Home / Litrature / جدہ کے انڈین اسکول میں قونصلیٹ کی جانب سے سالانہ مشاعرہ کا کامیاب انعقاد

جدہ کے انڈین اسکول میں قونصلیٹ کی جانب سے سالانہ مشاعرہ کا کامیاب انعقاد

 

پھول کے دھوکہ میں اک تتلی دئے کی لو پر بیٹھ گئی 

جدہ کے انڈین اسکول میں قونصلیٹ کی جانب سے سالانہ مشاعرہ کا کامیاب انعقاد

رپورٹ : جمال قادری ۔صدر اردو اکیڈمی جدہ

ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے بلائے گئے اردو کے شعرائے کرام نے  جمعرات ۲۹ اگسٹ کو انڈین قونصلیٹ کے سالانہ مشاعرے میں اپنے مسحور کن کلام سے پرستاران اردو ادب و غزل کو نئے لب ولہجوں سے روشناس کرواتے ہوئے حالات حاضرہ اور اصلاح معاشرہ جیسے اہم عنوانات پر اپنا کلام پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ اردو شاعری صرف گل و بلبل یا عاشق و معشوق کی شاعری نہیں ۔ ہندوستانیوں میں مقبول قونصل جنرل عزت مآب فیض احمد قدوائی اور  قونصل پریس و انفارمیشن ڈاکٹر ارشاد احمد کی جانب سے انتہائی مہارت اور بہترین انتظامات کے ساتھ منعقد کئے گئے اس مشاعرے میں  تقریبا ہر شاعر نے اپنی حاضری کا اپنے خوبصورت کلام سے سامعین کو  احساس دلوایا۔ ہندوستانی سفیر برائے سعودی عرب عزت مآب حامد علی راؤنے بحیثیت مہمان خصوصی اپنی اہلیہ کے ساتھ شرکت فرمائی اور قونصل جنرل ہند کے ہمراہ مشاعرے کی شمع روشن فرمائی۔ سفیر ہند نے اپنی مختصر مگر جامع تقریر میں اپنےبچپن کی یاد  تازہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں میرٹھ میں اپنے والد کی انگلی پکڑ کر مشاعروں میں شرکت کے لئے جایا کرتا تھا ۔ انہوں نے  قونصل جنرل ہند فیض احمد قدوائی کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ اردو زبان آج بھی اپنی  مٹھاس  اور چاشنی کی وجہ مقبول عام ہے ۔  قونصل جنرل ہند جناب فیض احمد قدوائی نے مشاعرہ کمیٹی کے ذمہ داران کے علاوہ اسپانسرز اور سامعین کو اس مشاعرے کو کامیاب بنانے کے لئے خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے بطور خاص ان تمام ہندوستانیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اہل وطن قیدیوں کی رہائی کے لئے اعانت کی جس کے باعث تقریبا چھہ لاکھ ریال کی خطیر رقم جمع ہوئی اور   جس کی بدولت  بے شمار ہندوستانی قیدیوں کو رہا کرو الیا گیا ۔ انہوں نے بطور خاص  آندھرا پردیش کے دو قیدیوں کا ذکر کیا جو تیرہ سال سے مقید تھے، جو  رہائی ملنے کے بعد اس سال  اپنے وطن میں  والدین کے ساتھ عید کی خوشیوں   میں شریک رہ سکے ۔ قونصل جنرل ہند نے وضاحت کی کہ ہر سال کی طرح اس سال کے مشاعرے کی ساری  آمدنی انڈین پلگرمس ویلفیر فورم کے فنڈ میں جمع کی جائے گی تاکہ  حج کی ادائیگی کے دوران پریشان ہوجانے والے حاجیوں کی خدمات انجام دی جائیں۔

