Home / Socio-political / سڑیجڈک پارٹنر ،ٹریجڈک سڑیجڈی

سڑیجڈک پارٹنر ،ٹریجڈک سڑیجڈی

       سڑیجڈک پارٹنر ،ٹریجڈک سڑیجڈی

 

   عباس ملک

مغربی جمہوریت میں جب بھی عوام نے حکمرانوں یا حکمرانوں کی پالیسیوں یا اندازحکمرانی سے نفرت کا اظہار کیا تو حکمرانوں نے عوام کی آواز کو اہمیت دی ۔عوام کی پسندپر خود کو بدل لیا یا اپنی پالیسیوں کو عوامی منشاءکے ہم آہنگ کر دیا ۔مغرب میں ہمیں سینکڑوں قباحتیں نظر آئیں گی لیکن ان کی عوام دوستی ہر شک سے مبرا ہر زاویے سے عوامی مفاد سے ہم آہنگ اور قریب ترین ہوگی ۔مسلمان اقتدار سے دوری کے بارے میں سوچنا تو درکنا ر اسے دنیا کی محبوب ترین سے قرار دیتا ہے ۔اقتدار کا نشہ انہیں ہر عوامی مفاد سے دور کر دیتاہے ۔حکمران زبان سے تو جمہوریت کا اقرارکرتے ہیں لیکن دل سے آمریت کے اثیر ہوتے ہیں۔ان کی زبان پر نعرہ تو عوامی حقوق کی جدوجہد کا ہوتاہے لیکن عملا عوامی غلامی کیلئے تانے بانے بننے میں کوشاں ہوتے ہیں ۔ملک کا سربراہ ہونا یا کہلانا علیحدہ اور عملاسربراہ بننا بہت مشکل ہے ۔لسانی اور نسلی تعصب کی بنیاد پر دوسرے کو کم تر اور اپنی نسل اور زبان کو برتر ثابت کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت پر ہاتھ ڈال دینا ہمارے لیے چنداں دشوار نہیں ۔کسی گھرانے کا سربراہ اپنے اعیال کی نگہداشت اور نگہبانی سے ہاتھ کھینچ لے تو اس گھر کی ناموس کو پامال ہونے سے کون بچا ئے ۔جب کوئی اپنی بہن ،بیٹی ،بیوی کی عزت پر بڑھتے ہوئے ہاتھ کو اگر نہیں روک رہا تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ انہیں اپنا نہیں مانتا ۔اس کیلئے اپنے مفادات زیادہ اہم ہیں عزت اور رشتے مقدم نہیں ۔ عافیہ کو اگر امریکیوں کے حوالے کیا گیا تو حکمران کی غیر کا اپنا معیار تھا ۔اگر ملک میں ڈرون حملے روکنے پر قادر ہونے کے باوجود زبان گنگ ہے تو اپنے حوصلے اور مردانگی کا ثبوت بین ہے ۔اس ملک اور قوم سے محبت اور وفاداری کا ثبوت اور اس حلف کی پاسداری کا معیار ہے جو ہمارے حکمرانوں نے اس بار عظیم کو کو اٹھاتے وقت کہاتھا۔ایک اہم شخصیت کو قتل کیا جا سکتاہے اس سے صرف نظر کریں تو وہ اس قتل میںشرکت کے مترادف ہوگا۔اگر کسی کو قاتل کی شناخت ہو اور وہ مقتول کے قتل کی شہادت کو چھپائے تو وہ بھی اعانت جرم کا مرتکب ہو گا ۔اگر حکمران بھٹو کے قتل کو عدالتی قتل ثابت کرنے کیلئے عدالتی کاروائی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں تو مرتضی بھٹو کے قاتل کو بے نقاب کرنے کیلئے تفتیشی اداروں کو متحرک ہونے کا حکم کیوں نہیں دیتے ۔ملک کی دو دفعہ کی وزیر اعظم کے قتل کی تحقیق اور تفتیش کا چالان پیش کرنے کیلئے 3سال کا عرصہ ناکافی ہے تو پھر عام وقوعہ کے بارے میں کارکردگی کا عالم کیا ہوگا ۔ایک شوہر اپنی بیوی کے قاتلوں کو جانتا ہے لیکن اظہار کرنے کو اقتدار کیلئے خطرہ جانتا ہے تو پھر اخلاقیات کا معیار کیا ہوگا۔