Home / Socio-political / حق کے علم اور عزادار

حق کے علم اور عزادار

حق کے علم اور عزادار
سمیع اللہ ملک میری انتہائی سادہ دیہاتی ‘سفید ان پڑھ ماں عجیب سی باتیں کرتی تھی۔’’دل کی آنکھ سے دیکھ‘دل کے کان سے سن‘‘میں نے انہی سے سنا تھا۔بہت جری اور بہادر۔اب تو نئی نسل کی بچیاںچھپکلی اور معمولی سے کیڑوں کو سامنے دیکھ کر اپنے اوسان خطا کر دیتی ہیں اور اپنی چیخوں سے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں‘لیکن کیا مجال کہ رات کا گھپ اندھیرایا کبھی بادلوں کی کڑکتی گرج چمک سے انہیں کبھی خوف آیا ہو۔یوں معلوم ہوتا تھا کہ خوف جیسی کوئی شئے بھی ان سے خوفزدہ ہے۔ سفید موتئے کی کلیوں یا گلاب کے پھو لوں کو ایک بڑی تھالی میں رکھ کران سے باتیں کرنا ان کا ایک معمول تھا۔میں ان سے کبھی پوچھتا کہ’’ماں جی!کیا یہ آپ کی باتیں سنتے ہیں‘‘تو فوراً مسکرا کرفرماتیںکہ’’یہ نہ صرف سنتے ہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں‘تجھے جس دن ان سے کلام کرنا آگیا پھر دیکھنا تجھے کسی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔خفا بھی ہو جاتے ہیں یہ تو۔۔۔۔۔۔۔یہ پودے‘درخت اور پھل پھول بہت لاڈلے ہوتے ہیں‘ بہت پیار چاہتے ہیں‘اسی لئے اکثر مائیں اپنی اولاد کوپھول کہہ کر مخاطب ہوتی ہیں۔‘‘  میں خاموش رہتا‘کچھ سمجھ میں نہ آتالیکن اب کچھ کچھ سمجھنے لگا ہوںاور شائد یہ انہی کی دعاؤں کا ثمر ہے۔
شوہر کا انتقال ہو گیا تو سب بچوںکی باپ بھی بن گئیں۔بڑی سی چادرمیں لپٹا ہوا رعب دار چہرہ‘جس نے گھر کے تمام امور کو خود اعتمادی کے ساتھ سنبھالا دیا۔کبھی نہیں جھکیں‘سماج کو کئی مرتبہ جھکتے دیکھا۔ اپنے شوہر کی طرح مجبوروں کیلئے انکار تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔جہاں سے گزرتیں ‘لوگ سر جھکا کر سلام کرتے ‘وہ لمحہ بھر کو رک کر ان کی خیریت دریافت کرتیں‘’’بالکل شرم نہ کرنا‘کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔‘‘ان کی گفتگو کا یہ آخری جملہ ہوتا اور وہاں سے آگے بڑھ جاتیں۔سب بچوں کی پڑھائی اور دوسرے معمولات پر مکمل اور گہری نظر‘مجال ہے کوئی عمل ان سے پوشیدہ رہ سکے۔وہ اکژمیرے کپڑے اس انداز اور نزاکت سے دھوتیں کہ ان کو بھی کہیں چوٹ نہ آجائے۔میں اکثر ان کے پاس بیٹھ جاتا اور کسی کتاب یا اخبار سے کوئی کہانی قصہ پڑھ کر ان کو سناتا رہتا لیکن اس کہانی یا قصہ پر ان کا تبصرہ سن کر یقین نہیں آتا تھا کہ میری ماں بالکل ان پڑھ ہے۔ایک دفعہ میں سامنے بیٹھا کچھ سنا رہا تھا کہ اچانک ایک پتھر میری پشت کی طرف دیوار پر دے مارا۔میں اس اچانک عمل پر خوفزدہ ہوگیا‘پیچھے مڑکر دیکھا تو ایک زہریلا کیڑا تھاجو اس پتھر کی ضرب سے کچلا گیا۔وہ غضب ناک شیرنی لگ رہی تھیں ۔’’ماں جی! اس نے آپ کا کیا نقصان کیا تھا کہ آپ نے اس کا یہ حشر کر دیا‘‘۔ ’’کچھ نہیں ‘خاموش رہو‘‘میرے اس سوال پر مجھے سینے سے چمٹا کربولیں ’’یہ اگر میرے پھول کو کاٹ لیتا تب کیا کرتی؟‘‘کچھ لوگ بھی بہت معصوم لگتے ہیں لیکن ان میں زہر بھرا ہوتا ہے‘ڈس لیتے ہیں پھر بھی نا آسودہ رہتے ہیں‘‘ہاں!یہ میں نے انہی سے پہلی دفعہ سنا اور سیکھا تھا ۔زندگی بھر یہی ان کا عمل رہا‘بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں‘ہردم نبرد آزما۔۔۔۔۔۔۔سماج سے‘وقت سے‘حالات کے جبر سے۔
ہم سب کورات جلد سونے کا حکم تھالیکن خود کب سونے کیلئے جاتی تھیں‘کسی کو علم نہیں تھا۔یہ پتہ ہے کہ صبح چار بجے اٹھ کر گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتیں تھیںاور سب کو فجر کی نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام سختی سے کرواتی تھیں۔صبح سویرے اٹھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی سارے گھر کی باقاعدگی کے ساتھ نگرانی کررہا ہے۔اپنے پالتو کتے کو ہر روز شاباش دیتی کہ ساری رات تم نے کس قدر ذمہ داری سے اپنی ڈیوٹی نبھائی۔اس سے یوں باتیں کرتیں جیسے وہ اسی ستائش کا منتظر ہے۔ایک فاصلے پر سر جھکائے کھڑا‘کیا مجال کہ اپنی حدود سے تجاوز کرے۔ایک مرتبہ اس کو سمجھا دیا کہ دہلیز کے اس پار رہنا ہے۔ بس ساری عمر گرمی ہو یا سردی ‘کوئی بہانہ بنائے بغیر‘ خاموشی کے ساتھ اپنے فرائض بجا لاتا رہا اور اپنی مالکہ کے احکام کی تعمیل کی! مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکاکہ سب کچھ میری ماں نے کہاں سے سیکھا ہے جس نے آج تک کسی کتاب کو چھؤا تک نہیں‘کسی مکتب کو دیکھا تک نہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا اسرار تھا؟اب اس کی جتنی گہرائی میں جاتا ہوں عقل و دانش کے نئے نئے پرت کھلتے جاتے ہیں۔ان کے جملوں کی سادگی میں چھپی حکمت اور حلاوت آج پھر شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔ وہی محبت میں گندھی ہوئی ماں‘جب بھی لکھنے کیلئے الفاظ کم پڑتے ہیں ‘فوراً اپنی کسی یادکے آنچل سے نمودار ہو کر اسی طرح میرا ہاتھ پکڑ کر لکھنا شروع کر دیتی ہے جس طرح بچپن میں تختی پر لکھوانے کی مشق کرواتی تھیں۔
ان کی اپنی ایک کابینہ تھی۔اڑوس پڑوس کی کئی عورتیں اپنے دکھوں کاغم ہلکا کرنے کیلئے موجود رہتی تھیں۔ایک دن میں ان کو یہ کہتے سنا کہ ’’بہن چھوڑو اس کو‘دفع کرو اسے‘بے غیرت پچاس بھی ہوں تو کیا کرنا‘غیرت مند تو ایک بھی بہت ہے ‘جو اپنے گلے کی حفاظت نہ کر سکے وہ چرواہا کیسا‘بہن چھوڑو!‘‘ میں پچھلے خاصے دنوں سے غزہ پر بمباری دیکھ رہا ہوں۔اس سے پہلے صابرہ اور شتیلہ بھی مجھے یاد ہیں‘مجھے بوسنیا بھی نہیں بھولتا‘بھارتی گجرات کا احمد آباد اور کشمیر بھی د ل کی دھڑکنوں کو بند کرنے کیلئے کافی ہے‘عراق اور افغانستان تو ساری دنیا کے سامنے ہیں۔کیسی کیسی لہو رنگ تصویریں ہیںاخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت ۔۔۔۔۔۔۔۔پھول اور کلیاں خوں میں نہائی ہوئی ‘معصومیت کو قتل کر رہے ہیں وہ‘ کڑیل نوجوانوں کو درگور کر رہے ہیں‘نسل کشی کر رہے ہیں۔ہنس رہے ہیں‘کھیل رہے ہیں انسانیت کے ساتھ۔مہلک ترین ہتھیار استعما ل کر رہے ہیں‘منوں بارود برسا رہے ہیں‘ وہ کچھ نہیں دیکھ رہے ‘بس آگ و خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔وہ کتنے جوش  اور تکبر سے کہہ رہے ہیں ’’کہ ابھی تو شروعات ہیں‘آگے آگے دیکھتے جاؤ‘‘ہاں !قصر سفید اور مغربی آقاؤں کی لونڈی اقوام متحدہ کے سیکرٹری بھی ہلکی سی مذمت کر رہے ہیں۔دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیںلیکن انہیں کسی کی بھی پرواہ نہیں۔وہ کوئی اصول اور کوئی ضابطہ نہیں مانتے۔دنیا بھر کے اصول و ضابطے صرف امت مسلمہ کیلئے ہیں۔دنیا بھر میں ۵۷ نام نہاد مسلمان ریاستیں ہیں‘ ایک دو نہیں پورے ستاون ممالک ہیںلیکن۔۔۔۔۔۔۔لیکن کتنے پرسکون ہیں‘سو رہے ہیں ان کے حکمران‘ان کی افواج‘ان کے گولہ بارود کے خزانوں کو زنگ لگ رہا ہے‘سب داد عیش دیتے ہوئے اور دنیا بھر کی عیاشی کا ساماں لئے ہوئے۔۔۔۔۔۔بے حسی کا شکار اور سفاکی کی تصویر ہمارے مسلم حکمران!
مجھے آج پھر اپنی ماں یاد آتی ہے‘چٹی ان پڑھ‘جو کہتی تھی کہ ’’بے غیرت پچاس بھی ہوں تو کیا کرنا‘ہاں غیرت مند ایک بھی بہت ہے۔‘‘مجھے آج پچاس میں سات کا اضافہ کرنا ہے۔لیکن وہ غیرت مند ہے کہاں۔۔۔۔کیا ایک بھی غیرت مند نہیں رہا  ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ سب کے سب ۔۔۔۔۔۔۔!!!مجھے آپ سے کچھ نہیں کہناقارئین!مجھے تو آپ نے پہلے ہی اپنی محبت کی سولی پر  لٹکا رکھا ہے۔میں ان سے کیا کہوں!وہ بھی نہیں رہیں گے اور ہم بھی‘کوئی بھی تو نہیں رہے گا‘بس نام رہے گا میرے رب کا!بس یہی سوچ کر ندامت سے خاموش ہو جاتا ہوں کہ شائد یہی حق کے علم بردار ہوں جو اپنے ہاتھوں میں اپنے معصوم بچوں کے لاشے بطور علم اٹھائے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘کوئی بھی تو علم سر نگوں کرنے کو تیار نہیں۔اب تو لاکھوں علم راہ گزاروں میں عزادار اٹھائے نکل آئے ہیں!!!یہ منیر نیازی کیوں تڑپ اٹھے!
سن بستیوں کا  حال جو  حد سے گز  ر گئیں                     ان  امتوں کا  ذکر جو  رستوں  میں مر گئیں
کر  یاد  ان دنوں کو  کہ آباد  تھیں یہاں                   گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صر صر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ                    کیسی  ہوائیں  کیسا  نگر  سرد کر  گئیں
کیا باب تھے یہاںجو صدا سے نہیں کھلے                      کیسی دعائیں تھیںجویہاںبے اثر گئیں
تنہا  اجاڑ برجوں  میں  پھرتا  ہے  تو منیر                     وہ زر فشانیاں  ترے رخ  کی کدھر  گئیں

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *