثبت ہے۔پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کی ۴۲اکتوبرکی متفقہ قراردادکے باوجودابھی تک اس پرعملدرآمدکروانے کی ذمہ داری کس پرعائدہوتی ہے؟
اس واقعے کے بعدبلاشبہ اہل وطن میں یہ احساس راسخ ہورہاہے کہ ہمارے مقتدرقائدین اوران کے ماتحت تمام طاقتورادارے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کادفاع کرسکتے ہیں اورنہ ہی اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہمارے عزت سے عاری حکومتی ذمہ دار احمدمختاراور عبدالرحمان ملک حالیہ دنوں میں دوبارہ اپناموقف دہراتے ہوئے قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ ہم امریکاکے ڈرون ہوائی حملوںکے دفاع کی اہلیت سے محروم ہیں جبکہ اس کے برعکس دوسال پہلے فضائیہ کے (سابق) سربراہ نے اس کی برملاتردید کی کہ حکومت کی طرف سے اجازت اوراذن کی دیرہے،ہم ایسے حملوں کوجڑسے اکھاڑسکتے ہیںاورعملاً انہوں نے اس سے بہتر صلاحیت کے حامل اسرائیلی ڈرون طیارے کوتباہ کرکے اپنی صلاحیت کااظہاربھی کیاتھا۔
یہ ہے منافقت آمیزصلاحیت سے محرومی کاماتم اورعزم کے راستے میں شکست خوردہ ذہنیت کی دیوارجس کے پس پشت این آراوکازہریلاتناورخاردار پوداپھل پھول رہاہے۔ظاہر ہے یہ حددرجہ پریشان کن اوراذیت ناک تاثرہے۔وطن کاہرباشعورفردِ بشراس استدلال پرحیرانگی کی انتہاپرہے کہ امریکاکی جس(Crusade) مقدس مذہبی جنگ نے ہمیں آتش ودہن کی بارش میں خونِ مسلم کی ارزانی کے سواکچھ نہیں دیا،ہماری بستیوں میں بسنے والی انسانی مخلوق کادرندوںکی طرح شکارکیاجارہاہے، اب تک ۸۶بلین ڈالر کے ہمارے اقتصادی وسائل کوپامال کرکے ہمیں بھکاری بناکرعالمی چوراہے پرکھڑاکردیاگیاہے ۔صرف پچھلے تین سال میں۰۰۹۶سے زائددہشتگردحملوں میںہماری افواج کے چھ ہزار سے زائداور نو ہزارسے زائدپاکستانی عوام جبکہ اب تک چالیس ہزار سے زائد معصوم اوربیگناہ پاکستانی اس جنگ کاشکارہوچکے ہیں ۔۸۰۰۲ءسے لیکر اب تک ۸۸۲ڈرون حملوں میں ۰۰۷۱پاکستانی شہید کر دیئے گئے ،لیکن اس کے باوجوداعتمادکے فقدان کایہ عالم ہے کہ ایبٹ آبادمیں تنہاآپریشن کرکے ساری دنیامیں پاکستان پربداعتمادی کااعلان کیاگیا۔۸اکتوبر سے ۲۲اکتوبر۸۰۰۲ءتک اسی پارلیمنٹ کے بند کمرے کے مشرکہ اجلاس میں اس دہشت گردی کے بارے میںمتفقہ ۴۱نکاتی قراردادپرعملداری کس کی ذمہ داری تھی؟اب بھلا یہ ہماری جنگ کیسے ہوگئی کہ ہمارے وزیراعظم اس کواپنی جنگ قراردیتے ہوئے اسامہ کی موت کوایک عظیم فتح قراردے رہے ہیں ؟
یہ اوراس سے پیوستہ حادثات سے پیداشدہ صورتحال یہ تشویشناک سوئے ظن واضح کرنے کےلئے کافی ہے کہ جب تک ہم امریکاکے دباو کامقابلہ کرنے کےلئے اپنی قومی وحدت اوریکجہتی کامظاہرہ نہیں کریں گے اوراقتصادی لحاظ سے اپنے پیروں پرکھڑے ہونے کی کوشش نہیں کریں گے ،نہ ہماری قراردادوں کی کوئی اہمیت ہوگی،نہ ہی تحریری اورسفارتی احتجاج کی کوئی وقعت اوروزن ہوگا۔قوموں کوکوئی بھی جائزترین حق طاقت کے بغیرنہیں ملتا۔اگرآپ کمزورہیںتواگرچہ آپ کاکیس اخلاقی اورقانونی ہونے کے ناطے کیساہی درست اورمضبوط کیوں نہ ہو،جب تک آپ اپنے حق میں فیصلہ کرنے کی قوت وصلاحیت نہیں پالیتے،حق کاحصول ہرگزممکن نہیں ہوگا۔اپنا جائزحق حاصل کرنے کےلئے مضبوظ ہونااولین شرط ہے ۔ان قراردادوں اوراحتجاج میں جان اس وقت پڑے گی جب ہماری سیاسی قیادت خودان قراردادوںکااحترام کرانے کےلئے کمربنداورپختہ عزم ہوگی اورعسکری قیادت انہیں مو ثر بنانے میںسنجیدہ۔ بدقسمتی سے اس وقت صورتحال اس سے مختلف ہی نہیں بلکہ الٹ ہے۔امریکی اخبارات اوردیگرمغربی میڈیانے بارہااوربلاتردیداس کو شائع کیاہے کہ امریکی ڈرون حملے صدر آصف زرداری اوران کی سیاسی حکومت کی اجازت سے ہورہے ہیں اوریہ بھی طے ہواہے کہ پاکستان صرف اس کی مذمت کرے گااورعسکری قیادت بھی ان تمام معاہدوں سے نہ صرف واقف ہے بلکہ انہی معاہدوں کی شرائط نے ان کوپابندسلاسل کررکھاہے۔