حکمران امریکہ کے سڑیجڈک مفادات کی نگہبانی میں اپنی عوام اور ملک کی پاسبانی کا حلف بھول کر آئین سے انحراف کے مرتکب ہوتے ہیں یا نہیں ۔کابینہ میں کمی اگر تین سال بھی ہو بھی رہی ہے تو کیا نااہل یا برطرف کردہ حضرات کا احتساب بھی ہو گا۔انہوں نے کیا مراعات حاصل کیں ،کیسے حاصل کیں ،کیا مفادات حاصل کیے اور کہاں کہاں اختیارات سے تجاوز کیا ۔کیاانہوں نے ان تین سالوں میں ان وزارتوں کا حق ادا کیا ۔بھٹو تو تیسری دنیا کے اتحاد کا نعرہ بلند کرتا تھا لیکن اس کے جانشین امریکہ کی غلامی کا دم بھررہے ہیں ۔کیا امریکی یا دیگر قرمیتیں اپنے ملکوں کے اور اپنے عوام کے مفادات کو نظرانداز کرکے پاکستان کیلئے خارجہ پالیسی یا داخلہ پالیسی میں لچک یا تبدیلی لا سکتی ہیں ۔امریکوں نے اپنے ایک آدمی پر صرف قاتلانہ حملہ کی کہانی گھڑ کر ایک خاتون عافیہ کو پابند سلاسل کر رکھا ہے ۔حلانکہ وہ خاتون ایک دوسرے ملک افغانستان میں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے ثابت کی جاتی ہے ۔اس پر مقدمہ امریکہ میں چلایا گیا ۔امریکی پاکستان کے اندر پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کیا اسے سزا نہیں ملنی چاہیے ۔سفارتی اہلکار کو ویانا کینونشن کے تحت اگر چہ استثنا حاصل ہے لیکن کیا سفارت کار میزبان ملک کے قوانین کا احترام نہیں کرے گا۔ہمارے وزیرداخلہ کا یکطرفہ ٹریفک رول کی خلاف ورزی پر چالان کیا گیا ۔سول وعسکری اعلیٰ حکام کی ائیر پورٹ پر تلاشی لی گئی ۔اپنی غیرت اور خودی بیچ کر جمہوریت کی ترویج کے نام پر اگر بھکاری بن کر آقاﺅں کے سڑیجڈک مفادات کیلئے فرنٹ لائن اتحادی کاکردار ادا کرنا ضروری ہے تو آزادی کس کا نام ہے ۔آقاﺅں کا ایک معمولی کارندہ ملک کے قانون کو ہاتھ میں لے کر دو بیگناہ افراد کو زندگی سے محروم کر دے لیکن آقا کی طرف سے حکم ہو کہ اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہ دیکھا جائے تو غلامی اور خود مختاری کس کا نام ہے ۔حکمرانوں کیلئے شاید جان و عزت کی کوئی قدر نہیں ہوگی لیکن ان کیلئے ڈالرز کی امداد ضروری اور مقدم ضرور ہے ۔معاشیات کے ماہرین جذبہ حب الوطنی سے سر شار ہو کر کاسہ گدائی کو قوم کیلئے ضروری سمجھتے ہیں ۔قوم کو بتایا جاتا ہے کہ ہم مقروض قوم ہیں اور ہمارے لیے امریکی امداد کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے ۔ہم نے قرضے واپس کرنے ہیں ۔کیا قوم کے ہمدرد ایسی معاشی پالیسی بنانے سے معذور ہیں جو اس وطن اور قوم کو اس دلدل سے نکال سکے تو پھر انہیں قوم کا درد بھی زبان پر لانے کا کوئی حق نہیں ۔اس خیرات سے عوام کو کتنا حصہ ملاتا ہےا اور ان کیلئے کتنے ترقیاتی منصوبئے پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں ان کی تفصیل تو نہیں بتائی جاتی ۔کا لا باغ ڈیم کیلئے ہمیں فنڈز ریلیز نہیں کیے گئے ،ایٹمی توانائی کے حصول میں مدد نہیں کی جاتی تو پھرکس مد میں خیرات دی جاتی ہے ۔قصر صدارت اور مد] ]>

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *