Home / Socio-political / پاکستان میں جمہوریت کی نئی تاریخ رقم

پاکستان میں جمہوریت کی نئی تاریخ رقم

پاکستان میں جمہوریت کی نئی تاریخ رقم

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی طور پر منتخب کسی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے اور اس کے لئے نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی مبارکباد کے حقدار ہیں بلکہ فوج اس سے کہیں زیادہ داد و تحسین کی مستحق ہے کہ بہت سے ایسے مواقع آئے جہاں فوج بجا طور پر مداخلت کر سکتی تھی لیکن فوج نے تحمل سے کام لیا اور خود کو سرحدوں اور شورش زدہ علاقوں تک محدود رکھا۔

                پاکستان کے اس جمہوری استحکام کے لئے ہمیں وہاں کی عدالت عظمی کو بھی مبارکباد دینا چاہیے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ بے باک فیصلے کیے بلکہ بوقت ضرورت صبرو تحمل اور بردباری کا بھی مظاہرہ کیا۔ مثال کے طور پر میمو گیٹ معاملے میں عدلیہ اور فوج دونوں نے جس طرح تحمل سے کام لیا اس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی اسی طرح عدلیہ پر پی۔پی۔پی کے قائدین نے جس طرح کے حملے کیے اس پر عدلیہ کا تحمل بھی لائق تحسین ہے۔  جس دور میں سوئس حکومت کو خط لکھنے کی بات ہو رہی تھی اس دور میں پیپلز پارٹی کا ہر کارکن عدلیہ کو گالیاں دیتا ہوا نظر آتا تھا۔ کوئی بالواسطہ، کوئی براہ راست۔ فیصل رضا عابدی اور بابر اعوان نے تو ایک وقت ایسا آیا کہ کھلے عام عدلیہ پر الزام تراشیاں کرنے لگے اور ایسا لگنے لگا کہ اب عدلیہ اپنے ناموس کے تحفظ کے لیے فوج کو آواز دیگی لیکن اس طرح کے تمام فتنوں سےعدلیہ نے بہت چابکدستی سے نجات پایا۔

                کچھ معاملوں میں حکومت نے بھی جس ایماندارانہ جرأت کا مظاہرہ کیا وہ دیدنی تھی۔ اس کی سب سے بہتر مثال موجودہ الیکشن کمیشن ہے۔ فخرالدین جی ابراہیم کو پاکستان کا الیکشن کمشنر بنانا ایک نہایت جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ حکومت نے اس فیصلے کے ذریعے انتخابات سے متعلق تمام تر منفی قیاس آرائیوں  کا راستہ مسدود کر دیا۔ دوسرا فیصلہ ہر چند کہ بہت فراخدلی سے قبول نہیں کیا گیا تاہم عدالت عظمی کے حکم کی تعمیل کی گئی اور وہ فیصلہ اپنے ہی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے کا تھا۔ ہر چند کہ اس معاملے میں عدلیہ کو لعنت ملامت کیا گیا اور عدالت عظمی کے فیصلے کے خلاف اعتزاز احسن جیسے لوگوں نے ہزار تاویلیں پیش کیں تاہم یہ تاریخی قدم اٹھایا گیا جس سے پاکستان میں عام لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ عدالت صرف کمزور اور متوسط طبقے کے لوگوں ہی کو نہیں وزیر اعظم کو بھی سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے۔  لیکن ساتھ ہی ساتھ عوام کو اس بات کا قلق بھی رہا کہ چینی کی قیمت سے متعلق اسی عدالت کا فیصلہ عوام کے لیے بے کار ثابت ہوا۔ ویسے غور کیا جائے تو عدلیہ کی بحالی کے فوراً بعد سے ہی عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کی سی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ حکومت اور عدلیہ کا رشتہ حکومت اور حزب مخالف کا ہے۔ نواز لیگ گزشتہ پانچ سالوں میں خاموش تماشائی بنی رہی اور شاید یہی اس کے حق میں بہتر تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی موجودگی صوبہ سرحد کو نیا نام دیے جانے کے مسئلہ پر محسوس ہوئی۔  مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کی موجودگی بس اعظم سواتی کے احتجاج تک محسوس ہو سکی۔ شجاعت حسین اور ان کی پارٹی بھی کوئی خاص کردار ادا نہ کر سکے۔ جماعت اسلامی بھی ان پانچ برسوں میں سیاسی طور پر خاموش ہی رہی۔  اب رہ گئی ایم کیو ایم تو اس نے کراچی میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے گاہے بہ گاہے اپنی  آواز بلند کی۔ جب ضرورت پڑی حکومت کا حصہ رہے اور جب ضرورت ہوئی اپنی راہیں الگ کر لیں۔  پاکستان تحریک انصاف نے بھی پاکستانی سیاست کو ایک نیا زاویہ دینے کی کوشش کی ہے اور عمران خان اور ان کی پارٹی نے پورے پاکستان نہ سہی خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سیاسی جماعتوں کو خود احتسابی کا موقع ضرور فراہم کیا ہے۔ علامہ طاہر القادری بھی پاکستان میں ایک روشنی کی کرن کے طور پر نظر آئے تھے لیکن اس سورج کو بھی پاکستانی سیاست کا گہن لگ گیا نتیجتاً وہ بھی منظر عام سے ہٹ گئے تاہم ان کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہونچا ہے۔

                اب جبکہ پاکستان نئے انتخابات کی راہ پر ہے اور پاکستان میں نگراں حکومت کا معاملہ درپیش ہے ہمیں یہ امید کرنی چاہیے کہ یہ مرحلہ بھی اسی سیاسی سوجھ بوجھ سے حل کر لیا جائے گا جس سے پاکستان میں جمہوریت کی نئی تاریخ لکھی گئی ہے تاکہ ملک مستحکم ہو سکے اور اس کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دی جا سکے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *