سمیع اللہ ملک
مغرب اورامریکامیں پچھلی ایک دہائی سے بالعموم مسلمانوں اوربالخصوص پاکستانیوں کے ساتھ دہشتگردی کوجوڑدیاگیاہے۔دنیابھرمیں جہاں کہیں بھی ایسی کوئی واردات یاواقعہ ہوتاہے تومیڈیافوری طورپراس کے ڈانڈے مسلمانوں کے ساتھ ملانے کی بھرپورکوششیں شروع کردیتاہے تاوقتیکہ ایسی واردات کرنے والے خود اس بات کااعتراف نہیں کرلیتے جیساکہ حال ہی میں سویڈن میں ایک نوجوان نے اپنے ہی سوکے لگ بھگ شہریوں کوبیدردی کے ساتھ قتل کرنے کے بعداس کی وجوہات بیان کی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ قاتل کے اعتراف کے بعدگویامغربی میڈیاکوسانپ سونگھ گیاہے کہ اس خبرکوفوری طورپرنہ صرف میڈیاسے ہٹادیاگیاہے بلکہ کسی تجزیہ نگارکاکوئی تبصرہ بھی شائع نہیں ہوا۔برطانیہ میں جہاں ایک سیاہ فام ”ڈگن“کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد حالیہ فسادات میں ملک بھرمیں اربوں پاوٴنڈزکی اشیاء کولوٹنے ،املاک کونذرآتش ہونے اورملک کاامن وامان بربادہونے کامنظرساری دنیانے دیکھاوہاں تین بیگناہ نوجوان پاکستانی نژادبرطانوی مسلمانوں کی شہادت نے اس ملک میں حالیہ فسادات کوختم کرکے امن وامان قائم کرنے کی درخشاں مثال قائم کرکے مغربی میڈیاکوانگشت بدنداں کردیاہے۔
بحیثیت ایک مسلمان ہماراایمان ہے کہ اس دنیامیں جوبھی آیاہے اسے یقیناً ایک دن جاناہے اوراس دنیامیں آناہی درحقیقت جانے کی تمہیدہے مگربعض جانے والے اپنے ماں باپ ‘لواحقین اوراہل وطن کیلئے ایسی دولت اورفخروانبساط کی ایسی وراثت چھوڑجاتے ہیں کہ جس کے آگے خزائن وحشم سے مالا مال شہنشاہ بھی سوفقیروں کے فقیراورسو کنگالوں کے کنگال لگتے ہیں۔دراصل ان بچوں کے قلب وذہن کے اندرپچھلی کئی دہائیوں سے عملِ خیرکے بیج اور اس بیج پرمشیت کی برسائی ہوئی برسات نے بالآخرکس طرح عمل خیرکی لہلہاتی ہوئی کھیتی اگادی اس کاواضح ثبوت برمنگھم میں ہونے والے ان شہداء نے اپنی جانوں کی قربانی دیکر ایسا واضح ثبوت پیش کیاہے کہ اگراس فصل کی تقسیم شروع کردی جائے توسب کوہی اپنادامن تنگ نظرآئے گا۔ ان نوجوان شہداء نے اپنے خونِ دل اورجان سے پائے رسولﷺکے نقوش کوایسااجاگرکیاہے کہ ہرکسی کواب اپنی منزل آسان دکھائی دے رہی ہے۔ان عظیم شہداء کوبغیرکسی قصور وگناہ اورکوئی جرم بتائے بغیرموت کے سپردکرکے دراصل مجرموں نے ایسے قبیح فعل کاارتکاب کیاہے جس کی سزاسے تووہ یقینا بچ نہیں پائیں گے لیکن ان نوجوانوں کی للہٰیت‘ اخلاص نیت اوربے لوث ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبورکرلئے ہیں جس کی تمناانبیاء‘ اصحابہ اورصالحین نے ہمیشہ کی۔ان عظیم نوجوانوں کی یاداب تاقیامت تک کفر کے تاریک جزیروں پرایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اورکوندتی رہے گی۔
ان نوجوانوں کی شہادت نے جہاں اوربے شمارباتوں کاسبق یاددلایاہے وہاں ایک یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین کروائی ہے کہ عالمِ اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیر وجودبھی تخلیق اسباب اورترتیب نتائج میں اپناحصہ رکھتاہے۔جس طرح عمل بدکی ایک خراش بھی آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح عمل خیرکاایک لمحہ بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کردیتاہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتاہے اورمیزان نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے اوریوںآ خرت کوجب گروہ درگروہ اپنے رب کے ہاں حاضر ہونگے تویہ نوجوان(ہارون جہاں،شہزاداورتصور) بھی شہداء کے کے گروہ میں شامل اپنے رب کے ہاں اس شان سے حاضرہوں گے کہ تمام عالم ان پررشک کرے گا۔
”اورجواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہوبلکہ وہ توزندہ ہیں لیکن تمہیں شعورنہیں،اورہم تمہیں کچھ خوف اوربھوک اورمالوں اورجانوں اورپھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائیں گے اورصبرکرنے والوں کوخوشخبری دے دو۔وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں کہ ہم تواللہ کے ہیں اوراسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں۔یہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اوررحمت اوریہی ہدائت پانے والے ہیں“(سورة البقرہ۔۱۵۴۔۱۵۷)
خداسے ہم نے بھی ملاقات کرنی ہے‘خداجانے کب․․․․․․؟خداجانے کہاں․․․․․․؟اورکس حال میں ہونگے ہم؟کتنی بڑی ملاقات ہوگی جب ایک عبدذلیل اپنے معبوداکبرسے ملے گا!جب مخلوق دیکھے گی کہ خوداس کاخالقِ اکبراس کے سامنے ہے ،خداکی قسم․․․․․!کیسے خوش نصیب ہیں یہ نوجوان کہ جلوہ گاہ میں اس شان سے جائیں گے کہ اس ملاقات کے موقع پرخداکونذرکرنے کیلئے خداکاکوکوئی انتہائی محبوب تحفہ ان کے کفن میں موجودہوگا۔جی ہاں!ان کفنوں کی جھولیوں میں جن میں بدن اورسچے ایمان وعمل کی لاش ہوگی مگر شہادت کے طمطراق تمغے سے سجی ہوگی۔ان تمغوں کوخدائے برتر کی رحمت لپک لپک کر بوسے دے گی اوراعلان ہوگا …
توحیدتویہ ہے کہ خداحشرمیں کہہ دے یہ بندہٴ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے
کاش ہمیں بھی اس ملاقات اوریقینی ملاقات کاکوئی خیال آتااورتڑپادیتا‘کاش ہم بھی ایسی موت سے ہمکنارہوجائیں جہاں فانی جسم کے تمام اعضاء باری باری قربان ہوجائیں‘سب خداکیلئے کٹ جائیں‘سب اسی کے پائے نازپرنثارہوجائیں جس کے دستِ خاص نے ان کووجودکے سانچے میں ڈھالاہے۔یقینا ان نوجوانوں کے دھڑ شیطانی قوتوں کاشکارہوگئے ہیں مگراشک بارآنکھوں سے سوبارچومنے کے لائق ہیں کہ فرشتے ان کو اٹھاکراللہ کے ہاں حاضرہوگئے ہیں اوران کی جوانیاں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ دنیاپرنہیں یہ آخرت پرنثارہوئی ہیں۔انہوں نے دنیاکی کسی چیزسے نہیں خودخداسے عشق کیا‘انہوں نے دنیاکی ساری اشیاء اورعیش وعشرت پرنہیں خودرسول اکرمﷺ کی ذاتِ مبارک پرایمان کی بنیادرکھی‘انہوں نے دنیاکی نشیلی چھاوٴں میں نہیں بلکہ شہادت کے پرشوق سائے میں پناہ ڈھونڈی‘انہوں نے زندگی کی دلفریب اورایمان کی شاہکار شاہراہ پر اس طرح سفرکیاہے کہ زندگی سے ہٹ کر شہادت اورشہادت کے اس پار تک کچھ سوچنے کاکوئی سوال ہی نہیں تھا۔وہ شباب وحسن سے وجدکرتے ہوئے اللہ کے ہاں اس طرح حاضر ہوگئے ہیں کہ حسن وجوانی باربارایسی حسرت کرے!!!
