پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
جاپان کی جامعات میں اردو
جاپان بھی اردو کا بڑ ا گہورا ہے یہاں اردو کی تعلیم کا سلسلہ سو برس پر محیط ہے ۔ ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو تدریس کے سو برس پورے ہونے پر2010 میں جشن صد سالہ منایا تھا ۔ جاپان میں تین اہم یونیورسٹیز ہیں جہاں ایم ۔ اے کی سطح تک کی تدریس کا نظم ہے ان میں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز جس کا قیام 1908 میں عمل میں آیا ۔ اس کا نام پہلے ٹوکیو اسکول مف فارن لیگویجیز تھا جو بعد میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اس یونیورسٹی میں ’’ ہندستانی شعبہ ‘‘ کھولا گیا جس میں اردو ۔ ہندی کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن 1947 میں تقسیم ملک کے بعد اس شعبے کا نام بدل کر شعبہ ٴ اردو رکھا گیا ۔یہاں بی ۔اے سے ایم۔ اے کی سطح تک کی تعلیم کا نظم ہے ۔ہندستان کے مقابلے اس ادارے کا پاکستان سے گہرا تعلق ہے ۔ یہاں مستقل پاکستان سے اردو کے اساتذہ تدریس کے لیے جاپانی حکومت کی جانب سے بلائے جاتے ہیں ۔ اس وقت یہاں پروفیسر ہیروشی ہاگیتا صدر ہیں یہ جاپانی زبان میں اردو کا ایک رسالہ بھی نکلالتے ہیں۔ ان سے ہماری کئی بار کی ملاقات ہے ۔ ان کے علاوہ اس شعبے میں پروفیسر اسادا اور پروفیسر مامیاکین ساکو اور ایک پاکستانی استاد ہیں ۔ میرے مشورے سے انھوں نے حال میں اپنے رفیق کار ڈاکٹر مامیاکین ساکو کو جے این یو سے باضابطہ معاہدے کے لیے بھیجا تھا جو الحمد اللہ ہوگیا اور دونوں جانب سے طلبہ و استاتذہ کی آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے ۔اس شعبے سے منسلک پروفیسر اسادا اور پروفیسر سوزوکی تاکشی کا اہم نام ہے ۔
پروفیسر آرگامو کو جاپان میں ’’ اردو کا بابائے ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ اردو تدریس اور اردو زبان کے فروغ میں ان کی کوششوں کا بڑا اہم رول رہاہے ۔ حالانکہ جاپان میں اردو تدریس کی ابتدا کے حوالے سے ہندستان کے انقلابی رہنما مولوی بر کت اللہ کا نام سر فہرست ہے ۔وہ 1908 میں جاپان گئے اور انھوں نے ہی وہاں اردو تدریس کی بنیاد ڈالی ۔جاپان میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کے شعبہ ہندوستانی کے اولین استاد پروفیسر انوئی تھے جو تین برس تک اس شعبے سے وابستہ رہے۔اس کے بعد ٹوکیو سے ہی فارغ ارددو کے طالب علم ریچی گامو یہاں استاد مقرر ہوئے اور وہ باضابطہ اردو کے پروفیسر بنائے گئے ۔ ان کی کوششوں سے اردو کی تدریس نے کافی ترقی کی ۔ انھوں نے ہند و پاک کے ادیبوں سے رابطے بھی کیے ان میں پرو فیسر نور الحسن کا نام اہم ہے ۔ ان دونوں نے مل کر اردو بول چال کی درسی کتاب تیار کی جو آ ج بھی نصاب میں شامل ہے ۔
ٹوکیو یونیورسٹی کے بعد اوساکا یونیورسٹی اور دائیتو بنکا یونیورسٹی کا نام آتا ہے ۔ یہاں بھی اردو بی۔اے اور ایم۔اے کی سطح تک پڑھائی جاتی ہے ۔اوساکا میں اردو 1921 سے اردو تدریس کا سلسلہ شروع ہوا ۔ 1921 میں اوساکا اسکول آف فارن لینگویجز کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر 1944 میں کالج بنا اور 1945 میں اس نے یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا۔ اس شعبے سے منسلک اساتذہ میں پروفیسر ہیروشی کان کاگایا،پروفیسر تسونیو ہماگچی، پروفیسر میتسومورا استاد پروفیسر سویامانے اردو میں اچھی شاعری کرتے ہیں ۔ دائیتو بنکا یونیورسٹی کے اساتذہ میں ایک اہم نام پروفیسر ہیروجی کتاؤکا ہے۔ یہ اب سبکدوش ہوچکے ہیں یہ بہت نفیس اردو بولتے ہیں اور اردو میں اچھی شاعری کرتے ہیں اور غالب کےکلام کو لحن سے جاپانی انداز میں پڑھتے ہیں ۔ اسکے علاوہ جاپانی ادارہ برائے بین الاقوامی تعاون جائیکا کا تربیتی مرکز ہے جہاں اردو کی ثانوی سطح کی تدریس کا انتظام ہے ۔
مجموعی طور پر جاپان جیسے ملک میں اردو کی تدریس کا انتظام ہے مگر زیادہ تر یونیورسٹیز میں طلبہ و و طالبات کی تعداد بی۔اے میں زیادہ سے زیادہ بیس اور ایم۔اے میں پانچ یا چھ ہوتی ہے ۔ان یونیورسٹیز سے پاکستان کے تعلقات زیاد ہ۔ بہتر ہیں اور جاپانی۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اردو پاکستان کی زبان ہے اس لیے وہ زیادہ تر معاہدے پاکستان کی جامعات سے کرتے ہیں ۔ ہندستان کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو چاہیے کہ ان سے اردو کے نام کے حوالے سے رابطہ قائم کریں ۔
جامعات کے علاوہ بھی جاپان میں اردو کی ترویج اور ترقی کے لیے وہاں کئی تنظیمیں اور ادارے کام کر رہے ہیں۔ آن لائن اخبارات بھی نکل رہے ہیں جس میں اردو نیٹ جاپان کا سب سے اہم نام ہے ۔ اس اردو پورٹل کے ذریعے بھی اردو کا بڑا کام ہو رہا ہے جو اردو کے لیے ایک فال نیک ہے ۔