گویاقومی قیادت کے بیانات،دھمکیاں،احتجاج اوراعلانات اہل وطن کی پرآشوب آنکھوں میں مزیددھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔اپنے جسدِ قومی میں پھیلنے والے ناامیدی کے اس مرض کی جڑیں تلاش کرتے ہوئے جب کسی تاریک سرنگ سے برآمد ہوتے ہیں تو ہمارے سامنے سپریم کورٹس آف پاکستان کی رفیع الشان عمارت توضرورہے جس کی پیشانی پر قرآنی آیات میں عدل وانصاف کی بشارت کندہ ہیں لیکن اس کے صدردروازے پرعدل وانصاف اورآئین وقانون مصلوب سردارملتے ہیں۔
۴۱ستمبر۸۰۰۲ءتوابھی کل کی واردات ہے جب پاکستان کے متعددارکان پارلیمنٹ نے پاکستانی وزارتِ خارجہ اورکسی اعلیٰ اختیاراتی ادارے کی منظوری کے بغیراسلام آبادمیں امریکی سفارت خانے کی بریفنگ میں شرکت کی جہاں امریکی جنرل میکرنن نے واضح کیاکہ پاکستان کی جغرافیائی حدودمیںہوائی حملے مصدقہ اطلاعات کی بنیادپرکئے جاتے ہیں ، اس میں پاکستان کی مرضی شامل ہوتی ہے اورمعاہدے کے مطابق یہ آئندہ بھی جاری رہیں گے ۔اس بریفنگ میں شریک ہونے کی یہ حددرجہ غیرذمہ دارانہ اورغیراخلاقی حرکت بزعم خودایک آزادوخودمختارمملکت کے منتخب نمائندوںنے کی جوملکی خودمختاری کے نقیب سمجھے جاتے ہیں جبکہ اس بریفنگ کے بارے میں اس وقت کے سینیٹ کے قائدسینیٹر رضاربانی نے اعتراف کیاتھاکہ یہ انتظام ایوانِ بالا،اسپیکرقومی اسمبلی کے علم میں لائے بغیر کیا گیاتھاحالانکہ یہ ایوان کی توہین اورملک کے اقتداراعلیٰ کوچیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ظاہرہے کہ کسی غیرملکی سفارت خانے کویاکسی بیرونی شخصیت کوملک کے اندر ونی معاملات میں مداخلت کاکوئی اخلاقی یاقانونی استحقاق حاصل نہیں کجاکہ ایک آزادخودمختارملک میںایسی ننگی جارحیت کاارتکاب کیاجائے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کاچارٹرموجودہے۔
انٹیلی جنس کی ناکامی کاپہلا شکارخودامریکاہے جونائن الیون کاپتہ نہ لگاسکا،جس نے ایک غلط اطلاع پرعراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی ،برطانیہ” سیون سیون“ کابروقت تدارک نہ کرسکا ،اسپین کے علاوہ دوسرے یورپی ممالک اپنے ہاں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات سے محفوظ نہ رہ سکے اورآج تک کسی بھی ملک کے انٹیلی جنس کے ادارے نے اپنی ناکامی کابرملا اعتراف نہیں کیاجبکہ پاکستان کی عسکری قیادت نے اپنی انٹیلی جنس کی ناکامی کااعتراف کرتے ہوئے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کااعلان تو ضرورکیالیکن بدقسمتی سے ملک کے صدرزرداری کی جانب سے ابھی تک ایک لفظ سامنے نہیں آیاگویاخاموشی بذاتِ خودرضامندی سمجھی جاتی ہے۔ ان تمام وارداتوں کے حوالوں سے وزیردفاع اوروزیرداخلہ اپنی بے بضاعتی کااعتراف کرکے تمامترذمہ داریوں اورجوابدہی سے فارغ ہوچکے ہیں۔
سینکڑوں رائج الوقت محاورے ہمیں مختلف زاویوں سے باورکراتے ہیںکہ اقتصادیات اورآزادی جمہورایک ہی کھرے سکے کے دورخ ہیں اوریہ حقیقت عصرِ حاضرمیںماضی سےبدرجہابڑھ کرثابت ہوئی ہے جہاں عمومی امدادسے لیکراسلحہ تک غیروں کی خیرات میں لیاجاتاہووہاں غیرت کاکوئی گزرنہیں ہوسکتا۔بیشک اصل مسائل سے آگہی کےلئے ایوان کی راہداریوں میں موجودہوناپڑتا ہے یعنی امورِمملکت راخویش خسرواںلیکن اس میں کوئی شبہ نہیںکہ جوحکمران اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کے قائل نہیں ہوتے انہیں پوری دنیاکے سامنے جوابدہ ہوناہی پڑتاہے۔یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے اقتدارکوطوالت دینے کےلئے ایسی ذلت برداشت کرنے کے ماہرسمجھے جاتے ہیں۔
بروزجمعتہ المبارک۰۱جمادی الآخر ۲۳۴۱ھ۳ ۱مئی۱۱۰۲ء
لندن