سانحہ راولپنڈی ۔۔۔مذہبی عدم برداشت کی تازہ مثال
پاکستان ایک بار پھر جل اٹھا اور اس بار یہ آگ راولپنڈی سے بھڑکی ہے۔ اس فساد میں سرکاری ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کی بات بھی سامنے آئی ہے اور یہی وہ بات ہے جو پاکستان میں ہونے والے نفرتوں کے اس کاروبار کے پیچھے کارفرما ہے۔ قادیانیوں کو ملک بدر کردینے کے بعد ہندوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا جس کی وجہ سے ہندووں کی ایک بڑی آبادی جو پاکستان میں ہی رہنے پر مصر تھی اپنی مٹی کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔ اب وہی معاملے شیعہ برادری کے ساتھ روا ہے۔ آئے دن شیعہ زائرین پر حملے کیے جاتے ہیں اور ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ اس بار جو طریقہ چنا گیا ہے وہ ایک تیر سے دو شکار کرنے جیسا ہے۔ اہل سنت والجماعت کو بھی اس بار نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ پاکستان کے شدت پسند شیعہ اور اہل سنت والجماعت دونو ہی عقیدے کے خلاف ہیں اور مزاروں پر ہونے والے حملے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اگر شیخ رشید کی بات مانیں تو اس علاقے میں رہنے والے بچے کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ عاشورہ کے روز اس علاقے میں کس طرح کے حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں لیکن اتفاق کی بات ہے کہ انتظامیہ اس سے اس بار لا علم رہی۔ آتش زنی کے لیے پٹرول کی سپلائی بھی وافر مقدار مین ہوتی رہی، کالونی کا گیٹ بھی کسی غیبی طاقت نے کھول دیا اور کمال کی بات یہ کہ فائر بریگیڈ اور پولیس کی نفری کے پہونچنے کے راستے بھی خودکار طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ مسجد کے لاوڈ اسپیکر کو فساد پھیلانے کے ایک موثر آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کو ہی فرض کی ادائیگی سمجھتی رہیں۔ یہ وہ ملک ہے جسے ملک خداداد کہتے لوگ نہیں تھکتے اور اس ملک کو مسلمانوں کے نام پر بنایا گیا تھا۔ پھر ان ہی حریص لوگوں نے یکے با دیگرے لوگوں کو اپنے نام نہاد اسلام سے خارج گرداننا شروع کر دیا تاکہ وسائل پر ان ہی کی اجارہ داری ہو اور اسی وجہ سے پاکستان اپنے ابتدائی ایام ہی سے اپنی تخلیق کے مقصد میں ناکام رہا۔ پاکستان کے ان ہی مفاد پرستوں نے جناح اور لیاقت علی کا قتل کیا اور انہیں نے ہی جناح کے ان تصورات کا بھی خون کیا جو پاکستان کے حوالے سے تھے۔ کاش جناح اور اقبال میں بھی مولانا آزاد جیسی بصیرت ہوتی۔ کاش ان کے اندر بھی یہ حوصلہ ہوتا کہ وہ آنے والے کل کے لیے اپنے آج کو قربان کر دیتے تو آج بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون تو نہ ہوتا۔ آج مسلمان ایک مسلمان کے قتل کو جائز تو نہ گردانتا۔ اے کاش یہ ملک تقسیم ہی نہ ہوا ہوتا۔ میں سوال کرتا ہوں ان پاکستانیوں سے جو ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم کا رونا روتے ہیں کیا ہندوستان میں مرنے والوں کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے؟ لیکن نہیں اس قوم کو اپنی غلط باتوں پر پردہ ڈالنے کا فن بھی تو خوب آتا ہے۔ جلد ہی کسی ملا کایا کسی سرکاری اہلکا یا سیاسی لیڈر کا اعلان آ جائےگا کہ اس فساد میں نا معلوم ہاتھ ملوث ہیں۔ عوام بیجاری پھر چار و ناچار سمجھ جائے گی کہ یہی سچ ہے اور پھر کسی نئے حادثے کا اننظار مزید شدت سے کرنے لگے گی۔ پھر شور بلند ہوگا’پاکستان کا مطلب کیا؟‘۔۔۔