وہ زندگی اوردنیاپرجھومنے کی بجائے سچائی اورآخرت پرمرجانے کی رسم اداکرگئے تاکہ زمین وآسمان ان کی موت پرآنسوبہائیں لیکن خدااپنے فرشتوں کی محفل میں خوش ہوکہ اس کابندہ اس کی بارگاہ تک آن پہنچا۔شائدان نوجوانوں کومعلوم ہوگیاتھا کہ ان کاگھر اس دنیامیں کہیں نہیں بلکہ اس دنیامیں ہے جوجسم وجاں کاتعلق ٹوٹتے ہی شروع ہوتی ہے۔ایسی دنیا جہاں خودخدااپنے بندوں کامنتظرہے کہ کون ہے جودنیاکے بدلے آخرت اورآخرت کے بدلے اپنی دنیافروخت کرکے مجھ سے آن ملے۔جہاں وہ جنت ہے جس کے گہرے اورہلکے سبزباغات کی سرسراہٹوں اورشیروشہد کی اٹھلاتی لہراتی ہوئی ندیوں کے کنارے خوف وغم کی پرچھائیوں سے دورایک حسین ترین دائمی زندگی‘سچے خوابوں کے جال بن رہی ہے۔جہاں فرشتوں کے قلوب بھی اللہ کے ہاں پکار اٹھیں گے کہ خدایا․․․․․!یہ ہیں وہ نوجوان جن کی ساری دنیاتیرے عشق میں لٹ گئی ہے‘یہ سب کچھ لٹاکرتیری دیدکوپہنچے ہیں‘ان کے قلوب میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ اللہ کے گھراوردیگرمسلمانوں کی املاک کی حفاظت میں اپنی جان قربان کردینابھی تو راہِ حق میں ماراجانااور تجھ تک پہنچنے کاذریعہ ہے اورشہادت کے معنی ہی ہمیشہ زندہ رہناہے۔یہ توسب کچھ لٹاکراس یقین تک پہنچے ہیں!
اورہاں!کتناقابل رشک ہے ان نوجوانوں کایقیں اورایمان‘جن پرملائکہ ایسی گواہی دیں گے اورکس قدررونے کے لائق ہیں ہمارے ایمان جن کیلئے ہمارے دل بھی گواہی دیتے دیتے کسی خوف سے چپ ہوجاتے ہیں۔کل جب میدان حشرمیں اشک ولہومیں نہائے ہوئے یہ نوجوان خداوندی لطف واعزاز سے سرفرازکئے جارہے ہونگے‘خداجانے ہم کہاں اورکس حال میں ہونگے․․․․․!موت توکوئی نئی چیز نہیں۔موت تو ہر ایک کو آنی ہے۔موت کے قانون سے نہ تو کوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ کوئی ولی۔جو بھی آیا ہے اپنا مقررہ وقت پورا کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ہم سب اس کی امانت ہیں‘ پھر کس کی مجال جو اس میں خیانت کر سکے۔کسی کااس بھری جوانی میں اس طرح حالتِ ایمان اورراہِ خدامیں قربان ہوجانااس کے حق میں بڑی نعمت ہے اورپھرکیوں نہ ہو‘ایسی موت تووصل حبیب اوربقائے حبیب کاخوبصورت سبب اور حسین ذریعہ ہے اورپھربقائے حبیب سے بڑھ کراورنعمت کیاہوگی!
اس میں شک نہیں کہ یہ نوجوان اس فانی دنیاسے دار بقاء کی طرف تشریف لے گئے ہیں،اس عارضی زندگی کی بہاروں اورگلوں کی خوشبووٴں سے منہ موڑکردائمی بہار‘سداخوشبووٴں ومہک کے گلستانوں میں براجمان ہوگئے ہیں اوراپنے ہرتعلق رکھنے والوں کوچھوڑکراپنے مولاکے ساتھ مضبوط تعلق کارشتہ جوڑچکے ہیں۔اللہ ان نوجوانوں کی شہادت قبول فرمائے اوراس کی جزادنیاوآخرت میں عطافرمائے۔آمین وثم آمین
***