’’یہ مت کہنا
کہ مجھے موضوع چاہئے
یہ کہنا،
کہ مجھے آنکھیں چاہئیں
___رسول حمزہ توف
(میراداغستان سے)
مدّتیں گزریں، اردو ڈرامے سے اُس کی آنکھیں گم ہوگئی تھیں___
سب سے پہلے میں اردو ڈرامہ کو فروغ دینے کے لئے، اکادمیوں کا ذکر کرنا چاہوں گا___ یہ اردو ’اکادمیاں‘ ہر سال ڈرامے کا فیسٹیول تو کرتی رہتی ہیں مگر اُن کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ اردو ڈرامہ کے نام پر بے چارے چچا غالب اور میاں بیوی کے لطائف پر مبنی ڈراموں سے آگے نکلنے کی کوئی بھی کوشش اُن کے یہاں نظر نہیں آتی ہے___ حقیقتاً، جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی، والا معاملہ اردو ڈراموں کے ساتھ شروع سے چلتا رہا ہے۔یعنی جو سامنے کے ڈرامے نظر آئے، اکادمیاں دراصل اُنہی فرسودہ ڈراموں کو ’فروغ‘ دینے کا کام کرتی رہی ہیں___ نتیجہ کے طور پر اردو میں نہ نئے ڈرامہ نگار سامنے آتے ہیں اور نہ ہی یہ اکادمیاں کوئی بڑا اردو ڈرامہ گروپ پیدا کرپاتی ہیں___
اس پر غور کرنا چاہئے کہ آج اردو میں ڈرامہ (اچھا ڈرامہ تو بہت دور کی چیز ہے) کیوں نہیں لکھا جارہا ہے___ یہ تسلیم کرلیجئے کہ تنقیدی قلابازیاں تو زندہ ہیں، لیکن کہانیاں، قصّے، ناول اور ڈرامے سب گذرے دنوں کی داستان بن گئے ہیں___ نئی صدی کے ادب کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تخلیق کا ر بھی کھو گئے اور تخلیق بھی___ نئی نسل کا آنا بند ہوگیا۔ افسانے، ڈرامے اور ناول کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے، وہ اس قدر عبرتناک ہے، کہ اب ان موضوعات پر گفتگو کرنے کو دل نہیں چاہتا___
لکھنے والے دو چند، انگلیوں پر گنے جانے والے رہ گئے ہیں___ اور مقامِ حیرت یہ ہے کہ تنقیدی بازیگروں کی فوج انہی گھسے پٹے لوگوں کو سر پر اٹھانے کے لئے تیار بیٹھی ہے___ سوال اہم ہے کہ اچھے نقاّد کہاں گئے؟ تحریریں کہاں ہیں؟ اور جب تخلیق ہے ہی نہیں، تو ہم اپنی زبان کو لے کر، کس بات پر خوش ہورہے ہیں___
تو اہم بات یہ ہے کہ وہی موہن جوداڑو ہے۔ وہی ہڑپّا ہے۔ وہی آثارِ قدیمہ ہے۔ وہی ادب ہے اور وہی نقّاد___
نئی صدی میں نیاکچھ بھی برآمد نہیں ہورہا ہے___
اور ’ہرمن ہیسے‘ جرمن ادیب کا ’ڈیمیان‘ میں کفِ افسوس ملنا واجب ہے___ کہ چڑیائیںتو پرانی دنیا میں قید رہیں گی___
ll
تو اردو میں کچھ بھی ’نیا‘ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں ڈرامہ نہیں لکھا جارہا ہے___ ڈرامہ نثر کی ایک مشکل ترین صنف ہے۔ ڈرامہ لکھنا جہاں ایک مشکل ترین آرٹ ہے، وہیں اردو ادیب کے لئے ایک دشوار کُن مرحلہ اور بھی ہے___ عوام میں شامل ہونے کا احساس۔ عوام کے جذبات کی عکاّسی۔ منچ اور روشنی کے تقاضے___ کردار سازی و کردار نگاری پر قدرت کاملہ کا ہونا___ مکالموںکی برجستگی___ اور ان سب سے زیادہ، اپنے زمانہ، اپنے عہد کا ترجمان ہونا___ کسی نے درست کہا ہے:
” Only truely vital theatre can good provoke and agitate its audience.”
شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ ڈرامہ احتجاج کی زبان اور دکھی دلوں کی پکار کا نام بھی ہے___ ڈرامہ ابتدا میں بھی، عوامی احتجاج کے طور پر اسٹیج ہوا___ اور ارتقاء کی اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی، وہ اسی عوامی احتجاج کے پل صراط سے گزرتا آیا ہے___
اردو ادیب کی بے بسی اور لاچاری کا عالم یہ ہے کہ اُس نے بہت کم اپنی زمین سے جڑنے کی کوششیںکی ہیں___ تقسیم کے آس پاس بہت عمدہ قسم کی، حقیقت نگاری کی مثالیں تو سامنے آئیں لیکن آزادی کی ایک دو دہائیاں گزرتے ہی یہ ’زمین‘ ہمارے زیادہ ترفکشن رائٹر کے پاس سے گم ہوگئیں یا دانستہ طور پر گُم کردی گئی___ ترقی پسندی سے جدیدیت کی طرف واپسی کسی طرح کا ادبی manupulationنہیں تھا___ اس واپسی میں ایک خاص طرح کی بے حسی اور اُداسی کو بھی دخل تھا جو آزادی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی___ اس المیہ کو اردو نے کچھ زیادہ اس لئے بھی محسوس کیا کہ پاکستان بننے کی سازش میں، غریب زبان اردو بھی موردِ الزام ٹھہرائی گئی۔ یہ حادثۂ جانکاہ ابھی تازہ ہی تھا کہ گھر گھر بولی جانے والی اردو سے اُس کی حیثیت چھین لی گئی___ تقسیم کا زخم، ہندومسلم فسادات، ماحول میں خوف کے اثرات___ یہ نفسیاتی جائزہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یقینا اردو بولنے والا مسلمان ادیب ان کا شکار ہوا___ اس لئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اظہارِ بیان پر پابندی کے خوف سے اُس نے جدید یا تجریدی کہانیوں کے درمیان پناہ لی ہوگی یا___ جیساکہ میں نے مندرجہ بالا سطور میں کہا ہے، ایک خاص طرح کی بے حسی یا ’جابرانہ‘ بے بسی اُس پر یوں مسلط ہونے لگی کہ اُس کے پاس سے لفظ غائب ہوگئے___ وہ لاشعوری طور پر یکا یک جدیدیت کے خیمہ میں پٹخ دیا گیا تھا___
نئی نئی آزادی کے دس بیس برسوں کا متاثر ہونا یا ایسی صورتحال کا پیدا ہونا ایک شعوری عمل ہے۔ ہمارے درمیان سے ’بیانیہ‘ کی بیساکھی کیا گری، کہانیاں غائب گئیں___ ہوا میں لکھی آیتوں میں مکالمے نہیں تھے___ اور ڈرامہ بغیر مکالموں کے نہیں کھیلا جاسکتا___ اِسے یوں سمجھئے کہ تقسیم کے وقت عام دانشوروں کا بھی یہی خیال تھا کہ دونوں ملکوں کیعوام کو تقسیم کے حادثہ سے جانبر ہونے میں دس بیس برس کا عرصہ تو لگ ہی جائے گا___ اور حقیقتاً انسانی قدروں کے ابلاغ کے اس مؤثر ذریعہ، یعنی اردو ڈرامہ کو پھلنے پھولنے کے وہ مواقع سامنے نہیں آئے جو مراٹھی یا بنگلہ تھیٹر کو ملے۔ کیونکہ ماضی اور خوف کے ملے جلے اثرات نے اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کو انتہائی کم یا مردہ ثابت کردیا تھا___
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اُس زمانے میں تو تھیٹر زندہ تھا۔ ڈرامے تو مستقل کھیلے جارہے تھے___ لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ ڈرامے کے زرّیں عہد کا خاتمہ 1935ء یعنی آغا حشر کشمیری کی وفات کے آس پاس ہوچکا تھا۔ اردو ڈرامہ کے اس مردِ مجاہد کے انتقال کے ساتھ ہی اردو تھیٹر کا زوال بھی شروع ہوگیا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ڈرامہ اور تھیٹر کوئی الگ الگ چیز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں اردو میں ڈرامہ صرف اور صرف ایک چھپنے والی صنف بن کر رہ گئی تھی___ اور واقعہ یہ ہے کہ ڈرامہ کا براہ راست تعلق اسٹیج اور عوام سے ہے لیکن اردو میں آزادی کے بعد سے صنف ڈرامہ کا تعلق صرف رسائل وجرائد سے رہ گیا تھا___
جیسا کہ آپ نے مندرجہ بالا سطور میں دیکھا، واقعہ یہ ہے کہ جدیدت کوئی تحریک تھی ہی نہیں___ جدیدیت تو ملک کی تقسیم، فرقہ وارانہ فساد سے پیدا شدہ ماحول، خوف کے اثرات، شناخت کا المیہ، نئی نئی آزادی میں مسلسل خود کو اس ملک کا شہری ثابت کرنے کے عمل سے وجود میں آئی تھی___ یعنی ایک ایسے گھنے کہرے سے پیدا ہوئی، جہاں ڈر تھا کہ لفظوں کو زبان مل گئی تو اپنی آزادی کے لئے خطرہ پیدا ہوسکتا ہے___ لبرلزم اور سیکولرزم کے نئے کلچر میں ہم نے آہستہ آہستہ ڈھلنا شروع کیا___ ممکن ہے آپ اتفاق نہیں کریں، لیکن واقعہ ہے کہ ازسرِ نو ہمارا ’اسلامی کرن‘ ہورہا تھا___ یعنی ہم نئی آزادی کی فضا میں ایک نیا سیکولر اسلام اپنے وجود میں پیوست کررہے تھے___ یہ اسلام پاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں سے جُدا تھا___ نئے ماحول میں مسلمان ہونے کے معنیٰ بھی بدلے تھے___ اور نئی آب وہوا میں سیکولرزم کی یہ لہر اتنی تیزی سے آئی کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا___ تب تک نئی آزادی میں پرورش پانے والی نئی تہذیب کے بطن سے خوفزدہ علامتیں جنم لے چکی تھیں___ مشترکہ کلچر کے اچانک دبائو سے ایک نیا میلان پیدا ہوچکا تھا___ نئی ہوا نئے لفظوںکو شکل دے رہی تھی___ کسی بغاوت کے بغیر، اردو والوں کو اپنے ہونے کا ثبوت دینا تھا۔ اس لئے شب خونی کلچر کا وجود میں آنا محض اتفاق یا حادثہ نہیں ہے___ یہ اُن خموشی بھرے لمحوں کی ضرورت بھی تھی جہاں خود کو سیکولر بھی ثابت کرنا تھا اور قلم کو زنگ لگنے سے محفوظ بھی رکھنا تھا___ قوتِ گویائی سے محروم ہونٹوں نے انہی فضا میں علامتوں کو لبیک کہا ہوگا___ اس لئے جدیدیت کو کسی تحریک سے وابستہ کرنا میرے نزدیک کوئی واجبی بات نہیں ہے۔
حقیقتاً، ہم ابھی بھی شب خونی قلابازیوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔ ایک شخص ہوا میں زبان، زبان نام کا تیر چھوڑتا ہے۔ دو چار چاپلوسوں کے کندھے مل جاتے ہیں۔ اس صدی کے اس شاطر جوکر کی شناخت کیجئے جو آپ سے آپ کی زمین چھین رہا ہے___ ہوا میں معلق کہانیاں لکھی جاسکتی ہیں، ڈرامہ نہیں___ اُس نے نہ صرف آپ سے کہانی کی زمین چھینی، بلکہ اچھا ادب اور اچھا ڈرامہ سب کچھ چھین لیا___
نئی اُلفی کے اِن چار برسوں کا المیہ ہے کہ اردو کا کوئی مستقبل دور دور تک نظر نہیں آتا___ تھوڑے سے ادبی رسائل رہ گئے ہیں۔ بس___ نئی نسل میں نہ افسانہ نگار ہیں، نہ نقاّد اور نہ ڈرامہ نگار___ انیس اعظمی سے ظہیر انور اور ممبئی والے اقبال نیازی تک بس گنتی کے چند نام رہ گئے ہیں۔ لیکن ان کے بعد___؟
ڈرامہ ایک ایسا میڈیا تھا جس کا تعلق براہِ راست عوام سے تھا۔ اس لئے اس کے موضوعات بھی ہنگامی نوعیت کے تھے___ مثلاً جبرواستحصال، ملکی وغیر ملکی سیاسی صورتحال پر عوامی ردّعمل کا اظہار، ریزرویشن، ایمرجنسی، پنجاب یا کشمیر میں پیش آنے والے واقعات اور فسادات___ ڈرامہ، فکشن کی طرح صرف ایک خوبصورت پورٹریٹ نہیں ہوسکتا۔ اس میں اتنی گنجائش ہے کہ مسائل کے ساتھ مسائل کے حل کو بھی کرداروں اور مکالموں کے ذریعہ دکھایا یا بتایا جاسکتا ہے۔ اس لئے آنے والے وقت یا آنے والی صدی میں اس موثر میڈیا کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے تھا۔ مگر___
کس سے گلہ کیجئے۔ کس سے شکوہ کیجئے___
انیس اعظمی اور شاہد انور جیسے کتنے لوگ ہیںہیں، جنہو ںنے اپنے آپ کو ناٹک کی دنیا کے لئے وقف کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسن عمر کے پائوں پائوں چل کر، بڑھاپے کی ایک ایسی دنیا میں داخل ہوگئے ہیں،جہاں وہ آنے والے وقت کے بارے میں صرف کفِ افسوس مل سکتے ہیں___
(یہ کتاب میرے کرم فرما ڈاکٹر محمد حسن، اور دلّی اردو اکادمی کے پیارے دوستوں راغب صاحب، شمیم صاحب اورانیس اعظمی کی محبتوں کا بھی نتیجہ ہے، جنہوں نے مجھ سے بار بار اِن ڈراموں کو منظر عام پر لانے کے لئے زور دیا۔)
¡¡
ہم ہار یں گے نہیں
تلاش کریں گے،
اندھیرے میں بھی اپنے ہونے کا احساس
اور اسی پر خوش ہو لیں گے
کہ ہم ہیں
اور ہم کامیاب ہورہے ہیں
ہم، اسی پر خوش ہولیں گے
کہ ہم راستہ تلاش کررہے ہیں
اور بڑھ رہے ہیں۔
ہم…
اسی امید پر،
اسی موہوم سی امید پر
ناٹک کریں گے
اپنے زندہ ہونے کا___
اور
خوش ہولیں گے
ہمیشہ کی طرح___ !!