ایک بزرگ نے نصیحت کی‘ تمہارے سامنے کوئی ہاتھ پھیلائے تو یہ ہاتھ خالی نہ جانے دو۔حضور اکرم ﷺ نے تو یہ بھی فرمایاکہ پاس کچھ نہ ہو تو مسکراہٹ بھی ایک صدقہ ہے‘اور پھر بات ان مانگنے والوں کی شروع ہوئی جو پیشہ ور گداگر ہیں یا صحت مند اور تندرست و توانا ہیںمگر گلیوں بازاروں میں مانگتے پھرتے ہیں۔پیشہ ور گداگروں کے بارے میں کون نہیں جانتاکہ کچھ لوگ ان کا کاروبار بھی کرتے ہیںاور کچھ مانگنے والے جعلی معذور بن جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان بزرگ نے یہی کہا کہ کوئی کیا بھی ہو‘اس کا صرف پھیلا ہوا ہاتھ دیکھو اور اسے خالی واپس نہ جانے دو۔ایسی بحث مت کرو کہ ہٹے کٹے ہو‘نوکری مزدوری کیوں نہیں کرتے۔تم نہیں جانتے کہ اس صحت مندی کے باوجود اس کی کیا مجبوری ہے ۔اس کو اللہ تعالی پر چھوڑ دو اور تم اپنا فرض ادا کردو۔
میںنے جب اس بات پرغورکیاتو میرے دل نے ان بزرگ کی بھرپور تائیدمیں یہ گواہی دی کہ کیا واقعی ہم اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں جو خدا نے دے رکھا ہے ہم اس کے حق دار ہیں؟ہماری حالت تو یہ ہے کہ دن رات خدا کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘زبانی کلامی ایمان لاتے ہیںمگر عمل اس کے مطابق نہیں کرتے۔ہماری حالت تو اس ملازم جیسی ہے جو مالک کے ہر حکم پر حاضر جناب تو کہے مگر اسکے حکم کو بجا نہ لائے!زبان سے خدا کو رازق تسلیم کرتے ہیںمگر در حقیقت اپنی کوششوں کواپنا رازق سمجھتے ہیں‘نوکری کو‘کاروبار کویا کسی دوسرے قسم کے معاشی حربے کو۔ربِّ کریم نے جو صفات اپنی ذاتِ برتر کیلئے مخصوص کر رکھی ہیں‘وہ ہم اپنے رویّے میں پیدا کرکے اس کے ساتھ شرک کرتے ہیںجو ناقابلِ معافی ہے۔
افسوس کہ خدا کے مجبور بندوں سے بحث کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کو بھول جاتے ہیںکہ ہمارا خدا ہماری کتنی ہی کوتاہیوں سے درگزر کرکے ہمیں روزی دیتا ہے اور اس دنیا کے عیش کراتا ہے۔کیا ہم اللہ کے ان بندوں میں شامل ہیںجو ایک وقت کی روٹی جتنی بھی اطاعت کرتے ہیں؟کیا ہم کسی عمل کے معاوضے میں اپنا کچھ حق جتا سکتے ہیں؟کیا ہم اپنے رب کی اتنی مزدوری کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو کچھ موجود ہے اس کو جائز قرار دے سکیں؟سچی بات تو یہ ہے کہ صبح جب ناشتہ کرنے لگتا ہوں تو کبھی یہ سوچتا ہوں کہ مجھے یہ کیوں مل رہا ہے؟میری ضرورت کے مطابق سب کچھ موجود ہے مگر کس عمل اور کس محنت کے عوض میں؟مجھے اپنے لیل و نہار میں کوئی ایسا عمل دکھا ئی نہیں دیتا کہ میں ایک لقمے کا حقدار بھی کہلا سکوں۔ہم توایک بے دین اور عملاً خدا کے منکروںکی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
میرا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں کپڑے کے دوکانداروں کے گز چھوٹے ہیں‘ناپ تول کے دوسرے پیمانے بھی معیار کے مطابق نہیں ۔شائد ہی کوئی ایسا پٹرول پمپ ہو جس کے میٹر درست ہوں اور تیل خالص ہو۔عام خیال تھاکہ موٹر وے کے پٹرول پمپ درست ہوتے ہیں‘میں اکثردوران سفرپاکستان انہی پٹرول پمپوں سے تیل لیتا تھا ۔ لیکن ایک دن یہ خبر چھپی کہ یہاں کے کئی پٹرول پمپوں کی جانچ پڑتال کی گئی تو ان میں سے آدھے سے زیادہ غلط نکلے۔ایک مستند حدیث ہے جو قوم ناپ تول میں بد دیانتی کرتی ہے اس کا رزق روک لیا جاتا ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ایک قوم پر عذاب اسی لئے نازل ہوا ‘اور وہ ناپ تول میں بدعنوانی کی سزا میں تباہ و برباد کر دی گئی مگر عبرت کون پکڑے؟ ہمارے ہاں جن کو اس ملک کے خزانے کا امین ہونا چاہئے تھا وہ کروڑوں اربوں ملک و قوم کا لوٹ کر اپنے بیرونی بینک اکاؤنٹس میں محفوظ کر لیتے ہیں اور ایک این آر او کے طفیل پھر سے اس ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
میرے ایک بہت ہی مہربان شفیق دوست اورلندن کے ایک معروف تاجرناہیدرندھاواکے بڑے بھائی ڈاکٹرطارق رندھاواجوامریکامیںایک انتہائی ذمہ دارعہدے پراپنی ذمہ داریاںسرانجام دے رہے ہیں،میری اہلیہ کی علالت کے بارے میں مقامی پروفیسرڈاکٹرسے خصوصی ملاقات کیلئے ہسپتال تشریف لائے ۔ ان کااپنے پیشے میںمہارت ، دینی رحجان اورپاکستان کیلئے دردِ دل دیکھ کر فوری خیال آیاکہ بالآخروہ کون سے عوامل ہیںجن کی وجہ سے ہماراملک ایسے بے شمار ماہرین سے محروم ہوتاجارہاہے۔پاکستان کی موجودہ صورت حال پردل گرفتہ ہوکرانہوںنے اچانک یہ سوال داغ دیاکہ آپ ان حالات میںپاکستان کی بہتری کیلئے کیاتجویزکرتے ہیں؟
سودی نظام کوفی الفورختم کئے بغیرہم کبھی بھی فلاحی ریاست بناے کے خواب کی تکمیل نہیںکرسکتے۔ ہمارے ملکی آئین میں اسلام کے بارے میں شقیں موجود ہیں مگر ہمارے حکمران آج تک سیکولر رہے ہیں اور سیکولرازم میں ملک کی نجات سمجھتے ہیں۔دنیا کے سیکولر لیڈر ہمارے آئیڈیل ہیں اور سود جو خدا اور رسول ﷺکے خلاف جنگ ہے‘اسے ہم نے جائز قرار دے رکھا ہے اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔یعنی ہم اپنے آپ کو خدا اور اس کے رسول سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں(العیاذ باللہ)۔انہوں نے اس کی بھرپورتائیدکرتے ہوئے فرمایاکہ واقعی اس کے علاوہ اورکوئی علاج ممکن نہیں۔ حدتویہ ہے کہ بظاہرہمارے جوسیاسی لیڈراسلام کانام دن رات لیتے ہوئے نہیںتھکتے ،ان کے اپنے سارے دھندے بینکوںکے ساتھ سودی کاروبارمیںملوث ہیںاورقومی ٹیکس بچانے کیلئے اوراپنی سخاوت کے اظہارکیلئے انہی کاروبارسے کچھ خیراتی ادارے بھی رواںدواںہیں۔وہ سمجھتے ہیںکہ شائداس طرح جہاںخلقِ خداکے دل جیتے جاسکتے ہیںاسی طرح خالق کوبھی راضی کرکے اس کی جنت کے حق دارٹھہریںگے۔
بات گداگر کی ہو رہی تھی اور آپ کو معلوم نہیں کہ کوئی کیوں گداگر ہے؟ایک عورت کیوں طوائف ہے؟ہم عورت کو طوائف بناتے ہیں‘لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر اسے گرفتار کر لیتے ہیں کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور اس کی سزا سنگساری ہے۔میرے ایک دوست مجھے بتا رہے تھے کہ میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو مختلف ٹریفک لائٹس پرسہ پہر کے اخبارات ضرور خریدتا ہوں‘مگر کسی کو پڑھتا نہیں۔خریدتا اس لئے ہوں کہ جو لڑکا اخبار بیچ رہا ہے وہ اس کی محنت سے خوش ہو کر اس سے اخبار لے لیتا ہوں۔آپ سے گزارش ہے کہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے ہاتھ کو خالی نہ جانے دیں۔کیا یہی کچھ کم ہے کہ وہ ہاتھ آپ کا نہیں‘کسی دوسرے کا ہے‘اور آپ دینے والے ہیں لینے والے نہیں۔رمضان المبارک کامہینہ تومیرے رب کی فیاضی ،جودوسخا،رحمت ،بخشش ومغفرت کادن رات اعلان کررہاہے۔خدارااپنی دعاؤں میں بیماروں کی شفایابی کیلئے دعاکرنانہ بھولیں۔
توآئیے سب سے پہلے اپنے دلوںکی صفائی کیلئے ان سب کومعاف کردیںجن کے بارے میںآپ کے دل میںذرہ بھربھی ملال ہے اوراپنے اسی عمل کوواسطہ بناکراپنے رب کریم کے ہاں سجدہ ریز ہو جائیں ۔ میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ جہاںاس مہینے میں آپ اوربہت سے دعائیںمانگیںوہاں اپنے ملک پاکستان سے سودی نظام کے خاتمے کی نہ صرف دعامانگیں بلکہ اس قبیح فعل پرگڑگڑاکرتوبہ واستغفاربھی کریں ۔ نجانے کون سے پل کسی ایک کی دعاپاکستان کی تقدیربدل کررکھ دے۔
بس رہے نام میرے رب کا جو ہر شئے کا مالک ہے!