وسیم بریلوی کی صدارت میں منعقدہ اس سال کے مشاعرے میں ادب و تہذیب  اور اصلاح معاشرہ پر ایسی ایسی غزلیں اورنظمیں پیش کی گئیں کہ خود صدر مشاعرہ نے  اپنے صدارتی خطاب میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہاں مشاعرہ نہیں ہوا بلکہ ادب سکھایا گیا۔ اس مرتبہ کے سامعین بھی غیر معمولی ادب نواز  تھے جن کی کیفیتوں کا ناظم مشاعرہ ندیم فرخ  کو بھی  بخوبی احساس تھا  لہذا انہوں نے سامعین کی ہر فرمائش کی تکمیل کرتے ہوئے ان کے پسندیدہ شعرا کو دو  یا تین مرتبہ سے زیادہ دوعوت سخن دیا۔ مشاعرے میں جان ڈالنے میں جہاں حیدرآباد کے آغاسروش کے  مقبول کلام  نے اہم رول ادا کیا وہیں ناظم مشاعرہ کے فی البدیہ اشعار، حاضر جوابی اور خوبصورت نظامت کا بڑا دخل رہا۔

مشاعرے کا  آ غاز تلاوت کلام پاک اور پھر تابش مہدی کی نعت شریف سے ہوا۔ سب سے پہلے بلرام پور کی خاتون شاعرہ  رخسار بلرام پوری کو دعوت کلام دیا گیا جنہوں نے بڑے اچھے ترنم میں اپنا کلام پیش کر کے سامعین کے دلوں کو گرما دیا۔ یہ نوجوان شاعرہ  نے بیٹیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا ۔ دور کردیتی ہیں تیرگی بیٹیاں: گھر میں لاتی ہیں روشنی بیٹیاں۔ اب نہ بیٹی کی عزت سے کھیلے کوئی : ہیں اسی ملک میں آپ کی بیٹیاں۔ پھر نہ دلی کے جیسا کہیں اور ہو: پھر نہ زندہ جلے آپ کی بیٹیاں۔اس کے بعد تابش مہدی نے یہ اشعار سنائے ۔  زندگی کیا ہے فقط زندہ دلی کا نام ہے : زندہ رہنا ہے تو طوفانوں سے ڈرنا چھوڑدے۔ زندگی کی  سر خروئی کی تمنا ہے تو سن : دسترس سے ہو  جو  باہر وہ تمنا چھوڑ دے۔  محفل مشاعرہ کو گرمانے کے لئے اترا کھنڈ کے شاعر سکندر حیات گڑبڑ کو ٓواز دی گئی لیکن وہ کوئی خاص گڑبڑ نہ کرسکے ۔ ان کے دو شعر ملاحظہ ہوں۔ کسی کا حسن آخر جاں کا دشمن ہو بھی سکتا ہے : تمہارے جیل  جانے کا یہ کارن ہو بھی سکتا ہے ۔ میرے بیٹو ! حسینوں سے ذرا تم دور ہی رہنا : یہ انگریزی دوا ہے ری ایکشن ہو بھی سکتا ہے۔ لیکن ان کے بعد جب آغا سروش کو آواز دی گئی اور انہوں نے جب اپنے مخصوص انداز میں سخنوری کی تو تالیوں کی گونج میں ان کو داد تحسین سے نوازا گیا اور سامعین کے اصرار پر انہیں  تین چار بار زحمت دی گئی ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ فضا میں اتنی گھٹن ہے کہ آج گھبرا کر : چراغ پوچھ رہے ہیں ، ہوا کب آئے گی۔ دل کی ایک بھی بات نہ آئی اس تحریر کے ہونٹوں پر : کیا جانے اس شرمیلی نے کس سے خط لکھوایا ہے ۔ اور ہندوستان کے موجودہ  حالات کے تناظر میں ان کے اس شعر پر مشاعرہ گاہ کافی دیر تک تالیوں سے کونجتا رہا۔ پھول کے دھوکے میں  اک تتلی ، دئے کی لو پر بیٹھ گئی : گاوٗ ں کی اک لڑکی نے کل پھر یہ قصہ دوہرایا ہے۔ اس کے بعد شہر سورت (گجرات) سے آئے ہوئے شاعر وسیم ملک کے ان اشعار پر  انہیں کافی داد ملی ۔ بیٹھے بیٹھے اپنے ہی گھر میں مسافر ہوگئے : ہم نے ہجرت  بھی نہیں کی اور مہاجر ہوگئے ۔ ہمارے شہر میں جب بھی کوئی بنیاد ہلتی ہے : محل خاموش رہتا ہے ، محلے جاگ جاتے ہیں ۔ مگر افسوس اس پر بھی ، نہ تم جاگے نہ ہم جاگے : اذانِ صبح سنتے ہی پرندے جاگ جاتے ہیں۔  اب دہلی کے مشہور شاعر اقبال اشہر کی باری تھی ۔ انہوں نے بھی مشاعرے کو بام عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملاحظہ کیجئے ۔ ہمیں بھی وقت نے پتھر صفت بنا ڈالا : ہمیں تھے موم کی صورت پکھلنے والے لوگ۔ ستم تو یہ کہ ہماری صفوں میں شامل ہیں: چراغ بجھتے ہی خیمہ بدلنے والے لوگ۔ اور اس شعر کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ نجانے کتنے چراغوں کو مل گئی شہرت : اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے۔سامعین کے بے حد اصرار پر انہوں نے اپنی اردو زبان پر لکھی  مشہور نظم پیش کی۔ اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی:میں میر کی ہر رات ہوں غالب کی سہیلی ۔ کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ : میں نے توکبھی خود کو مسلماں نہیں مانا۔ دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ : اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی۔  حیدرآباد کے ممتاز و معروف  شاعر محسن جلگانوی ، جو بہت سی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ان  کی ایک تازہ کتاب  تجزیاتی مطالعہ کی رسم اجرا بھی اس مشاعرے میں صدر مشاعرہ وسیم بریلوی کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ جس کے بعد انہیں دعوت سخن کے لئے بلوایا گیا۔  ان اشعار پر سامعین نے انہیں  خوب داد دی ۔ وبال شہر کا صدقہ کہا ں سے آیا ہے : میں جانتا ہوں یہ ملبہ کہا ں سے آیا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں زیتوں کی شاخ رہتی تھی : ہمارے خون میں لاوا کہاں سے آیا ہے۔ ان کے یہ شعر بھی پسند کئے گئے۔ روایت کی رواداری بہت ہے : یہاں رشتوں کی بیماری بہت ہے ۔ بہت ہی ٹوٹ کر ملتی ہے دنیا: مگر اس میں اداکاری بہت ہے۔  اب امروہہ کی شاعرہ  نکہت امروہی کو بلایا گیا۔ انہوں نے بھی ہندوستان کے موجودہ حالات پر کچھ یوں کہا۔ ایک معمولی سے مزدور کی بیٹی ہوں: مجھ کو بگڑے ہوئے حالات سے ڈر لگتا ہے ۔ لوگ سسرال میں بہوؤں کو جلادیتے ہیں: بس یہی سوچ کے بارات سے ڈر لگتا ہے ۔ اور ان دو اشعار پر تو انہیں خوب داد ملی ۔ خوشی کے خواب کو تعبیر میں ڈھالا ہے : میں وہ بیٹی ہو ں جس سے ماں کے آنگن میں اجالا ہے ۔ نہیں سمجھا ہے کچھ فرق بیٹے اور بیٹی میں : میرے ماں باپ نے مجھ کو بہت نازوں سے پالا ہے ۔ اس کے بعد خود ناظم مشاعرہ نے مائک سنبھالا اور یوں گویا ہوئے ۔ صبح مغرور کو وہ شام بھی کر دیتا ہے : شہرتیں چھین کر گمنام بھی کردیتا ہے ۔ وقت سے آنکھ ملانے کی حماقت نہ کرو: وقت انسان کو نیلام بھی کردیتا ہے۔ جہاں والے اُسے جب یاد کرنا بھول جاتے ہیں : زمینوں کی تہوں میں کوئی ہلچل بھیج دیتا ہے ان کے بعد نعیم اختر قادری برہان پوری نے وہ رنگ جمایا کہ ان کے ہر شعر پر ہال تالیوں سے کونجنے لگا اور مکر ر ، مکرر کی صدائیں آتی رہیں۔ ہم اہنے آپ میں سورج ہیں پھر بھی : اندھیرا ہم میں ڈھونڈا جارہا ہے ۔ زمانے پر بھروسہ کرنے والو: بھروسے کا زمانہ جا رہا ہے ۔ اب اس شخصیت کو کو مائک پر بلایا گیا جو انڈین فلم انڈسٹری میں ۷۰ سے زیادہ فلموں میں نغمہ لکھ چکے ہیں ، یعنی جلیس شروانی  ۔ انہوں نے فلموں کی ڈگر سے ہٹ کر بہت ہی عمدہ اشعار پیش کئے جنہیں سامعین نے بہت پسند کیا۔ ملاحظہ فرمائیں۔ کر لیں اگر یقین رسالت مآب میں : بے شک ملے گا  آپ کو پانی سراب میں ۔  ماں کی تدفین پہ آنسو نہیں نکلے میرے : میں نے اب تک نہیں مانا کہ جدا ہے مجھ سے۔ آئینے کے سامنے آجا ، پتہ چل جائے گا: عیب میری ذات میں ہے یا تیرے کردار میں۔گھر کا سار ا

حال باہر سے نظر آنے لگا: آپ نے سوراخ اتنے کرلئے دیوار میں ۔ اس شعر کو بار بار سنا گیا کہ بچوں کے ساتھ رہنے کی فرصت نہیں ملی : فرصت ملی تو چھوڑکے بچے چلے گئے۔

مشاعرے کے اختتام پر اُس عظیم شاعر کو اپنا کلام سنانا تھا  جو منفرد الکلام ہیں اور جنہیں اردو دنیا  آبروئے غزل کہتی ہے ۔ آپ کو بجا طور پر نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج کے  صدر نشین جیسے جلیل القدر عہدے پر فائز کیا گیا ہے میری مراد ہے وسیم بریلوی ۔ انہوں نے اس شعر سے ابتدا  کی۔ سبھاؤ پھول جیسا حوصلہ گلدان جیسا ہے : یہ اردو ہے کہ جس کا دل بھی ہندوستان جیسا ہے۔ اور چند شعر ملاحظہ ہوں۔ بڑھی تو ہے گلی کونچوں کی رونق : مگر انسان تنہا ہوگیا ہے ۔ دئے اپنے لئے روشن کئے تھے: اجالا دوسروں کا ہوگیا ہے ۔ دنیا کی ہر جنگ وہی لڑ جاتا ہے : جس کو اپنے آپ سے لڑنا آتا ہے ۔ آپ ناراض ہوں ، روٹھیں کہ خفا ہوجائیں : بات اتنی بھی نہ بگڑے کہ جدا ہوجائیں۔ خود کو منوانے کا مجھ کو بھی ہنر آتا ہے : میں وہ قطرہ ہوں ، سمندر میرے گھر آتا ہے ۔ میری نظروں کو برتنا کوئی تجھ سے سیکھے : جتنا میں دیکھ سکوں، اتنا نظر آتا ہے۔

غرض کہ مشاعرہ ختم ہوتےہوتے صبح ہوگئی اور کوئی ساڑھے تین بجے صبح اس یادگار مشاعرہ کا اختتام عمل میں آیا۔

سفیر ہند عزت مآب حامد علی راؤ صاحب شمع روشن کر رہے ہیں اور ان کے بائیں جانب قونصل جنرل ہند فیض احمد قدوائی اور دائیں جانب ڈاکٹر ارشاد احمد قونصل پریس وانفارمیشن ٹہرے ہیں

 

About admin

Check Also

یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس یوروپی ممالک میں اردو …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *